اجے کمار سنگھ
ڈاکٹرعباس رضا نیر ایک بہترین شاعر، خطیب، نقاد اور ناظم ہیں۔ ان کی علمی اور ادبی صلاحیتوں کا پتہ اسی بات سے چلتا ہے کہ مختلف موضوعات پر ان کی ۳۶؍ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ہندوستان ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر ایک بہترین ناظم اور شاعر کے طور پر وہ اپنی پہچان بنا چکے ڈاکٹر عباس رضا نیر لکھنؤ یونیورسٹی میں صدر شعبۂ اردو کے طور پر اپنی خدمات کو بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ عباس رضانیر کی علمی اور تخلیقی صلاحیتوں پر میں کچھ کہوں اتنی میری بساط نہیں لیکن جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں وہ ایک طالب علمانہ احساس ہے جو پیش کر رہا ہوں۔
ڈاکٹر عباس رضا نیر کی شاعری میں غزلیں، نظمیں، مرثیہ، سلام، نوحے کثیر تعداد میں شامل ہیں جو وقت وقت پر منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر کی نظموں کی بات کی جائے تو زیادہ تر آزاد نظمیں شامل ہیں اس کے ساتھ انہوں نے کئی نئے تجربے کئے ہیں۔ ان کی نظموں پر بات شروع کرتے ہوئے ان مصرعوں سے آغاز کرتے ہیں۔
رشتہ ہے اس کے ذہن سے وہ میری ذات کا
میٹھے سے درد کا جو تعلق ہے چوٹ سے
سناٹوں میں سموئے ہوئے لفظ کی طرح
سنتا ہے وہ مجھے مری نظموں کی اوٹ سے
میں نے جب ڈاکٹر عباس رضا نیر کی غزلوں اور نظموں کو پڑھا تو مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ ڈاکٹر عباس رضا نیر کی شاعری میں بہت گہرائی ہے۔ ان کا مشاہدہ اور تخیل بہت بلند ہے۔ تاریخ اسلامی اور تمام مذاہب اور تہذیب پر گہری نظر، علمی و ادبی مسائل کی باریکی بھی ان کی شاعری میں آسانی سے مل جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دورِ حاضر کے مختلف مسائل بھی ڈاکٹر عباس رضا نیر نے اپنی شاعری میں پیش کیے ہیں جس میں سے ایک سیاست ہے۔ سیاست آج کے دور کا بہت اہم موضوع ہے۔ ہر خاص و عام اس پر اپنا نظریہ رکھتا ہے۔ موجودہ دور میں ہندوستان میں سیاست بھی اسی طرح کا موضوع بنی ہوئی ہے اور یہی سب وجہ رہی ہے کہ ڈاکٹر عباس رضا نیر نے سیاست کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ نظم’’کھیل سیاست کا‘‘ میں بڑے معنی خیز انداز میں انہوں نے اپنی بات پیش کی ہے۔ چند سطریں ملاحظہ ہوں:
پنڈت جی کو گوشت کھلا کر
مولانا کو جام پلا کر
مذہب کا بیوپار چلے گا
نفرت کا بازار چلے گا
کرسی کا دربار سجے گا
اچھا کاروبار چلے گا
گائے کوئی پھر زخمی ہوگی
انسانوں کا خون بہے گا
گیتا اور قرآن جلیںگے
پھر زندہ انسان جلیںگے
ان مصرعوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ آج کا سیاسی دور کس طرح کا ہے۔ انھیں سیاسی پس منظروں کو ڈاکٹر عباس رضا نیر نے نظم میں بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر کی شاعری میں رشتوں کی پاسداری کا عنصر بہت زیادہ نظر آتا ہے اور وہ خود بھی ہر رشتے کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ بھائی، بہن، والدین، شاگرد تقریباً سبھی کو اس کے حق کے مطابق اہمیت دیتے ہیں۔ اور یہی ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر کی شاعری کا کینوس تو بہت وسیع ہے۔ ہر بات کو سماجی اور معاشرتی طور پر پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی شاعری میں نظم کر دیتے ہیں۔ ان کی نظم ’’ایک چٹھی ماں کے نام‘‘ اسی وسیع کینوس کا بڑا ثبوت ہے۔ ایک بیٹا جب اپنی ماں سے بچھڑتا ہے پھر وہ روزی روٹی کے لئے ودیش جا رہا ہو یا سرحد پر تعینات ہونے یا کسی اور وجہ سے بچھڑنا پڑا ہو ایسی کسی صورت میں جب بیٹے کو ماں کی یاد آتی ہے تو ایک چٹھی لکھتا ہے اور اپنی خیریت بتاتا ہے حالانکہ آج کل تو دوری ختم ہو گئی ہے دنیا بالکل گلوبل ولیج میں تبدیل ہو گئی ہے۔ آپ جس وقت چاہیں اپنی ماں یا کسی اور فرد سے اس کی شکل دیکھتے ہوئے بات کر سکتے ہیں، لیکن شاعر اس نظم کے بہانے ماضی کے طور طریقوں کو بھی یاد کرتا ہے۔ کچھ عرصے پہلے یہ سب آسانی سے ممکن نہیں تھا، ایسے میں شاعر اپنی ماں کے نام خط لکھتا ہے نظم ’’ایک چٹھی ماں کے نام‘‘کے چند مصرعے آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، ملاحظہ ہو:
دن گزرا
زخمی کاندھے پر
سورج ڈھوتے ڈھوتے
شام ڈھلے دکھتی پیروں کو
بستر یاد آیا
خواب میں آئی
وہی سڑک
اور اسی سڑک پر
شور
میری ماں
پرواہ مت کر
میں بڑے مزے میں ہوں
اس نظم سے ڈاکٹر عباس رضا نیر صاحب نے مجھے بہت متاثر کیا کہ ایک بیٹا جو کبھی بھی اپنی ماں کو دکھی نہیں دیکھ سکتا وہ چاہے جس تکلیف میں ہو ظاہر نہیں کرتا لیکن ماں ہے کہ وہ سب جانتی ہے۔ اس کو یہ احساس دلانے کے لئے سب ٹھیک ہے بار بار یہ کہتا ہے ماں میں مزے میں ہوں ٹھیک ہوں۔
ڈاکٹر عباس رضا نیر کی شاعری میں زندگی کی تلخ حقیقتیں بھی بہت مانوس لہجے میں شامل ہیں۔ زندگی، موت، مفلسی، غربت یہ تمام احساس ان کے یہاں آسانی سے نظر آ جاتے ہیں۔ میں جتنے وقت سے ڈاکٹر عباس رضا نیر صاحب کو جانتا ہوں، میں نے ہمیشہ یہی پایا ہے کہ زمین سے جڑاؤ، فقیرانہ مزاج، بڑوں کو عزت واحترام، چھوٹوں سے پر خلوص محبت ہی عام طور سے ان کی زندگی، شاعری دونوں میں نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر بچپن سے بیحد غربت میں اپنی زندگی بسر کرتے ہوئے آج اس مقام پر پہنچے ہیں لیکن اپنے مزاج کی وجہ سے وہ اس وقت کو نہیں بھول پاتے اور اسی لئے غربت اور مفلسی جس نے جی ہے وہ بہت حد تک اس درد سے واقف ہوگا اور اس کو بیان کس طرح سے کرتا ہے یہ دیکھنے والی بات ہے۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر نے اپنی نظم ’’روٹیوں کی قید میں‘‘ میں اپنے اسی احساس کو پیش کیا جو وہ جب لکھنؤ میں مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اس وقت کیسے حالات تھے اس کوبڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
بہت بڑا ہے یہ ایک احسان روٹیوں کا
جسے چکانے میں عمر میری گزر گئی ہے
صدائیں دیتے ہیں کھیت مجھ کو
بلاتا رہتا ہے گاؤں میرا
پکارتے ہیں وہ سارے رشتے
مگر میں اب کیسے جاؤں واپس
اتاروں کیسے؟
یہ ایک احسان اپنے سر سے
نہیں ہے زنجیر کوئی لیکن
میں ایک قیدی ہوں روٹیوں کا
کس خوبصورت لہجے میں ہر انسان کے دل کی بات کو صفحۂ قرطاس پر انہوں نے پرو دیا ہے۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر کی شاعری کے مختلف رنگوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ بہت وسیع نظر رکھتے ہیں اور ان کے تخیل کا کینوس اتنا بڑا ہے کہ کئی عہد اس میں سمٹ کر آ جاتے ہیں۔ وہ جس طرح زندگی کی تمام قدروں کو بہت خوبی سے پہچانتے ہیں یہ ان نظموں میں صاف طور پر’’شناخت ‘‘’’وشرام ‘‘،’’تعلق ‘‘، ’’اعتراف ‘‘’’تحویل‘‘ وغیرہ عنوانات سے ہی سامنے آجاتا ہے۔
وہ بچپن کو اپنی آنکھوں سے جس طرح سے دیکھتے ہیں، اسی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں جیسے نظم کو لکھتے وقت واپس اپنے بچپن میں پہنچ جاتے ہیں اس کی ایک مثال کے طور پر نظم’’شرارتیں‘‘ کے کچھ مصرعے ملاحظہ ہوں:
تالابوں میں کنکر پھینکو
کنویں میں جھانکو
ہو ہو کرکے زور سے چیخو
آم اور جامن کے پیڑوں پر پتھر مارو
نیم کے نیچے کنچے کھیلو
کٹی پتنگ پر لنگر ڈالو
دوڑ کے جاؤ
اوک سے اپنی پیاس بجھاؤ
بی آپا کی کالی مرغی انڈے دے تو
اسے چرا کر پرچونی کو بیچ بھی آؤ
بچپن کی شرارتیں لڑکپن بے فکری جو کسی دوسری عمر کی منزل میں مل نہیں سکتی اور اس قیمتی احساس کو انہوں نے بہت ہی نمایاں طور پر پیش کیا ہے۔ بچوں کی شرارتوں میں ان کی ذہانت کو پہچاننے کے لیے والدین کی نظر کو کس طرح پیش کیا وہ نظم’’عرفان‘‘ سے واضح ہو جاتا ہے اس کے چند مصرعے یہاں آپ کے پیش نظر ہیں:
ابھی ابھی یہ ٹھنڈا پانی
جلتے توے پر ڈال رہی تھی
یہ مجلس سے واپس آ کر
اکثر ایسا کیوں کرتی ہے
یا تو یہ نادان بہت ہے
یا اس کو عرفان بہت ہے
ڈاکٹر عباس رضا نیر زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بے حد سنجیدہ لہجے میں بیان کرتے ہیں۔ ان کی نظموں کے عنوان جیسے ’’فوٹو فریم‘‘، ’’مجسمے کی آخری خواہش‘‘، ’’میرا حاسد‘‘، ’’قبر کی مٹی نم کر لی ہے ‘‘ وغیرہ میں زندگی کے مسائل بہت معنی خیز انداز میں واضح ہوتے ہیں۔ نظم’’فوٹو فریم‘‘ جو کہ ذاتی طور پر مجھے بیحد پسند ہے وہ اس لئے کہ اس میں ڈاکٹرعباس رضا نیر نے جس موضوع کو اٹھایا ہے اس موضوع کو ایک چھوٹے سے فوٹو فریم میں سمیٹا ہے اور اسی کے ذریعہ اپنی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ ادھڑا ہوا پلاستر جو کبھی شاندار حویلی کی دیوار پر سجا تھا اور اس پر ایک خوبصورت سا فوٹو فریم سجا ہوا تھا جو کہ اب ادھڑے ہوئے پلاستر کے ساتھ نیچے گر گیا ہے اور اپنی کہانی سنانے کو بیقرار ہے۔ ہم ان کی نظم فوٹو فریم کو کئی پہلوؤں سے دیکھتے ہیں اور یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ وقت ہر وقت ایک جیسا نہیں رہتا ہمیشہ تبدیل ہوتا ہے اور ہر وقت نئی حقیقتوں کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ ادھڑا ہوا پلاستر موجودہ دور ہے جو کہ زوال آمادہ ہے اور بچی کی ٹوکری پر امید عہد کی نشاندہی کرتی ہے نظم فوٹو فریم کے چند مصرعے مثال کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں ملاحظہ ہو:
وہ کیل بھی اب نہیں بچی ہے
سہارا تھی اس شکستہ فوٹوفریم کا جو
فریم میں لیکن ایک بچی
جو اپنی ڈلیا میں تازہ پھولوں کو چن رہی ہے
جو ننھی کلیوں کے منھ پہ منھ رکھ کے اپنے دل
کی ہر اک کہانی
سنا رہی ہے
نہ جانے کب سے
وہ بچی اب مجھ سے کہہ رہی ہے
جو ہو سکے تو میری کہانی
تم اپنی نظموں میں ڈھال دینا
اب بات کرتے ہیں ڈاکٹر عباس رضا نیر کی نظموں میں ایک منفرد نظم کی جو کہ بہت اہم ہے کیوں کہ وہ ایسی نظم سے جس کو پڑھ کر تمام قاری اسے اپنے سے جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں۔ نظم کا عنوان’’میرا حاسد‘‘ ہے۔ ہم یہ ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نظم’’میرا حاسد‘‘ میں حسد کے احساس کو ڈاکٹر عباس رضا نیر نے جس طرح سے پیش کیا ہے ویسی مثال آسانی سے دیکھنے کو نہیں ملتی ہے اور اتنے سلیس لہجے میں اپنی بات کہی ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو ان مسائل سے جڑا ہوا پاتا ہے۔ نظم ’’میرا حاسد‘‘ کو پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ حاسد کس طرح سے گھٹتا ہے اور اس کو کچھ نہیں ملتا ہے اور جب اس بات کو گہرائی سے دیکھیے تو اس کا پس منظر ہمیں قرآن شریف میں ’’و من شر حاسد اذاحسد‘‘ میں صاف طور پر نظر آتا ہے۔ نظم میرا حاسد کے چند مصرعے آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ملاحظہ ہوں:
میرا حاسد
مجھے بدنام کرنے کے لئے
ہر دن نئے الزام دیتا ہے
انہیں اخبار میں چھپوا کے
یوں خوش ہوتا ہے
جیسے کہ موت آ ہی گئی مجھ کو
مجھے تسلیم
موت آنا یقینی ہے
مگر میں اپنے حاسد کو
اگر خود قتل ہونے کے طریقے بھی بتا دوں
پھر بھی مجھ کو قتل کرنے کی صلاحیت نہیں اس میں
اس باعث تو وہ گھٹ گھٹ کے اپنی زندگی برباد کرتا ہے
حاسد کو حسد کرنے سے صرف نقصان ہوتا ہے اور اس دنیا میں ہر شخص اس احساس کو کبھی نہ کبھی محسوس کرتا ہے۔ اس موضوع کے سارے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ڈاکٹر عباس رضا نیر نے اس نظم کے ذریعہ اپنی فنی بصیرت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
ان تمام پہلوؤں کے علاوہ کچھ نئے تجربے بھی ڈاکٹر عباس رضا نیر نے اپنی شاعری میں کیے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک نظم’’دریچہ‘‘ جس میں انہوں نے اپنی شخصیت کے تمام تر پہلوؤں کو زندگی کے سفر اور شاعری کرنے کے حوصلے کو پیش کیا ہے۔ اس نظم کی خوبی یہ ہے کہ یہ نظم عام طور سے نہیں لکھی گئی بلکہ ’’نثر مرجز‘‘ میں پیش کی گئی ہے جو کہ اردو ادب میں پہلا تجربہ ہے۔ ان سے پہلے یہ تجربہ اردو کے مشہور شاعر اور ماہر لسانیات انشاء اللہ خاں انشا نے فارسی میں پیش کیا ہے۔ اس نظم کو پڑھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ندی کی تیز دھارا بہہ رہی ہو۔ اس نظم کا ایک حصہ پیش ہے ملاحظہ ہو:
’’موجۂ خونِ جگر تو ہی بتا!۔۔۔۔۔لوحِ دل پر نئے حالات، نئے عہد، نئے درد کا ماتم لکھوں۔۔۔۔۔زندگی تجھ کو سجانے کے لئے دنیا میں ۔چار موسم ہیں یقینالیکن، جانے کیوں ہوتا ہے محسوس کہ انسانوں سے، چاروں موسم ہی خفا ہوں جیسے۔ کسی موسم کی کسی شاخ، کسی پھول، کسی پتے پر، کوئی بھی رنگ نہیں کھلتا ہے۔ آنچ دیتا ہوا احساس سوالی ہے کروں کیا آخر۔۔۔۔۔؟ لفظ کو زخم لکھوں، زخم کو مرہم لکھوں۔۔۔۔۔؟خار کو پھول لکھوں۔۔۔۔۔؟دھوپ کو شبنم لکھوں۔۔۔۔۔؟یا کوئی پانچواں موسم لکھوں۔۔۔۔۔؟‘‘
اس کے علاوہ ڈاکٹر عباس رضا نیر نے اپنی شاعری میں کئی جگہ ہندی کے الفاظ کا استعمال کیا ہے، وہ چاہے نظموں کے عنوان جیسے وشرام، بھونچال، ویدانت، بھور سمے، اور سمجھوتہ‘‘ کے ساتھ کئی جگہ بڑے معنوی انداز میں الفاظ جیسے گھنگھور، بیوپار، بیت، جیت وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ایک مثال پیش ہے۔ نظم ’’کشتی بہتی جائے‘‘ سے ایک مصرع پیش ہے۔
برس رہی ہے حد نظر تک ایک گھٹا گھنگھور
ڈاکٹر عباس رضا نیر اپنی مسلسل ادبی علمی اور تخلیقی صلاحیتوں کے باعث پوری دنیا میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔ اور دن بہ دن ترقی کی منزلوں کو چھوتے جا رہے ہے۔
عباس رضا نیر کے شعری مجموعے ’’آہٹ پانچویں موسم کی‘‘ میں نظموں کے ساتھ ساتھ غزلیں بھی شامل ہیں اب ہم اپنی گفتگو کو ان کی غزلوں کی تفہیم کی طرف مرکوز کرتے ہیں۔
ادب میں غزلوں کا جو مقام ہے وہ کسی دوسری صنف کو حاصل نہیں۔ قدیم دور سے اب تک اردو ادب میں کئی دور گزرے ہیں اور بہت عظیم شعرا کی شاعری پڑھ کر ہم بڑے ہوئے ہیں۔ غزل کی اپنی ایک خاص کشش ہے۔ غزل کے ذریعے شاعر اپنی بات آسانی سے سامنے والے تک پہنچا دیتا ہے۔ عوام وخواص ، سب کی زندگی کے تمام، سماجی، سیاسی مسائل غزل کے شعروںمیں اشارے کے ساتھ پیش کئے جا سکتے ہیں۔ اسی لئے جو رومانیت غزل کے پاس ہے وہ دوسری کسی صنف کو نصیب نہیں۔ چنانچہ دوسری اصناف میں بھی تغزل کا رنگ تلاش کیا جاتا ہے۔ دور قدیم سے لے کر اب تک کی بات کریں تو یہ سلسلہ میر تقی میر، مرزا غالب، مومن، ناسخ، آتش، ناصر کاظمی، سردار جعفری، کیفی اعظمی، جون ایلیا، افتخار عارف جیسے بڑے شاعروں کی ذریعہ منزلیں طے کرتی ہوئی ڈاکٹر عباس رضا نیر کے قلم کے ذریعہ آگے بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر ایک بہترین شاعر تو ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ نقاد، محقق، مترجم، ناظم، خطیب، مدرس اور ایک بہترین انسان بھی ہیں۔ ان کی انھیں تمام صلاحیتوں کے باعث ان کی ۳۳؍ کتابیں نظم اور نثر میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر نے ادب کے ذخیرے میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔
میرا تعلق ان سے تقریباً ۹ برس سے ہے۔ جب میں پہلی بار لکھنؤ یونیورسٹی میںداخلہ لینے آیا تو بڑا ڈرا ہوا تھا کہ کس طرح کا ماحول ہوگا کس طرح کے استاد ملیں گے لیکن تمام خدشات اس وقت دور ہو گئے جب میری ملاقات ڈاکٹر عباس رضا نیر صاحب سے ہوئی۔ اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ یہ شاعر بھی ہیں۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کرکہا کہ میں تمہیں پڑھاؤںگا آج سے کلاس کے لئے انتظار نہیں کرنا پڑے گا اور میری خوش قسمتی ہے کہ ان کا سایہ میرے سر پر ایک سایہ دار درخت کی طرح ہے اور ہمیشہ بنا رہے گا، میری ہمیشہ یہ دعا رہی ہے۔ وہ ایک بہترین شاعر کے ساتھ ساتھ رحم دل اور مشفق استاد بھی ہیں جو اپنے شاگردوںکی ہر ممکن مدد کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ جب میں نے پہلی بار ان کے اشعار سنے تو اندازہ ہوا کہ ایک استاد کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عباس رضا نیر بہترین شاعر بھی ہیں وہ چند مصرعے میں آپ کی خدمت میں حاضر کرنا چاہتا ہوں جن کے ذریعے میں ڈا کٹرعباس رضا نیر کی شاعری سے پہلی بار واقف ہوا۔
لفظ در لفظ خیالات تجھے چھو آئے
کیوں نہ اب میری غزل سے تیری خوشبو آئے
کاش ہم دونوں میں کہنے کی بھی دوری نہ رہے
میں چلوں تو میرے سائے کی جگہ تو آئے
عشق کے بھی ادب آداب ہوا کرتے ہیں
گفتگو تجھ سے کرے وہ جسے اردو آئے
یہ اشعار میرے ذہن پہ نقش ہو گئے، آج بھی وقتاً فوقتاً یہ مصرعے میری زبان پر آ ہی جاتے ہیں۔
ڈاکٹرعباس رضا نیر کی شاعری کے امتیازی پہلو پر بات کرنے کے لئے میری عمر بہت کم ہے لیکن ایک شاگرد ہونے کے ناطے جس طرح سے بھی میں نے ان کی شاعری کو سمجھا ہے بیان کرنا چاہئے۔اس جذبے کے تحت میں نے ڈاکٹر عباس رضا نیر کی شاعری کو غیر اردو داں طبقے تک پہنچانے کے مقصد سے اس کا ہندی زبان میں ترجمہ کرکے ’’ڈاکٹر عباس رضا نیر کی سو غزلیں‘‘اور ’’ڈاکٹر عباس رضا نیر‘‘ کی سونظمیںکے عنوان سے بھی پیش کیا ہے جو دیوناگری رسم الخط میں شائع ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر کی شاعری میں رومان، تصوف، جدت پسندی، مشرقی روایات کا استعمال، مذہبی اور تاریخی پس منظر کی بھی جھلک آسانی سے دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ ہم یہاں سب سے پہلے غزل میں جس عنصر کو سب سے زیادہ پیش کیا گیا ہے اسی کو پیش کریںگے کہ ڈاکٹر عباس رضا نیر کے یہاں رومان کس طرح سے موجود ہے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
کسی کے عشق نے کتنا بدل دیا نیرؔ
اب اسکے حکم کا لہجہ ہے التجا جیسا
حسن نے بیاں اپنا یوں دیا عدالت میں
عشق کا شکاری ہوں دل شکار کرتا ہوں
ڈاکٹر عباس رضا نیر کی شاعری میں کربلا کا پس منظر بھی جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ حالانکہ کہیں بھی کربلا کے اہم کرداروں کا واضح طور پر تذکرہ نہیں ملتا۔ لیکن پس منظر میں انسانی رشتوں کی قدروں کو اس طرح سے پیش کیا ہے کہ سیدھے دل میں اتر جاتی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
کسی نے رکھ لیا کاندھے پہ پیاس کا پرچم
کسی کے واسطے دشوار ہو گیا پانی
دو کٹے ہاتھوں نے کیا فصل وفا بوئی ہے
ایک پرچم کو اٹھانے کئی بازو آئے
ان اشعار میں کیا خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے کہ پیاس کی شدت اور دوسرے شعر میں ہاتھوں کا کٹنا جو کہ کربلا کا اہم واقعہ ہے جہاں حضرت عباس علیہ السلام کی سقائی کو اپنی غزل میں پیش کیا ہے۔ اس کی نشاندہی ان اشعار سے ہو جاتیہے۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر کی غزلوں میں جدلیاتی نظام بھی اکثر دیکھنے کو مل جاتا ہے اور یہی خوبی ڈاکٹر عباس رضا نیر کو باقی شاعروں سے منفرد کرتی ہے کہ ان کی شاعری میں جدت پسندی سے لبریز اشعار کثیر تعداد میں مل جاتے ہیں۔ جن میں دو شعر ہم یہاں پیش کرتے ہیں:
دریا کو خشک کر گئی یہ کس کی تشنگی
کس کے لہو کی دھار سے خنجر پگھل گئے
یہ برگ زرد نہیں ہیں خزاں کے آنسو ہیں
گئی بہار سے کہہ دو شجر میں لوٹ آئے
یہاں ان کے تخیل کی پرواز کو دیکھیے کس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے خزاں کے آنسوؤں کی منظر کشی کی ہے۔
اب اس کے آگے دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے تمام خوشنما رنگوں کے ساتھ ساتھ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا بھی بول بالا ہے۔ زندگی کے نشیب وفراز، خوشی، غم وغیرہ ان تمام پہلوؤں کی بھی منظر کشی بڑے ہی واضح طریقے سے کی گئی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کھیلنے کی عمر میں ہی کام پر جانے لگے
چھین کر یہ مفلسی بچوں سے بچپن لے گئی
میں فاقوں میں بسر کرتا ہوں اپنی زندگی لیکن
بہت مہنگی مری تصویر بکتی ہے دکانوں میں
یہاں ایک فنکار اور ایک مفلس کا درد ملاحظہ کیجئے۔ ڈاکٹر عباس رضا نیر کی شاعری میں ان تمام خصوصیت کے علاوہ ہمیں تصوفانہ رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ عام مسائل کو عشق حقیقی کے حوالے سے تصوفانہ رنگ دے کر پیش کرتے ہیں۔ ان اشعار سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ ملاحظہ ہو:
سب گیت غزل نظمیں اک چاک پہ رکھی ہیں
یہ گھومتی دنیا بھی دیوان ہے مٹی کا
سوچے کوئی کیا چیز ہے احساس تقدس
قرآن کے صفحے کبھی موڑے نہیں جاتے
تاج شاہی کو الگ رکھ کے کبھی شہر میں آ
دیکھ کیا نام تجھے خلق خدا دیتی ہے
آخر میں عباس رضا نیر کی شاعری کے بارے میں مجموعی طور پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ ’’آہٹ پانچویں موسم کی‘‘ کے ذریعہ انہوں نے اپنی بے پناہ شعری صلاحیتوں کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو،
لکھنؤ یونیورسٹی لکھنؤ
7275023040
٭٭٭