9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
جبیں نازاں
یہ ایک نادید تصور ہے
کہ اسےا س جزیرہ پربیٹھی ہوئی لڑکی ملی تھی کبھی وہ عام سی لڑکی تھی لیکن اس کی آنکھیں نہایت حسیں تھیں ان آنکھوں میں ساری دنیابستی تھی وہ یہ آنکھیں دیکھ کرپہلی بار نئی نئی دنیا سے متعارف ہواتھا یہ وہ دنیا نہیں تھی جہاں جنگ وجدال کامیدان سجارہتا ہے آگ وخون کا تماشہ ہوتا ہےمکروریا کا بازار سجاہوتا ہے – رشتےناتےکی دھینگا مشتی کانظارہ ہوتا ہے –
یہ دنیا رنگ وبوکا گلستان،
اخلاص ومحبت کی وادیاں نورونکہت کا کہسار، فرط ومسرت کاآبشار ،ایثارووفاکا سمندرتھیں
اس نے کہاتھا__”میں اگلےسال پھرآؤں گا!
تم جب بھی آؤ میں یہیں ملوں گی!”
نہ جانےکتنے سال بیت گئےلیکن وہ نہیں آیا
یہ وہم ہے یا تصوراتی کہانی۔۔۔۔کوئی نہیں جانتا۔۔۔
لوگوں کا کہنا کہ یہاں کبھی کوئی لڑکی نہیں پائی گئ
جب سے یہ بستی بسی ہے پتھرکی مورتی ہی دیکھی لو گوں نےبہت ممکن کہ یہ مورتی کو لڑکی سمجھ بیٹھا۔ہو
بہرحال!اس نے بلکتے ہوئےکہا_
خداکرے کہ قیامت ہو،اورتو آئےمورتی کی آنکھیں چومناچاہاپھر ایک جھٹکےکے ساتھ الگ ہوا نہیں،نہیں میں اتنی مقدس آنکھیں نہیں چوم سکتا۔۔۔!
قیامت آئی لیکن تم نہیں آئے۔۔۔۔”
کسی نے سرگوشی کی یہ کس کی آوازہے۔؟آس پاسں کوئی
نہیں،ہوامخاطب تو نہیں۔۔؟نہیں ہوانہیں ہوسکتی یہ آواز ٹھہرو!۔۔غورکرنے دو!یہ وہی آواز ہے
میرے صنم کی آواز، سچ کہتی ہو نہ جانےکتنی قیامت گزری تم پر ،میں بےخبر رہا سچ کہہ رہا ہوں یا میں بے خبر کردیا گیا تھا مجھے ہوش نہیں ،میں تمھیں بھول بیٹھا تھا اس طرح کہ جیسے کوئی بندہ اپنے خدا سے یکسر غافل ہوجاتاہے-
جب زمانے کی تلخیاں رلاتی ہیں تب وحدہ لا شریک کی یاد آتی ہے ان حالات پرمعبود مسکراتاہے
خود غرض بندے کی تڑپ سے
محظوظ ہوتا ہے
تم بھی شایدنہیں،تم خدانہیں، تم صنم ہو،صنم ۔توویساہوتاہےجیساصنم تراش تراشتاہے۔۔۔۔!
لیکن میں نے نہیں تراشا تمھیں تم نےخودکو
میرے خیالوں کے سانچوں میں ڈھال لیاتھا -میرا کیا قصور؟؟
قصور!؟ شاید میرا بھی نہیں تھا؟؟”
اس نے چونک کر نظراوپراٹھائی
نرگس کی ٹہنیاں زوروں سے ہل رہی تھی نرگس کے پھول مجھ سے مخاطب ہیں شاید
یہاں سب تمھارے طرفدار کیوں نہ ہوں؟تم اتنی اچھی جو ہو۔۔۔۔عشق میں صادق رہیں عشق سے بھی زیادہ سچی۔۔۔۔۔!”
میں اگرنہیں آسکا تو۔۔۔۔”
سیلانی اپنا جملہ مکمل نہ کرسکا کیونکہ درمیان میں وہ بول پڑی تمھاری طرح اپنی دنیا بسا لیتی ؟”
نرگس کے پھول سے شبنم کے قطرے ٹپک پڑے – یہ شبنم نہیں میری بے اعتنائیوں پرتمہاری پلکوں سےگرنےوالےوفاکے سچے موتی ہیں میں انھیں زمین پرنہیں گرنے دوں گا۔۔۔”!
اس نےاپنی ہتھیلی پھیلادی لطیف سی ٹھنڈک کااحساس ہوا اس کا وجودکپکپااٹھا مختلف
رنگوں پہ مشتمل خوشنما تتلی اس کےچہرےکوچھو کرگزر گئ فنائےمحب کے بعد محبت کا اعتبار ہوتا رہا ہے ایساکیوں۔۔۔؟”
یہ سوال پروانےکو کرناچاہئے تھاکر رہی ہے تتلی جوخودپھول سےغرض بھر واسطہ رکھتی ہے-
زمانے کی بو العجبی دیکھو! خود فضیحت دوسروں کو نصیحت۔”
تتلی قہقہ زن ہوئی یہ تلملایا
چل ہٹ!خود پسند!پھول کے سارےرنگ کشید کرکے سارے چمن میں اتراتی پھرتی ہے-دیکھو!صنم تم ہنستی تو میں خوش ہوتا لیکن اسےکیاحق حاصل ہے؟”
غم نہ کرو!بےنشاں جزیرہ کے تمام باسی میرےدکھ کےساتھی ہیں۔۔۔۔!”
گلاب کی کسی شاخ پہ بیٹھی بلبل گویا ہوئی
صنم!کس کس کے منہ میں زبان رکھ دی اورخودخموشی کی چادر تان لی!؟؟”
تمام ذی جان میری ہم ذات ہیں وہ بولیں یامیں۔۔۔۔۔۔!بات ایک ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔”
آم کی کسی شاخ پہ بیٹھی کوئل نے سر چھیڑا تو یہ چڑگیا
چل رےکلموہی!بڑی آئی محبت کادرس دینےوالی! اپنی آواز سےدنیا کوبناتی رہ !گرویدہ مجھےنہیں رےجھوٹی! آشیانہ بنانےکا ہنر جانتی نہیں کوے کے گھونسلےمیں اپناانڈاڈال آتی ہےواہ رے تیری عیاری۔۔۔!”
تنہا آشیانہ کس نےبنایاہے؟؟”
آسمان پر بکھرےقوس قزح دیکھ کر پپیہا نے راگ آلاپا جزیرہ کے تمام باسی ایک زبان پپیہاکی حمایت میں اٹھ کھڑےہوئے
اس نےکہا۔__
اس قدرشوروواویلاکیوں؟”
میں صنم کاشیدائی نہیں پجاری ہوں یہ میرا نجی معاملہ ہےکسی کو جاننےکا قطعی حق نہیں”
سیلانی پلٹ کر مورتی کی طرف آیا اس نےچاہا کہ بت کےپاؤں چھولے-لیکن مورتی پتھر میں تحلیل ہوگئی
اس کےچہرےکےسامنے سیاہ دھواں کامرغولہ رقص کرتاہوافلک کی جانب رواں دواں تھا
میں خدانہیں ہوں نہ ہی صنم کہ تم اپنے’ من مندر’کےچوکھٹےمیں مجھےفریم کرکےمیری پرستش کرنے لگوپرستندہ!!
میں تمھاری طرح جیتی جاگتی عام سی روح ہوں-
میں نےتم سےارضی چاہت کی خواہش کااظہارکیاتھا،میری یہ خواہش گناہ تھی سیلانی!؟ ”
پرستش اس چاہت سےکہیں زیادہ جان لیواامرہے میرے سیلانی!
جس کےمتحمل تم ہرگز نہیں۔۔۔۔”
دھواں کامرغولہ غائب ہوچکاتھا پوری فضابے نام سی دھندمیں لپٹ چکی تھی دھنداتنی گہری کہ شام کاگمان ہو-گرچہ سیلانی دھندمیں گھراتھاباوجوداس کےدھندکاحصہ نہ بن سکا!
ضضض