عرفان عارف
عارف نقوی ہمہ جہت قسم کے ادیب ہیں ۔وہ نقاد بھی ہیں،شاعراور عالم بھی، ان کی تخلیقات بھی ان کی شخصیت کی طرح متنوع پہلوؤں میں نظر آتی ہیں۔وہ چاہے اردو، ہندی، جرمن، انگریزی زبانوں میںمو جود کہانیاں۔ نظمیں۔ غزلیں ہوں یا ڈرامے۔ مضامین۔ خاکے ، افسانے ۔ ہر ایک میں ان کا رنگ جداگانہ دیکھا جا سکتاہے۔ اب تک جو کتا بیں ان کی منظر عام پر آئیں ہیں ان میں ۱۔’’تلاشِ سحر‘‘ (افسانے،ڈرامے)،۲۔’زخموں کے چراغ‘ (نظمیں امن کے موضوع پر ۔ اردو ، ہندی ، جرمن زبان میں)،۳۔’جرمنی کل اور آج ‘ جرمن تایخ کا تجزیہ،۴۔’ایک سے چار‘ کہانیاں ہندی میں،۵۔’جرمنی اتہاس کے درپن میں‘، تجزیہ، ہندی میں،۶۔’پیاسی دھرتی جلتے سائے‘، افسانے،۷۔’خلش‘ ، نظمیں، غزلیں،۸۔’یادوں کے چراغ‘، خاکے لکھنئو کے بارے میں،۹۔’نقوشِ آوارہ‘ ، خاکے دہلی میں قیام کے بارے میں،۱۰۔’کھلتی کلیاں‘ نظمیں، غزلیں،۱۱۔’نصف صدی جرمنی میں‘ جرمنی ۵۰ سالہ میں قیام کی داستان،۱۲۔’کیرم سے رشتہ‘ ، چالیس سالہ تجربات، ۱۳۔Relation with International Carrom (انگریزی میں)چالیس سالہ تجربات، ۱۴۔ Dornen und Rosen (جرمن زبان میں) نظمیں ، غزلیں،۱۵۔’سوئے فردوسِ زمیں‘ ، افسانوں کا مجموعہ،۱۶۔Zum Paradies auf Erden (جرمن زبان میں) افسانوں کا مجموعہ،۱۷۔’راہِ الفت میں گامزن ‘، سفرنامے ،۱۸۔’طائرِ آوارہ‘، سفر نامے ،۱۹۔’آسمانِ ادب کا ستارہ عارف نقوی‘ عارف نقوی کے مضامین اور عارف نقوی کے بارے میں لکھے گئے مضامین ،(مرتبہ: پروفیسر اسلم جمشید پوری، صدر شعبہء اردوسی سی ایس یونیورسٹی میرٹھ) ،۲۰۔’جلتی بجھتی یادیں‘ (عارف نقوی کی آپ بیتی) اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی (پاکستان) ،۲۱۔’انسان زندہ ہے‘ (نظمیں ، غزلیں اردو اور ہندی میں) زیر اشاعت۔عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، ۲۲۔ ’نامے‘ عارف نقوی کے نام خطوط ۔ مرتبہ پروفیسر اسلم جمشید پوری ،۲۳۔’’عارف نقوی کے ڈرامے ،۲۴۔ ’’چراغ جلتے رہیں گے میںا گر نہیں نہ سہی ‘‘ ، ۲۵۔ ’میرا ادبی سفر نامہ‘ زیر ترتیب قابل ذکر ہیں ۔
عارف نقوی کی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے ہو ا ہے ۔’’ راہِ ادب میں بھٹکتا مسافر ‘‘، میں ہمیں اس کا بھی انکشاف ہوتا ہے ۔خود لکھتے ہیںکہ
’’شعر و شاعری کا شوق مجھے لڑکپن سے رہا ہے۔ لکھنئو میں میں اپنے چچا کے ساتھ جس بنگلے میں رہتا تھا ،وہ چکبست روڈ نامی سڑک پر تھا جو شہر کے ایک مشہور شاعر برج موہن چکبست کے نام سے منسوب تھی۔ میرے چچا لکھنئو میونسپل کارپوریشن کے چیف ایکزیکیٹو افسر تھے اس لئے بنگلہ میں جو مشاعرے ہوتے تھے ان میں زیادہ تر ان کے ملاقاتی افسر اور شہر کے مخصوص شعراء جسٹس آنند نرائن ملّا، جعفر علی خاں اثر وغیرہ اور چند خاص شعراء شرکت کرتے تھے، جیسے نہال رضوی، شارب لکھنوی۔ یہ مشاعرے تیسرے پہر کو شروع ہوتے اورمغرب کی نماز یا کبھی کبھی عشاء کی نماز سے قبل ختم ہوجاتے تھے۔ ‘‘
عارف نقوی اپنے مضامین میں اکثر حسن و عشق کے رنگ اور نور برساتے نظر آتے ہیں۔کہیں حقائق کی دنیا میں سماج کی آنکھیں کھولتے ہیں تو کہیں اپنے شائقین کو موت اور حیات کے فلسفے بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
’’ اور مجھے غالب کا یہ قول یاد آجاتا ہے۔ مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں۔ بلکہ میں تو کہوں گا: مشکلوں نے میری ہستی میں صداقت بھردی۔پچھلے چند سالوں میں میرے اتنے دوست ، اقارب، کرم فرما، وہ ہستیاں جن پر مجھے ناز تھا اور ہے ، جن کی تصویریں میرے البم میں مجھے زندگی کی رمق دیتی ہیں، چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ میری ہی طرح چراغ سحری ہیں۔‘‘
ان مضامیں میں لطافت، حسن ِ فطرت ، شدت جذبات اور جمالیاتی احساس کی فراوانی دیکھنے کو ملتی ہے۔عارف نقوی کا شمار ترقی پسند تحریک کے بڑوں میں ہوتا ہے ۔ ترقی پسندی کے ساتھ ساتھ انہوں نے ادب لطیف ، جدیدیت ، مابعد جدیدیت جیسے رجحانات اور تحریکوں کو نہ صرف ابھرتے۔ پھلتے پھولتے دیکھا بلکہ کچھ کو آپ اپنی موت مرتے اور دم توڑتے بھی دیکھا ہے ۔چنانچہ خود ان کے درج ذیل اشعار میں ان کیفیات کو دیکھا جا سکتا ہے ۔
میں نہ شار ہوں، مغنی ہوں نہ فنکار ہوں میں میں بس انسان ہوں انسان ہوں انسان ہوں میں
اتنا بہا ہے خون میرا اس دیار میں
گزرا ہوں میں جدھر سے ادھر لالہ زار ہے
اک داغ ہے سینے میں دو اشک ہیں آنکھوں میں
مفلس نہ مجھے سمجھو یہ میرا خزانہ ہے
اردو میری زبان ہے کمتر نہیں کوئی
الفت کی ترجمان ہے ہمسر نہیں کوئی
لفظ کا حسن اور اس کی توانائی اس کے صحت ِ استعمال بلکہ حسن ِ استعمال میں پوشیدہ ہے اور یہ فن عارف نقوی کو بخوبی آتا ہے۔ خود بھی الفاظ کو برتنے کا سلیقہ جانتے ہیں اوروں کے اشعار میں بھی یہ خوبیاں مل جائیں تو سراہتے ہیں۔اردو کے قدیم شعراء میں میر ، انشا ء ، ظفر ، اقبال ، فیض، حسرت ، جگر ، احسان دانش، علی سردار جعفری، مخدوم محی الدین،مجروح سلطانپوری ،ساحر الدھیانوی اورکیفی اعظمی کی نظموں اور غزلوں وغیرہ کے اشعار خاص طور سے انھیں پسند ہیں اور خود اس کتاب میں کچھ اشعار درج کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ
’’میرے خیال سے انہوں نے میرے شعری ارتقاء میںبہت زیادہ مدد دی ہے۔ان میں سے چند ملاحظہ کیجئے:
کل پائوں ایک کاسہء سر پر جو آ پڑا
ناگہ وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر ِ پر غرور تھا
(میر تقی میرؔ)
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
(غالب)
نہ چھیڑاے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
(انشاء)
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
( بہادر شاہ ظفر)
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
(اقبال)
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون ِ دل میں ڈبولی ہیں انگلیا میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہرایک حلقہء زنجیر میں زباں میں نے
(فیض احمد فیض)
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تیری زلفوں کا پیچ وخم نہیںہے
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکنتو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
(اسرارالحق مجاز)
عارف نقوی نے جہاں ادب کے نامور اورمقبول شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں سے کسب فیض کیا، متاثر ہوئے یا اپنے رشتوں کو استوار رکھا وہیں انھوں نے فلمی دینا کے مشہور و معروف ستاروں اور سیا سی رہنماؤں سے بھی دوستانہ برقرار رکھا۔ملا حظہ ہوں چند اقتباسات
’’اکثر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چھوٹی بڑی، اچھی بری کہانیاں لکھ کر یا مضامین لکھ کر اور اپنے نام کا ڈنکا بجواکر ہم اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔وہی کہانیاںاور نظمیں اردو کی مقبولیت میں رول ادا کرتی ہیں جو انسانی زندگی کے قریب ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ بہت سے غیر اردو داں سمجھے جانے والے لوگوںنے اس زبان کو مقبول بنانے میں بہت اہم رول ادا کئے ہیں۔ مثلاًوہ اردو گیت جو فلم کے آسمان پر اٹھ کر لتا منگیشکر، کے ایل سہگل، مناڈے اور مکیش کی شیرینی اور دردبھری آواز سے لوگوں کے دلوں میں اتر گئے ہیں ، کہ بچّہ بچّہ انہیں گنگناتا ہے ، یا جگجیت سنگھ، چترا اور دیگر پنجابی اور بنگالی گلو کاروں کے ہونٹوں سے نکل کر لوگوں کے دلوں میں پیوست ہو گئے ہیں، یا وہ ناٹک اور فلم کے اداکار جن کے ادا کئے ہوئے اردو مکالموں نے لوگوں کو رُلایا، ہنسایا ، ان کے دلوں کو گرمایا اور ان میں زندگی کی رمق پیدا کی ہے ، اردو کے فروغ کا بڑا سہراان کے سر بھی ہے۔
ایسے ہی دو اورستاروں سے میرا سابقہ پڑا ہے۔ پرتھوی راج کپور ، جو میرے لئے بڑے بھائی کے برابر تھے۔
دوسری شخصیت سنیل دت کی تھی ، جن سے میں نے ایک صحافی کی حیثیت سے ملاقات کی تھی، لیکن جلد ہی ہم دونوں بہترین دوست بن گئے تھے، ۔سنیل دت اور اس کی اہلیہ نرگس دت ہمارے فیملی فرینڈ بھی ہو گئے تھے۔ میں نے بمبئی میں بھی ان کی میزبانی کا لطف اٹھایا اور وہ جب بھی جرمنی آتے ہم لوگ ساتھ رہتے۔ وہ سرمایہ دارطبقے سے تعلق رکھنے والے اورمیں ترقی پسند خیالات کا نمائندہ ، وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے والے اور میں سیدھی سادی زندگی گزارنے والا انسان۔ لیکن پھر بھی ہماری دوستی بڑھتی گئی،
ہماری دوستی کی بنیادفلموں میں دلچسپی سے زیادہ اردو شعر و شاعری تھی۔ سنیل دت سے جب بھی ملاقات ہوتی اس کے ہونٹوں سے اردو اشعار پھول بن کر جھڑنے لگتے۔اکثر گھنٹوں وہ مجھے اور دوسرے دوستوں کو اردواشعار سناکر رعب ڈالنے کی کوشش کرتا۔ عام طور سے میںنے دیکھا ہے کہ لوگ جب شاعری کرنے لگتے ہیں ، تو زبردستی دوسروں کو اپنے اشعار سنا کر مرعوب کرتے ہیں یا اس کا بہانہ ڈھونڈھتے ہیں۔ لیکن سنیل دت اپنے نہیں بلکہ دوسروں کے اشعار سناتا ، ان کے مطلب بتاتا ، ان کا پس منظر سمجھاتا، کبھی کبھی ان کے مطلب انگریزی میں سمجھاتا اور لطف لے لے کر جھوم جھوم کربار بار دوہراتا تھا۔ جیسے خود اسی کے لکھے ہوئے اشعار ہوں۔ انداز اتنا پیارا ہوتا تھا کہ جی چاہتا تھا بس سنتے ہی رہو۔ ‘‘
عارف نقوی نے جن سیا سی رہنماؤں سے ملا قاتیں کی ہیں ان میں صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین ،وزیراعظم اندراگاندھی،صدر جمہوریہ وی وی گیری ، صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔میں یہاں صرف ایک ملاقات کا ذکر کرتا ہوں ۔ ملاحظہ فرمائیں یہ اقتباس :
’’۱۹۷۴ء میں مجھے ایک بار پھر ہندوستان جانے کا موقع ملا۔ اس بار بھی دہلی، لکھنؤ ، بمبئی وغیرہ میں دوستوں اور بہت سے ادیبوں، صحافیوں اور سیاست دانوں سے ملاقات کے موقعے ملے۔ ہندوستان آنے کے بعد میں نے صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد کو ایک خط میں اطلاع دی کہ میں آیا ہوا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔
چنانچہ میں نے دہلی جا کراس وقت کے صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد سے ۱۱؍ نومبر کو راشٹر پتی بھون میں ملاقات کی اور ان کو اپنی کتابیں’’ تلاش سحر، زخموں کے چراغ، ایک سے چار، جرمنی کل اور آج ، جرمنی اتہاس کے درپن میںاور پیاسی دھرتی جلتے سائے ‘‘پیش کیں اور ان کی دعائیں لیں۔‘‘
عارف نقوی نے زندگی میںاب تک جن علمی ،ادبی اور سماجی ، کانفرنسوں، سیمنیاروں، محفلوں ، مجلسوں ، مشاعروں ، وبیناروں اور جلسوں میں شرکت کی ہے ان سب کا ذکر ناممکن ہے بہرحال چند ایک کا ذکر خود انھوں نے اس کتاب میںکیا ہے ۔میں ترقی پسند تحریک کے بنیاد گزاروں کی کانفرنس میں شامل ہونے والے واقع کا اقتباس نقل کرتا ہوں۔
’’اس کانفرنس میں ہندوستان سے جن ادیبوں نے شرکت کی ان میں ملک راج آنند، سجاد ظہیر، رضیہ سجاد ظہیر، امرت رائے اورعارف نقوی (راقم) شامل تھے۔ یوں سمجھئے کہ ۵۱ ممالک کے تقریباً دو سو ادیب شرکت کر رہے تھے۔جی ڈی آر کے نائب وزیر اعظم الکزانڈر آبش اس کے اعزازی مہمان تھے،ــ‘‘
اس علا وہ اور بھی ایسے بے بہا واقعات اس کتاب میں موجود ہیں جن سے ہم ہندوستانیوں کے علم میں استفادہ ہوتا ہے ،ہمارے یہاں کسی تقریب میں اگر کوئی سیاسی لیڈر مدعو ہو یا کسی کو مہمان خصوصی کے طور پر دعوت دی گئی ہو تو سمجھو کہ سب انہی کی نگہداشت میں نظر آئے گا ۔ان کے اہل کا روں کی آہو بھگت الگ ، وقت بے وقت گا ڑیوں کی ریل پیل الگ، اب دیکھیے وہاں کے ایک منظر کا حال بزبان عارف نقوی
’’ تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد جب ہم ’وارٹ بُرگ‘ کے تاریخی پہاڑی قلع کے پاس پہنچے ، تو دیکھا کہ پہاڑی کے پاس اوپر قلع تک جانے والی سڑک کے دونوں طرف بینڈ باجے کے ساتھ استقبال کا بندوبست کیا گیا ہے۔لیکن ایک نوجوان سپاہی نے سامنے آکر اور ہاتھ سے لال لال سگنل دکھا کر کار کو اوپر جانے سے روک دیا۔ ’’آپ اوپر نہیں جا سکتے ہیں۔ اوپر جگہ بھر گئی ہے۔‘‘
’’ہماری گاڑی میں نائب وزیر اعظم اور ان کے مہمان ہیں ۔ ہمیں اوپر تک جانا ہے۔ ‘‘ آبش کے سیکوریٹی افسر نے اس سپاہی سے کہا۔ ” Tut mir Leid (مجھے افسوس ہے) میرے افسر نے کہا ہے کہ اب کوئی کار اوپر نہیں جا سکتی۔ میں مجبور ہوں، ‘‘ سپاہی نے ٹکا سا جواب دیا۔ آبش نے ایک بار گردن باہر نکالی اور کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ گاڑیاں اوپر جاتی ہیں۔ لیکن وہ نوجوان سپاہی ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کے افسر کا حکم اس کے لئے افضل تھا۔آخر تھا تو وہ خالص جرمن، ڈسپلن کا عادی۔ آبش نے بحث نہ کی کار سے نیچے اتر گئے ۔ ہم لوگ بھی نیچے اتر گئے۔ لیکن آبش کی بیگم قلب کی مریضہ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اتنی اونچائی تک پیدل نہیں چل پائیں گی۔ چنانچہ ان کے لئے چھوٹی سی ٹرابانٹ گاڑی کا بندوبست کیا گیا۔‘‘
عارف نقوی شروع سے ترقی پسندیوں کے حلقے سے وابستہ رہے ہیں اور ان کی محفلوں اور مجلسوں میں اٹھتے بیٹھتے رہے اور اپنی تخلیقی قوتوں میںجلا پائی ۔اس بات کا اعتراف بھی اپنی اس کتاب میں کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’ ویسے یہ حقیقت ہے کہ ترقی پسند تحریک اور سرور صاحب اور بعد میںاحتشام حسین صاحب کے گھر پر بارود خانے میں ہونے والے ہر اتوار کو انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں ادیبوں کی تخلیقات کو سن کر اور ان پر بحثوں کو دیکھ کر مجھے بہت کچھ سیکھنے کے موقعے ملے تھے۔ان جلسوں میں کسی ایک ادیب سے کہانی یا مقالہ پڑھنے کے لئے کہا جاتا تھا اور اس پر بے دھڑک دوستانہ بحثیں ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ بال کی کھال تک نکال لی جاتی تھی۔وہ تنقیدیں اس وقت تو بہت کھلتی تھیں۔ ظ انصاری اور باقر مہدی وغیرہ چند لوگ تو ادبی قصائی کی طرح نظر آئے تھے‘‘
عارف نقوی حساس طبعیت کے مالک ہیں کہیں بھی کوئی درد انگیز واقعہ رونما ہو، ان کی آنکھ روتی ہے۔ انھیں درد ہوتا ہے ۔ملاحظہ ہوں یہ اقتباسات
۱۔دلی میں اشتعال انگیز واقعات تھے،جن کا پس منظرشہریت کے قوانین میں تبدیلی، جامع ملیہ کے طلباء کا احتجاج اوراس کے خلاف پولیس کی کاروائی تھا۔ میری روانگی میں صرف چند گھنٹے رہ گئے تھے۔ میں ٹکٹ واپس نہیں کر سکتا تھا۔
۲۔میں نے ایرلائنس والوں کو بہت سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور میرا ٹکٹ ضائع ہو گیا۔اس بیچ وطن سے جو خبریں آتی رہیں ان سے خون خشک ہوتا رہا۔لوگ اتنے بے حس، بے رحم، نا سمجھ ہوسکتے ہیں۔ان کو نفرت و حقارت کا زہر پلا کر اتنا وحشی اورجنونی بنایا جا سکتا ہے کہ وہ خود ہی اپنی قبریں بنانے لگیں، یہ سوچ کرانسانیت پر اعتقاد ڈگمگانے لگتا تھا۔ اور اس ملک جرمنی کی جہاں میں ۶۰ برس سے مقیم ہوں بھیا نک تاریخ یا د آجاتی تھی۔‘‘
۳۔دنیا کے حالات کا مشاہدات، تجربات اور انھیں سمجھنے کی کوشش۔ مثلاً فسطائی جرمن نازی کیمپوں میںبھیانک سختیاں جھیلنے کے باوجود کون لوگ ثابت قدم رہ سکے۔ وہ لوگ جو کسی نظریے کو مانتے تھے، کسی مذہب کو مانتے تھے اور اپنے اصولوں کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار تھے اور دیکھتے تھے کہ ان سے زیادہ آلام اور تکلیفوں کا دوسروں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
عارف نقوی کی شخصیت اور ان کے فکر و فن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ، لکھا جا رہا ہے اور بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔اس حوالے سے بہت سے ادبی رسائل ، جرا ئد ہوں یا اخبارات اور کتابیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مختصراً ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
’’دسمبر ۲۰۱۹ء میں،میں نے کراچی میں ایک عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کی۔ وہاں سے لوٹ کر ہندوستان جانے کا پروگرام بنایا، کیونکہ مجھے دہلی میں غالبؔ کے گولڈن جبلی سیمینار میں شرکت کے لئے غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے دعوت دی گئی تھی اورجواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ایک سیمینار میں مدعو کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی میرٹھ یونیورسٹی کے شعبہء اردو نے بھی مدعو کیا تھا، جہاں کی ایک طالبہ شفا علی نے میری کتاب ’’طائر آوارہ‘‘ پر ایم۔ فل کا مقالہ لکھا ہے اور وہ کتاب کی شکل میں شائع ہو گیا ہے۔‘‘ بقول شاعر
کسی کو ہو نہ سکا اس کے قد کا اندازہ
وہ آسماں ہے مگر سر جھکا ئے چلتا ہے
عارف نقوی دیا ر ِ غیر میں رہ کر اردو زبان و ادب کے فروغ، اسکی ترقی اور بقا کی خاطر جو خدما ت انجام دے رہے ہیں وہ نا قابل فراموش ہیں۔ اللہ ان کو صحت یا ب رکھے جب کہ وہ اسی کتاب میں اپنی صحت کے بارے میں بتاتے ہیں ۔
’’ہندوستان اور کوویت سے واپس لوٹا تو کہا گیا کہ آپ کی ٹانگ میں دل سے پنجے تک لیجانے والی خون کی نلی میںرکاوٹ ہے۔ چنانچہ ایک بڑا بائی پاس کیا گیا ۔ران سے ایڑی تک ایک موٹی نس نکال کر میری ہی دوسری نس ڈالی گئی۔اور اب ۲۰۱۹ء کے اگست میں پیٹ میں ایک بڑا آپریشن کر کے اور بڑی آنت کو کاٹ کر کینسر نکالا گیا۔جو نہ جانے کیوں مہربان ہو کر آگیا تھا۔ ‘‘
عارف نقوی آج بھی ادب میں بیج بو رہے ہیں ان کی اس سعی کو اللہ کامیاب کرے اور عمرِ خضر عطا کرے۔آمین
راز حیات پوچھ لے خضر خجستہ گام سے
زندہ ہر ایک چیز ہے کوششِ ناتمام سے
امید ہے کہ قارئین کرام ان کی شعری اقدار کے ساتھ ساتھ پیرایہ ٔ اظہار سے لطف انداز ہوں گے۔ آخر میں عارف نقوی اردو ادب کی ایک اہم اور مانی جانی ہستی ہیں ۔ایک حساس دل اور باشعور دما غ کے مالک ہیں اور یہ بات پُر اعتمادی سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کا شما ر اس صدی کے نمایاں شعرا ء و ادبا میں ہوتا ہے ان کی خدمات کا احترام کرتے ہوئے اپنے اس حقیر مضمون کو ان سے معنون کر کے اپنی آبرو بڑھارہا ہوں۔ اس شعر کے ساتھ اجازت چا ہ رہا ہوںکہ
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غمخوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
صدر شعبہء اردو، گورنمنٹ ایس پی ایم آر کالج آف کامرس، جموں