عتیق احمدفاروقی
کووڈ وباکی دوسری لہر کی آفت دھیمے دھیمے کم ہورہی ہے لیکن اس نے ملک کے اندر خوف وہراس کا ایک ایسا منظر چھوڑا ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس وبا ء سے بچنے کا اگر کوئی کارگرطریقہ ہے تو وہ صرف تیزی سے ٹیکہ کاری مہم ہے۔ ہندوستان کے سائنسداں اور فارمہ زمرہ کے صنعتکاروں کی تعریف کرنی ہوگی کہ اتنی کم مدت میں ٹیکہ تیار کروانے میں وہ کامیاب ہوگئے۔ جہاں بھارت بایو ٹک نے اپنی سطح پر کوویکسین بنایا وہیں سیرم انسٹی ٹیوٹ نے برٹین میں بنے اسٹراجنیکا ٹیکے کووی شیلڈنام سے ملک میں بنانے کو یقینی بنایا۔کووڈ کی پہلی لہر دوسری لہر کے مقابلے کم جان لیوا ثابت ہوئی تھی لیکن ٹیکہ کو لیکر جو شبہات پیدا ہوئے وہ وقت رہتے دور نہیں ہوسکے۔ اس شبہ کا ایک سبب ٹیکے کو لیکر کی گئی سستی سیاست بھی رہی ۔ کچھ مخالف جماعتوں نے اِسے بی-جے-پی کا ٹیکہ کہا توکسی نے اِس کے معتبر ہونے پر سوال اٹھائے۔ کچھ ممالک میں اسٹراجنیکایعنی کوی شیلڈ لینے والوں میں خون کے تھکے جمنے کے مسئلے کے سبب بھی ٹیکہ کو لیکر کچھ لوگوں میں ہچک پیدا ہوئی۔ دیرسے ہی سہی لوگوں میں ٹیکے کو لیکر اب یقین پیدا ہوا لیکن اب ٹیکوں کی کم فراہمی آڑے آرہی ہے۔ حالانکہ اپنے ملک میں 16جنوری سے ٹیکہ لگانے کی مہم شروع ہوگئی تھی لیکن شروع میں اس کی رفتار دھیمی رہی ۔ پہلے اسٹیج میں صحت اہلکاروں کو ٹیکے لگنے تھے لیکن ابھی تک قریب تیس لاکھ صحت اہلکار ایسے ہیں جنہوں نے ٹیکے کی دوسری خوراک نہیں لی ہے ۔کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے پہلی خوراک بھی نہیں لی ہے۔واضح ہے کہ لوگوں نے بھی لاپرائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہندوستانی حکومت نے بھی شروع میں جولائی تک تیس کروڑ لوگوں کے ٹیکہ لگانے کا حدف رکھا۔ اس کیلئے ساٹھ کروڑ خوراک کی ضرورت تھی یہ حدف شاید اس لیے رکھاگیا کیوں کہ حکومت کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس وباء کی دوسری لہر اتنی خطرناک ہوگی ۔ شاید اسی سبب ٹیکوں کا آرڈر دینے میں تاخیر ہوئی۔ فی الحال ضرورت بھر ٹیکے دستیاب نہیں ہیں اوراسی وجہ سے ٹیکہ لگانے کی رفتار بہت سست ہے۔ پہلے 32-35لاکھ ٹیکے روز لگ رہے تھے ، اب اُن کی تعداد گھٹ کر 17سے 18لاکھ ہی رہ گئی ہے۔ ٹیکوں کا فقدان ختم کرنے کیلئے جہاں مرکزی حکومت نے بیرونی ممالک کی کمپنیوں کو ہندوستان میں ٹیکہ بنانے کی اجازت دی ہے ، وہیں ریاستوں نے اپنی سطح پر بین الاقوامی بازار سے ٹیکہ خریدنے کی پہل کی ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں کب تک ٹیکے دستیاب ہوں گے؟ جن غیرملکی کمپنیوں کے ٹیکوں کی ہندوستان میں پیداوار ہونا طے ہوا ہے ان میں صرف روسی ٹیکہ ’اسپٹنک‘کی ہی پیداوار شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔حالانکہ ریاستی حکومتیں اِس بات سے واقف ہیں کہ ٹیکے کی دستیابی کوآناً فاناًیقینی نہیں بنایاجاسکتاپھر بھی وہ اورخاص کر دہلی اور بنگال کی حکومتیں ، بی-جے-پی کے نظریے کے مطابق سستی سیاست کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔ انہیں اِس بات سے واقف ہونا چاہیے کہ مرکزی حکومت نے جولائی تک 51کروڑ ٹیکے خریدنے اوردسمبر تک ٹیکوں کی 216کروڑ خوراک کاانتظام کرنے کو کہاہے۔امید ہے کہ جولائی کے بعد ٹیکوں کی تنگی کم ہوجائے گی لیکن ٹیکوں کی دستیابی میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکہ لگانے کی رفتار میں بھی تیزی لانے کی ضرورت ہوگی۔ کم سے کم پچاس ساٹھ کروڑ لوگوں کو ٹیکہ لگوانے کے بعد ہی وباء کی تیسری لہر کا سامنا کامیابی سے کیاجاسکتاہے۔ ابھی تک انیس کروڑ لوگوں کو ہی ٹیکہ لگ سکاہے۔ مطلب یہ ہے کہ ابھی لمبا سفر طے کیاجاناباقی ہے۔چونکہ ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں کہ لوگوں کو ہر سال ٹیکے لگوانے پڑیں اس لیے حکومت کو لمبے عرصے کیلئے حسب ضرورت ٹیکے کاانتظام کرنے کیلئے کچھ ٹھوس اقدام کرنے ہوں گے۔ جن ممالک میں کووڈ کی تیسری لہر چل رہی ہے وہ ٹیکہ مہم کے سبب ہی کچھ اطمینان سے ہیں۔ دوسری لہر کے دور میں اُن کے حالات بھی ہندوستان کی طرح خستہ تھے۔ واضح ہے کہ اگر ہندوستان میں تیز رفتاری سے ٹیکہ کاری ہورہی ہوتی تو بھی شاید دوسری لہر کے دوران لوگوں کو حسب ضرورت ٹیکے نہیں لگ پاتے۔ جو بھی ہو اب جب اس وباء کی تیسری لہر آنی ہے تب ٹیکہ مہم کی رفتار تیز کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ تیسری لہر کب آئے گی اس کے بارے میں اندازہ لگانا بے معنی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا سامنا کرنے کی پوری تیاری کی جائے۔ٹیکے کی دستیابی میں اضافے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی بازا ر میں بھی ٹیکے کی کمی ہے اوردوسری طرف بنانے میں لگنے والے خام مال میں بھی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔بی-جے-پی کا الزام ہے کہ اس سے سیاسی جماعتیں بھی واقف ہیں ، پھر بھی وہ شور مچارہی ہیں۔ اُن کا یہ شور بھی غیرضروری ہی ہے کہ ٹیکے باہر بھیج دیے گئے کیوں کہ ایک کروڑ ٹیکے کے علاوہ جو دیگر ٹیکے باہر بھیجے گئے ہیں وہ بین الاقوامی قرار کے سبب گئے ہیں۔ علاوہ ازیں جن ممالک سے خام مال ملا انہیں بھی کچھ ٹیکے دینے پڑے۔
حالانکہ ہندوستان اورجنوبی افریقہ کی پہل پر ڈبلو-ٹی -اوٹیکے کی پیداوار سے متعلق پیٹنٹ قوانین کو نرم کرنے پر غور کررہاہے ،لیکن وہ جب تک کسی فیصلے تک نہیں پہنچتا تب تک کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ یہ بات قابل اطمینان ہے کہ جہاں ہندوستانی کمپنیاں بیرونی ممالک میں ٹیکے بنانے کے امکان تلاش کررہی ہیں وہیں وزیرخارجہ ایس-جے شنکر ٹیکے اوران کیلئے خام مال حاصل کرنے کیلئے امریکہ جارہے ہیں۔چونکہ بھارت بایوٹک اورسیرم انسٹی ٹیوٹ نے اپنی پیداوار میں اضافہ کرنے اورمرکزی حکومت نے ریاستوں کو 15جون تک ٹیکوں کی قریب چھ کروڑ خوراک دینے کا وعدہ کیاہے۔ اِس لیے ریاستوں کو ’ایک بی-جے-پی ترجمان کے مطابق‘ ٹیکے کی کمی پر شور کرنے کے بجائے دستیاب ٹیکوں کے سہارے ٹیکہ لگانے کی رفتار میں تیزی لانا چاہیے کیوں کہ یہ دیکھنے میں آرہاہے کہ کئی ریاستیں ٹیکوں کی دستیابی کے باوجود متوقع رفتار سے ٹیکے کی مہم نہیں چلارہی ہیں۔ یہ بھی پتہ چلاہے کہ دیہی علاقوں میں کچھ لوگ ٹیکہ لگوانے سے ہچک رہے ہیں۔لوگوں میں بیداری پیدا کرنا ریاستی حکومتوں کاکام ہے ۔انہیں مرکز کے ساتھ ٹیکہ لگوانے کیلئے بیداری مہم میں حصہ لیناچاہیے۔ انہیں اس بات کا بھی دھیان رکھناچاہیے کہ شہری تنظیموں ،پنچایتوں وغیرہ کے ذریعے ٹیکہ لگانے کی مہم میں رفتار پیدا کی جائے۔
رابطہ نمبر:9161484863
Also read