حسین قریشی
بچوں کے لیے سائنسی ادب کے سرسری جائزے سے اندازہ ہوتاہے کہ عام طور سے کچھ مصنفین نے بچوں کی عمر کا لحاظ کیے بغیراپنی تخلیقات پیش کی ہیں جو زیادہ تر بڑی عمر کے بچوں کے لیے ہیں۔
حکومت کی جانب کے مسائل :-
اس سلسلے میں کچھ رکاوٹیں تو سرکار کی طرف سے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جس طرح بچوں کی صحت و تندرستی کی جانب توجہ دی جارہی ہے۔ اسی طرح بچوں کی ہمہ جہت ترقی کے لئے تعلیمی میدان کے تمام شعبوں کی ترقی کے لئے مختلف پروگرامز مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔۔ جسے اسکولوں کے علاوہ بچے روز مرہ زندگی میں بھی استعمال کر سکے۔ جسے سائنس ایکزاویشن ، سائینس و ٹیکنالوجی موضوع پر مقابلہ آرائی، ادب اطفال کے مخصوص ادباء کو تعاون، بچوں کے رسالے و کتب کی پرنٹنگ وغیرہ پر خصوصی توجہ نہیں ہے۔
سماج کا رحجان :-
ذمہ دار خودار معاشرے میں ادب اطفال کے لئے اکتاہٹ دیکھی جا سکتی ہے۔ سماج اردو ادب کو پش پشت ڈال کر دیگر میڈیم کو فروغ دینے کی کوشش کر رہیہیں۔ انھیں اردو میں بچوں کی ہمہ جہت ترقی نظر نہیں آتی ہے۔ انگریزی کلچر نے انھیں اندھا کیا ہوا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اردو ادب سے دور لے جا رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال معاشرے میں کیا جارہا ہے۔ لیکن بچوں کی ادبی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لئے اسے بروئے کار نہیں لایا جارہا ہے۔ معاشرے کی سائنسی ذہن سازی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
بچوں کے والدین و سرپرست :-
افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج ادب اور ادب اطفال کا مسئلہ پیچھے جا چکا ہے۔ “اردو زبان” خود، اردو دانوں کے گھر سے رخصت ہو رہی ہے۔ وہ والدین جن کی تعلیم ، تدریس اور روزی تک کا انحصار اردو پر ہے وہ بھی احساسِ کمتری کا شکار ہو کر اپنے بچوں کو اردو پڑھانے سے گریز کر رہے ہیں۔
ادب اطفال کے مسائل کا احاطہ کیا جائے تو اس کے بنیادی تین نکات سامنے آتے ہیں۔ بچوں کا ادب کہاں سے آرہا ہے ؟ کیسا آرہا ہے ؟ اور کہاں تک پہنچ رہا ہے ؟ اردو زبان کے استعمال میں گراوٹ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس سے قطعِ نظر اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آج بچوں کا ادب کون لکھ رہا ہے ؟ کیا لکھ رہاہے ؟ اور کیسے لکھ رہا ہے ؟ ادب اطفال کے ہمارے قدیم ذخیرے میں بے شمار ایسے نام مل جاتے ہیں جو بیک وقت ادیب و شاعر ہوتے تھے اور تنقیدی نظر بھی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قلم سے نکلے ادبی شہ پارے بچوں کے دلوں میں پیوست ہو جاتے تھے اور بچوں کے ذہنی ارتقا کے ضامن بھی لیکن آج یا تو مجبوری میں بچوں کا ادب لکھا جا رہا ہے یا بے توجہی سے لکھا جا رہا ہے یا پھر بطور فیشن بچوں کا ادب تیار ہو رہا ہے۔ اہل لکھنے والوں کو ضرورت نہیں ، جسے لکھنا آتا ہے وہ لکھتا نہیں اور بیشتر وہ لکھ رہے ہیں جنھیں ادب اطفال کے رموز سے واقفیت نہیں۔ بآسانی انگلیوں پہ شمار کیے جانے والے چند نام ایسے ضرور مل جاتے ہیں جو محنت سے لکھ رہے ہیں لیکن بچوں تک اس کی رسائی ایک مشکل امر بنی ہوئی ہے۔ بچوں کے رسائل میں ڈھونڈے سے ہی کوئی ایک آدھ مضمون ایسا مل پاتا ہے جو صحیح معنوں میں ادب اطفال پر منطبق ہوتا ہو ورنہ بیشتر کہانیاں اور مضامین ایسے ہوتے ہیں جن کی زبان اور اسلوب دور دور تک بچوں کے ذہن و مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ بچوں کے ادب خلق کرنے والے اکثر ادبا کے ذہن اس فرق سے خالی ہوتے ہیں کہ کس عمر کے بچوں کے لیے کون سا اسلوب مناسب ہے ؟ یہ بھی ایک مسئلہ درپیش ہے۔
معاشی مسئلہ :-
اکیسویں صدی کے دورِ حاضر میں جو مواد مہیا ہے۔ اس میں جدیدیت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ سرپرستوں و والدین کی دلچسپی کے مطابق تخلیق کیا گیا ہیں۔ اس میں ذیادہ اخراجات خرچ ہوتا ہے۔ اس لئے اس مواد یا تخلیق کی قیمت ذیادہ ہوتی ہے۔ جسے خریدنے کی استعداد سبھی میں نہیں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ قیمت دیکھکر خریدنے کا خیال ملتوی کردیتے ہیں۔ اس وجہ سے جدید ادب انکے گھر پہنچنے محروم رہتا ہے۔ مثال کے طور پر بلیک اینڈ وائٹ کتب کی قیمت اور رنگین کتب کی قیمت میں کافی فرق ہوتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ انکی تخلیق کے لئے سرمایہ بھی ذیادہ لگتی ہے اور اگر رنگین کتاب کو موڈرن کرنا ہوتو اس میں اور خرچ ہوتا ہے۔ جیسے کیو آر کوڈ کا استعمال کرنا ہو۔ بولتی تصویروں کی شمولیت وغیرہ بچوں کی ہمہ جہت ترقی کے لئے مفید و کارآمد ٹیکنالوجی روز بروز اپڈیٹ لا رہی۔ اپڈیٹ ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جو سرپرستوں و والدین کے بجٹ سے باہر ہوتا ہے۔
مفید اقدامات :-
بچوں کے سائنسی ادب کا فروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس پر ہمارے ادب کے مستقبل کا انحصار ہے۔اس سلسلے میں حسب ذیل اقدامات مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
١) مصنفین انفرادی طور پر بچوں کے لیے سائنسی ادب لکھنے پر خصوصی توجہ دیں۔
٢)سائنسی ادب کے تخلیق کار اپنی کاوشوں کو غیر اہم تصور نہ کریں۔
٣) تبصرہ اور تنقید نگار سائنسی ادب پر بھی توجہ مرکوز کریں تاکہ یہ تخلیقات نہ صرف عوام کے سامنے اسکیں بلکہ مثبت تنقید سے معیار ادب میں اضافہ بھی ہوسکے۔
٤)قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور ریاستی اردو اکادمی جیسے ادارے سائنسی ادب اطفال کی تیاری اور فروغ کے لیے منظم طور پر پروجیکٹ کے تحت مختلف عمر کے بچوں کے لیے الگ الگ کتابیں تیار کریں۔
٥)تیار کردہ ادب اطفال کی تخلیقات کو عام ہاتھوں میں رسائی کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ اسکا منظم خاکہ و تربیت بنانی چاہئے۔
٦)اردو رسالے میگزین اور اخببارات کی ترقی کے لئے اردو والوں کو عملی کوششیں کرنی چاہئے۔
بلڈانہ مہاراشٹر