تلمیذِ خیام الہند حیدر دہلوی:زاہر حیدری-Student of Khayyam-ul-Hind Haider Dehlavi: Zahir Haidari

0
283
محمد یوسف رضا
محمد یوسف رضا

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

محقق اپنے تحقیق کے سفر میں ہمیشہ مسافر کی طرح رہتا ہے۔وہ اپنے ذہن میں گتھیاں سلجھاتا رہتا ہے۔اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جو کام کر رہا ہے اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوگایا اس کی منزل کیا ہے۔وہ صرف حقائق کو سامنے لانے کی سعی کرتا ہے۔حقائق سامنے لانے کے بعد بھی اسے یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اس نے جو تحقیق پیش کی ہے وہی آخری اور مکمل ہے۔بلکہ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ آئندہ اس میں تحقیق کے راستے اور کھلیںگے۔پتہ نہیں محقق کی نظرانتخاب کب اور کس پر ٹھہر جائے۔ہندوستان میں ایسے بہت سے شاعر ہیں جو گوشئہ گمنامی میں جی کر راہئی ملک عدم ہوئے۔اور ان کے انتقال کے بعد بھی لوگوں نے انکی خدمات کی طرف توجہ نہیںکی۔اسی قبیل کے شعراء میں ایک اہم نام زاہر حیدری کا ہے۔
ان کا اصل نام غلام عباس تھا اور زاہر تخلص،حیدری ،اپنے استاد جلال الدین حیدر دہلوی کی مناسبت سے تھے ۔ ان کی پیدائش یکم جولائی ۱۹۰۵ کو بلند شہر ضلع کے قصبہ سانکھنی میں ہوئی۔سانکھنی کے پاس ہی جہانگیر آباد ہے جہاں نواب مصطفٰے خاں شیفتہ رہا کرتے تھے۔ابتدائی تعلیم نانا علی بخش قریشی کے پاس رہ کر حاصل کی ۔پھر اس کے بعد ۱۹۲۰ میں مڈل کی سند حاصل کی،۲۸ مئی ۱۹۲۱ کو الٰہ آباد بورڈ کا اعلیٰ قابلیت کا امتحان پاس کیا۔۱۹۳۰ میں انہوں نے دہلی سے پرائمری استادکی سند حاصل کی۔علم ریاضی میں ماہر تھے ،اردو زبان کے علاوہ فارسی کے بھی اچھے عالم تھے۔جب انہوں نے شاعری کی طرف توجہ کی تو اس وقت دہلی میں مشہور و معروف استاد جلال الدین حیدر دہلوی کا چرچہ تھا۔زاہر حیدری نے انہی سے شرف تلمذ حاصل کیا اور ان کے سب سے عزیز شاگرد ہوگئے۔حیدر دہلوی اپنی رباعیات کی وجہ سے مشہور تھے اور بقول حاجی میاں فیاض الدین صاحب اسی مناسبت سے خیام الہند کہلاتے تھے ۔ زاہر حیدری کے معاصرین میں مانی جائسی ،پنڈت گوپی ناتھ امن ،شیش چند طالب دہلوی،بشیشر ناتھ منور لکھنوی،شعری بھوپالی،اور بسمل سعیدی کے نام اہم ہیں ۔دہلی میں ہی اینگلو عربک ہائر سکینڈری اسکول سے ۱۹۶۷ میں ریٹائر ہوئے۔اور غالباً۱۹۷۸ میں انکا انتقال اپنے وطن سانکھنی میں ہوا۔ زاہر حیدری کے انتقال کے بعد ان کے شاگرد عزیز حاجی میاں فیاض الدین صاحب نے انکی غزلوں کا انتخاب کیا اور ۲۰۱۱ میں ـ’’دست مژگاں‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ خواجہ پریس دہلی سے شائع کیا۔
حقیقی تخلیق کار اپنی تخلیقی قوت ،اپنے ذہنی تخیل و تصور سے اپنے معاشرے کے ساتھ،دنیائے علم و ادب کے لئے نہ صرف ذہنی تفریح کا سامان کرتا ہے بلکہ وہ قوم کو قومی اور بین الاقوامی خدمت کے لئے ذہنی اور جسمانی طور سے تیار بھی کرتا ہے اور دنیا میںرونما ہونے والی تبدیلی،خواہ وہ سماجی وسیاسی ہو یا معاشی و ثقافتی ، اس سے عوام کو روشناس بھی کرتا ہے۔کہا گیا ہے کہ شاعر صرف شاعری ہی نہیں کرتا بلکہ لغت مرتب کرتا ہے۔یعنی نیم مردہ پڑے الفاظ کو نہ صرف زندگی بخشتا ہے بلکہ کبھی کبھی نئے معنی بھی عطا کرتا ہے۔اسی قبیل کے شعراء میں ایک نام غلام عباس زاہر حیدری کا بھی ہے۔زاہر حیدری بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اس کے علاوہ انہوں نے دیگر اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کی ہے جن میں قطعات، رباعیات،سلام ،نوحے،مناقب اور قصائد خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔زاہر حیدری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب ان کے استاد حیدر دہلوی پاکستان ہجرت کرکے جانے لگے تو اپنے شاگردوں کو زاہر حیدری کے سپرد کردیا۔(بقول حاجی میاں فیاض الدین صاحب)۔حاجی میاں فیاض الدین صاحب زاہر حیدری کے شاگرد ہیں ،جن سے میں زاہر حیدری پر تحقیق کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً ملتا رہتا ہوں۔
اب ان کی غزلیہ شاعری پر گفتگو کرتے ہیں،غزلوں کا مطالعہ کرنے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی غزلوں میں ہر جذبہ اپنی پوری شدت سے موجود ہوتا ہے۔ان کی شاعری میں سمندر،صحرا،سفر،آسمان،تنہائی اور وصل اپنے پورے تاثر کے ساتھ محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ایک وسیع کینوس پر ان کی شاعری کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ ان کے خوابوں اورامنگوں کی عکاسی کرتی ہے۔مثال کے لئے یہ اشعار پیش ہیں۔
کوئی حد بھی ہے ذوق ایذا طلب کی
میں ہنس ہنس کے زخم جگر دیکھتا ہوں
منزلیں اس کی نذاکت کا پتہ دیتی ہیں
کروٹیں لیتے ہیں وہ قلب و جگر میں رہ کر
انہوں نے اپنے اشعار میں اپنے داخلی جذبات کو تخیل کی زبان میں بیان کرنے کے لئے موزوں الفاظ کی تلاش نہیں کی اور نہ ہی الفاظ کے لئے معنی تلاش کئے۔یہ انہوں نے اس لئے کیا ہے کیونکہ معنی سے الفاظ کی شکل تو متعین ہو سکتی ہے لیکن الفاظ کے بر محل استعمال سے معنی کا تعین عمل میں نہیں آسکتا۔کیونکہ لفظ اور معنی کے سہی ربط سے ہی حسن ادا کی جلوہ گری ہوتی ہے اور اسی سے کلام میں تاثرپیدا ہوتا ہے۔ان کے کلام میں یہ صفات بخوبی ملتی ہیں ۔نازک خیالی اس سلسلے میں ان کے کلام کی سب سے اہم خوبی ہے۔الفاظ میں تصور اور خیال دونوں ہی پوشیدہ ہوتے ہیں اور انہی پر طرز اداکی خوبی منحصر ہے۔
ان کی غزلوں میں سہل بیانی کی بھی مثالیں ملتی ہیں ۔جن میں شیرینئی بیان کے ساتھ ساتھ سلاست اور روانی بھی بہ حسن خوبی ملتی ہے۔ان میں بلا کی شوخی بھی موجود ہے یہ شوخی عشقیہ مضامین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے مسائل کے متعلق بھی ہماری بصیرتوں میں اضافہ کرتی ہے۔اس شوخی نے ان کے طرز ادا میں چار چاند لگادئے ہیں۔ان کے کلام میں پختہ گوئی اور بلوغت سخن میں سیمابی لہو کی روانی بدرجئہ اتم برق رو ہے۔خیالات کا اچھوتاپن،زاویہ ندرت بیان،افکار کی عمودی سمت ذی ہوش قارئین کو وجدانی تسکین عطا کرتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔۔
حسرت یہی ہے لطف طلب بھی اسی میں ہے
وہ بات ہو جو حسن کے دل پر گراں نہ ہو
میں تو تمہاری یاد میں مرجائوں یا جیوں
تم کو قسم ہے یاد نہ کرنا کبھی مجھے
ملال کس لئے تردامنی پہ اے زاہر
یہ زندگی کی شریعت کسی کو کیا معلوم
(جاری)
ضضض
تصوف سے متعلق مسائل کو اردو غزل میں ابتداء ہی سے پیش کیا گیا ہے۔لیکن تصوف کی مناسبت رمزوکنایہ کے ساتھ بہتررہی ہے۔تصوف کے اسرارو رموز کو بیان کرنے کے لئے غزل کی زبان اور اسلوب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔عشق حقیقی میں عشق مجازی کی طرح اس کے معاملات کے جذبات و احساسات کی تفصیل منطقی ربط اورصراحت کی متحمل نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے جو غزل میں تصوف کے مضامین کو بہ حسن خوبی پیش کردیا گیااور اسی وجہ سے فلسفہ و حکمت کے مضامین نے بھی غزل کے دامن کو وسعت بخشی۔ان تمام معاملات سے غزل میں تنوع پیدا ہوا۔ان کے کلام مین بھی تصوف سے متعلق مضامین دیکھے جاسکتے ہیں۔ان کے کلام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی شاعری پر مذہب کا زیادہ اثر رہا ہے۔اشعار ملاحظہ کیجئے۔
بے خبر تھا غالباًوہ اپنی ہست و بود سے
سرکشی کرتا حباب اٹھا خودی کے جوش سے

ذرے ذرے میں نہیں ہے جلوئہ جاناں نا کیا
اے دل مضطر طواف کعبہ و بت خانہ کیا

اس قدر جذبئہ توحید سے لبریز ہے دل
آنکھ جس ذرے پہ ڈالوں وہی کعبہ ہوجائے

ان کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کی غزلوں میں زبان و بیان کی صفائی اور شیرینی بہ حسن خوبی موجود ہے۔یہ ان کی وہ صفت ہے جو اس عہد کے شعراء میں انہیں ممتاز کرتی ہے۔زبان کی یہ لطافت،صفائی اور شیرینی یہی ان کے کلام میںایک پر کیف فضا پیدا کرتی ہے۔انہوں نے علمی صلاحیت کی بنا پر اپنے کلام میں کوئی لفظ اس طرح کا استعمال نہیں کیا جو طبیعت پر بار معلوم ہوتا ہو۔
قفس اور آشیاں کی رمزی علامت میں اردو غزل گو شعراء نے جدت اداکا حق ادا کیا ہے۔یہ صرف جدت ادا اور حسن تخیل ہے جس کی بدولت فرسودہ مضامین میں بھی تازہ کاری اور شگفتگی کی آمیزش ہوجاتی ہے۔الفاظ کے معنی سے زیادہ اہم اس کا مفہوم ہوتا ہے۔کیونکہ اسے برتنے والے کے ذوق و وجدان کا پتہ چلتا ہے کہ اس نے اس کا مفہوم کن معنوں میں استعمال کیا ہے۔قفس اور آشیاں سے متعلق اشعار ملاحظہ کیجئے۔
آشیاں میں اک خلاف باغباں جنبش نہ تھی
اب قفس میں ہوں تو کتنی کوشش پرواز ہے

فصل بہار میں بھی قفس ہی ہوا نصیب
ہر چند عندلیب نے مارے ہزار پر

زاہر حیدری کی غزلوں میں ترکیب نو کا استعمال بدرجہ اتم ملتا ہے۔یہ مرکب ہے اور ایسے الفاظ زبان کے ذخیرے میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔کسی ایک خیال کو پیش کرنے کے لئے ایک خاص لفظ ہوتا ہے مگر شاعر کا تخیل،اس کے تصورات،اور واردات ذہنی الفاظ کے دائرے میں محدود نہیں ہوسکتے۔تخلیق کار اس طرح نازک اور مشکل خیالات کو اپنی ذہنی ترنگوں میں دوڑاتا ہے کیونکہ کسی خیال کے اظہار کے لئے صرف الفاظ ہی کافی نہیں ہوتے۔لیکن اپنی بات کو اسے پیش کرنا ہی ہوتا ہے۔اس لئے وہ رمزوکنایہ،تشبیہات و استعارات،تلمیح،مجازو اختراع ترکیب کا سہارالیتا ہے۔اختراع ترکیب کی مدد سے شاعر اپنی اس بات کو مرکبات کی مدد سے پیش کردیتا ہے جو وہ آسانی کے ساتھ ادا نہیں کرپاتا۔اور شعر کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔لیکن یہ مفہوم حسن کے ساتھ ادا ہوتا ہے۔انہوں نے لطافت خیال،مضمون کی پیچیدگی،اور مطلب کی دقت کو تازہ ترکیب کے ذریعے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔اشعار پیش ہیں۔

اک اک بلائے دہر مرے نام ہوگئی
فطرت رہین گردش ایام ہوگئی

دم بدم افزونئی غم پے بہ پے جوش جنوں
خاص ہے اب تیرے دیوانے پہ فیضان بہار

کون گلشن میں نہیںساغر بکف مینا بدوش
کس قدر عشرت فزا ہے سازو سامان بہار

ترے وحشی کو ہنگام جنوں بھی تھا شعور اتنا
کہ خار دشت وحشت دست مژگاں سے نکالے ہیں

کسی شاعر کی عظمت کا اندازہ اس کے استعاروں ، تازگی اور بلندی خیال سے لگایا جاسکتا ہے۔یہی معنی اور بیان کی جان ہوتے ہیں ۔دراصل استعارہ رمز آفریں ہوتا ہے اس لئے جذبے اور ذاتی تجربے کی تصویر اس سے بہتر کھینچنے والا کوئی اور ذریعئہ کلام نہیں ہوتا۔زاہر حیدری نے محاسن شعر کے استعمال میں ذوق سلیم سے بھی کام لیا ہے۔انہوں نے صنائع کا استعمال تخیل کی پرواز کے لئے کیا ہے۔دراصل یہ وہی محاسن ہوتے ہیں جو طبیعت پر بار نہیں ہوتے۔صنائع لفظی و معنوی کے استعمال میں انہوں نے بہت چابکدستی سے کام لیا ہے۔
جوش جنوں میں سر نہ قدم سے ترے اٹھا
مجھ کو رواروی میں بھی اتنا شعور تھا
ان کی ایک مشہور غزل ہے جس میں ان کا شعری مزاج اور رنگینی بھی نظر آتی ہے داخلی شہادت کے اعتبار سے پر معنی غزل ہے اس میں منفرد لہجہ کے ساتھ سلاست ،رنگینی اور قلندرانہ روش کا عکس نظر آتا ہے۔
بلائیں لے رہی ہیں آج زلفیں روئے جاناں کی
حفاظت ہورہی ہے کفر کے سائے میں ایماں کی
میرے ذہنی محور میں یہ خیال گردش کرتا رہتا ہے کہ وہ ایک سلجھے ہوئے شاعر ہیں ،ان کی شاعری شعرو سخن کے بام عروج پر نظر آتی ہے۔ان کے اشعار میں بے انتہا دلکشی ہے،پر فریب مناظر کو اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔وہ اپنی شاعرانہ طبیعت،اپنے ہنر،اور محنت سے شعرو ادب میں درخشاں ستارہ بن کر ابھرے ہیں ان کے اشعار میں بہتے ہوئے آبشار کی مانند روانی،بلا کی جاذب نظری اور دلکشی سمائی ہوئی ہے۔
بخش دے بخش دے اے حسن ازل بخش بھی دے
صرف اک دن کے لئے جذبئہ کامل مجھ کو
شعر کہنا ان کے نذدیک صرف ذوق کی سیرابی ہی نہیں تھا بلکہ یہ ان کے ایمان ،روحانی ،ذہنی ،شعوری اور فکری ارتقاء کی اساس ہے۔محبت یانفرت یہ انسان کی جذباتی و جبلتی زندگی کے تجربات ہیں ۔کسی کے کم تو کسی کے زیادہ،کسی کے تلخ تو کسی کے جانفزا،سو یہ مفروضہ غلط العوام ہے کہ شاعری کا وجود محبت کے مرہون منت کا کوئی ذریعہ ہے۔شاعری کا تصور آتے ہی اکژر لوگوں کا ذہن پیارو محبت کی دنیا میں گردش کرنے لگتا ہے کہ اس میں عشق و عاشقی کی باتیں ہوتی ہیں ۔اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ شاعری عشق و محبت کے ساتھ ساتھ زندگی کی کشمکش اور حیات انسانی کے تمام مسائل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے،اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں کہنا پڑا۔
لے گئی سوئے لحد غم کی فراوانی مجھے
مشکلوں نے کرلیا حاصل بہ آسانی مجھے
انہوں نے اپنا آشیانہ بڑی محنت و مشقت سے بنایا تھا اور وہ اس کی حفاظت کے لئے فکر مند رہتے تھے۔انہیں اس بات کا احساس تھا کہ باد مخالف کہیں ان کا آشیانہ برباد نہ کردے ۔اسی کی عکاسی انہوں نے اپنے اشعار میں بھی کی ہے۔
مرے ان چار تنکوں سے الٰہی کیسی الفت ہے
چلی آتی ہے سوئے آشیاں برق تپاں خود ہی
جب تصور میں ان کا آشیانہ اجڑ جاتا ہے تواس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرے آشیانے کے اجڑنے سے اطراف میں رنج و غم کا سماں نظر آرہا ہے۔اور یہ فطرت انسان بھی ہے کہ جب انسان پریشان ہوتا ہے تو اسے عالم کی تمام رنگینیوں سے نفرت ہونے لگتی ہے یعنی اسے اس رنگینی میں بھی مایوسی نظر آتی ہے اور اسے ہر شے میں لطف ختم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔شعر ملاحظہ کیجئے۔
یہ عالم صرف میرے چار تنکوں کے اجڑنے پر
پڑی ہے اوس سی صحن گلستاںمیں جدھر دیکھو
بے سروسامانی کے بعدجب انسان محنت کرکے اپنے پاس کچھ اثاثہ اکٹھا کرلیتا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنا سر چھپانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔اسی سے متعلق ان کا یہ خیال دیکھئے۔
فراہم جہاں چار تنکے ہوئے
وہیں پر مرا گلستاں ہوگیا
ان کے اشعار میں وہ تمام محاسن موجود ہیں جو غزل کو غزل بناتے ہیں ۔زبان وبیان کی روانی ،منظر نگاری،مصوری،الفاظ کا بر محل استعمال سبھی میں انہیں مہارت حاصل ہے۔جذبات نگاری،صداقت کی قوت سے جو ماحول پیدا ہوا ہے وہ فلسفہ و فکر کی گہرائیوں سے معراہونے کے باوجود زندہ اور خوبصورت ہے اور اس میں تغزل کی بھرمار ہے۔
ہر ذرہ میرے واسطے صد رشک حور تھا
ڈالی جدھر نگاہ ادھر تیرا نور تھا
ان کی غزلوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ غزل کے شیدائی ہیں اور فرسودہ تشبیہات و استعارات سے اپنا دامن بچایا ہے۔ان کا یہ منفرد لہجہ ان کی شناخت ہے، ان کی غزلوں میں کلاسیکی رچائو نظر آتا ہے۔ان کے اسلوب بیان میں ایک نوع کی ندرت اور رچائو ہے۔ ان کے کلام میں جو چیز سب سے زیادہ دلکش ہے وہ شدت احساس کے ساتھ صداقت و خلوص کا اظہار ہے۔انہوں نے اس کا اظہار جس بے باکی سے کیا ہے وہ انہیں اپنے عہد کے شعراء میں امتیاز بخشتا ہے۔
بھری تھی جس میں رنگینئی عالم
کسی عاشق کا دل تھا جام جم کیا

یہ جوش جوانی بھی کوئی دن کی ہوا ہے
ہم جانتے ہیں رہنے بھی دو کرو فر اپنا

لاکھوں بری بھلی وہ سناکر چلے گئے
شاید یہی جواب تھا میرے سلام کا

اب تیری طرف سے وہ کرم ہوکہ ستم ہو
دعوے سے میں کہتا ہوں کہ ہاں میرے لئے ہے
ان کے کلام میں تغیر ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام اہل ذوق کے لئے سامان نشاط فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ذوق کی تربیت اور پرداخت بھی کرتا ہے۔
کبھی سوچا ہے اے جہل مرکب باب اردو میں
یہ عالم گیر ہے ہندوستاں سے بے نشاں کیوں ہو
ان کی غزل کی خاص پہچان مسرت اور عشق کے جذبات کے ساتھ ساتھ والہانہ ذوق و شوق ہے۔ان کے انداز بیان اور اسلوب کی ادائیگی کی رعنائی ان کی غزلون میں بدرجئہ اتم موجود ہے۔انہوں نے غزل کے دائرے میں ایسے ایسے گل بوٹے کھلائے ہیں جن کی خوشبو مفرح اور معطر کرنے میں بے مثال ہے۔اپنے لہجے سے غزل کو ایسے معنویت کے پیکر میں ڈھالا ہے جس سے روایت اور جدت کی آمیزش سے صرف لطف ہی نہیں بلکہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے۔یہ اشعار دیکھئے۔
اے دل غم کوش یہ بھی عشق کی معراج ہے
آج جان ناتواں پہ کھیل جانے دو مجھے

موج بحر عشق کی آسودگی ہم سے نہ پوچھ
ایک ساحل ہے نظر میں اک نظر ساحل میں ہے
ان کی غزلوں میں ایسے اشعار کی تعداد بہت ہے جن کا موضوع عشق و محبت ہے اور اسی سے متعلق نفسیاتی اور جذباتی اظہار خیال ان کا محبوب مشغلہ ہے۔انہوں نے عشق و محبت کے جذبات کو بھی نئے انداز سے برتا ہے جن میں نفسیاتی کیفیت اور خیال کی صداقت موجود ہے۔زاہر حیدری کی غزل گوئی سے متعلق ابرار کرتپوری ایک جگہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے غزل کے گیسو سنوارنے میں ایک عمر گزاری۔ان کی غزل کے مختلف پہلو ہیں ۔ایک پہلو روایتی غزل کی شان ہے جسے ہم عاشقانہ شاعری یا محبوب سے باتیں کرنا بھی کہ سکتے ہیں۔غزل میں زاہر حیدری اپنے محبوب سے تمام مراحل ومسائل عاشقانہ پرگفتگو کرتے نظر آتے ہیں ۔ان کے لہجے مین عجز بھی ہوتا ہے ،شکوہ شکایت بھی اور ،محبت بھی ۔کبھی کبھی اشعار پڑھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا محبوب بھی کہیں آس پاس موجود ہے۔اشعار ملاحظہ کیجئے۔

بتادے گی خود ان کی پہلی نظر
ہوئی کیوں محبت کہاں ہوگئی

تونے جس وقت بھی شانوں پہ بکھیرے گیسو
منتشر سلسلئہ عالم ایجاد کیا
یایہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔

خراماںخراماں وہ جس دم چلے
سر راہ اک کہکشاں ہوگئی

بے کسوں کی آہ کا بھی کیا حسیں انداز ہے
حسن پردے میں ہے لیکن گوش بر آواز ہے
عشق میں فنا ہوجانا ہی حقیقی عشق ہے۔پروانہ شمع پر مر مٹ کر ہی اس کے عشق میں تحلیل ہوجاتا ہے۔اس عشق کی راہ میں بڑی دشواریاں ہوتی ہیں ۔کوئی اس میں کامیاب گزرجاتا ہے اور کوئی ناکام ہوجاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ۔
فنا فی العشق ہونا بھی کوئی آساں نہیں زاہر
بڑی مشکل سے ہم پہنچے غم الفت کی منزل تک
اشک کا ذکر غم الفت میں ناگزیر ہے لیکن زاہر حیدری نے جس انداز میں اسے برتا ہے وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔
جوش رنج و غم بھی آخر برسر کار آگیا
لے چلی اس بزم میں اشکوں کی طغیانی مجھے
ان کی شاعری کا ایک اور نمایاں وصف نازک خیالی ہے۔انہوں نے کبھی تو خیال کو ہی نازک بناکر پیش کیا ہے اور کبھی ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ وہ بات جو پیچیدگی لئے ہوئے تھی خیال کے پیکر میں ڈھل کر سامنے آگئی ہے۔نازک خیالی دراصل شعر کا حسن ہوتا ہے اور اگر اسی کو اس طرح برتا جائے کہ اس میں حسن پیدا نہ ہو تو یہ پیچیدہ بن جاتا ہے اور شعر محمل بن کر رہ جاتا ہے۔یہ اشعار دیکھئے۔
غم کہاں خنجر کہاں رہنے بھی دو مجھ سے سنو
دست رنگیں میں تمہارے جام ہونا چاہئے

اے دل نقاب الٹنے میں ان کو یہ شرم ہے
حرف آنہ جائے گردش لیل و نہار پر
غزل اردو شاعری کا ایک ایسا بیش قیمت سرمایہ ہے جس نے ہر دور میں دلوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔بلا تفریق مذہب و ملت ہر خاص و عام نے اسے اپنایا ہے اور سراہا ہے ۔عشق و محبت کے موضوعات کے علاوہ دیگر موضوعات کو بھی اپنایا اور دائرہ وسیع کیا ہے۔شعر ایک بڑے آئینے کے مانند ہوتا ہے جس میں بیک وقت کئی لوگ اپنا چہرہ دیکھتے ہیں۔اس طرح ایک شعر میں لاکھوں لوگوں کے دکھ درد ،بے چینی ،اور بیقراری کو دیکھا جاسکتا ہے اور شعر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس میں بسا اوقات کئی کئی واقعات آسانی سے سما جاتے ہیں ۔جس کو لکھنے کے لئے مئورخ کئی صفحات سیاہ کردیتا ہے۔ زاہر حیدری نے اس طرح کے مضامین کو خوب برتا ہے۔ انہوں نے متصوفانہ اور عارفانہ مضامین کوبھی اپنی غزلوں میں پیش کیا ہے ۔
تیری منزل میں فنا کا آسرا رکھتا ہوں میں
گویا یوں عالم میں بنیاد بقا رکھتا ہوں میں
اس شعر میں عشق حقیقی کی کتنی بہترین عکاسی کی گئی ہے یعنی جب تک انسان خود کو اس کی ذات میں تحلیل نہ کردے تب تک اس کو مدعا حاصل نہیں ہو سکتا ۔ اس خیال کے مطابق انہوں نے اس راہ میں قدم بڑھا تے ہی یہ ارادہ کرلیا تھا کہ عشق میں فنا ہوجانا ہی ہے۔اور تبھی مجھے اس دنیا میں بقا مل سکتی ہے ۔ ان کے یہاں خود اعتمادی ،شعور فن،وسعت مطالعہ،اور فکری توانائی وہ عناصر ہیں جن کی مدد سے یہ اپنی شعری کائنات کی تجسیم نپے تلے انداز میں کرتے ہیں ۔ان کے یہاں اس طرح کے اشعار کثرت سے موجود ہیں جن میں الفاظ کے انسلاکات اور تلازمات کے ساتھ ان کے مفاہیم کی تبدیلیوں کی آہٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔اور اکثر جگہ ایسا بھی لگتا ہے کہ نئی پیکر تراشی ایک نئی دنیا کی سیر کراتی ہے۔

دماغ اپنا فلک پر تھا جبیں مصروف سجدہ تھی
تمہارے ہاتھ سے جس وقت پہنیں بیڑیاں میں نے

دشمن بھی ہیں میں بھی ہوں ذرا تیغ اٹھائو
جوہر ابھی اک وار میں کھل جائینگے سارے
ان کے اشعار میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ برجستگی بھی ہے۔جمالیاتی اقدار کی ترجمانی انہوں نے جس خوبصورتی سے کی ہے اس سے ان کی شاعری میں جمالیاتی حس نمودار ہوئی ہے جو قاری کے دل پر ایک طرح کا اثر کرتی ہے۔ ان کی سنجیدگی میں فکر کی گرماہٹ اور مسرت موجود ہے۔ان کی شاعری کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کا محبوب اردو شاعری کا روایتی محبوب ہی ہے اور اس کے اعتراف میں انہوں نے فراخ دلی سے کام لیا ہے۔انہوں نے اپنے محبوب سے تمام مسائل پر گفتگو کی ہے۔اس گفتگو میں کہیں طنز بھی ہے اور کہیںشکوہ و شکایت بھی ۔

محمد یوسف رضا(ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی)
9990778665

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here