9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
فاروق ارگلی
کرشن جی کی کہانی میں بانسری یا بنسی کی بہت اہمیت ہے۔ ’سجان رسکھان‘ میں رس خان نے کرشن کنہیا کی مرلی کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ایسا جادوئی اثر رکھتی ہے جس کے کانوں پر پڑتے ہی لوگ سدھ بدھ کھو بیٹھتے ہیں، کرشن جی کی مرلی کی تان سن کر گوکل کی پنہاریاں پانی بھرنا بھول جاتی ہیں، کوئی ٹھنڈی سانسیں بھرنے لگتی ہے، کوئی لوٹ پوٹ ہوجاتی ہے۔ بنسی کی تان سن کر وہ کسی کام کی نہیں رہتیں تو انھیں بانسری سے چڑھ ہوجاتی ہے اور کہنے لگتی ہیں:
’’کریے اُپائے، بانس ڈاریے کٹائے
نہیں بچے گا بانس، نہ بجے کی بانسری‘‘
گوکل کی ناریوں کو کرشن جی کی بانسری سوتن کی طرح لگتی ہے جو ان کا سارا وچین آرام لوٹ لیتی ہے، لیکن یہ اس منموہنی بنسی کا جادو ہے کہ لوک لاج اور شرم و حیا کا کوئی خیال باقی نہیں رہتا اور تمام حسینائیں یشودا کے چھورے کے عشق میں باؤلی ہوجاتی ہیں۔ رس خان کے شاعرانہ کمال کی یہ انتہا ہے کہ انھوں نے اپنے کلام میں کرشن لیلا کے تمام رنگ سمودیئے ہیں۔ ہندی ادب اور ہندوستانی روحانیات میں کرشن بھگتی کی شاعری کا تعلق عشق مجازی کے پردے میں عشق حقیقی سے ہے۔ بقول پروفیسر محمد حسن: ’’کرشن بھکتی کی شاعری نے ہندی ادب اور فکر میں نئے چشمے جاری کیے ہیں۔ انھوں نے کرشن اور رادھا کی کہانی کو صرف ایک رومان نہیں بتایا، اسے فلسفیانہ اور متصوفانہ معنی دے کر کرشن جی گویا ساری سماوی اور ماورائی طاقت کا مظہر قرار دیئے گئے ہیں۔ وہ روحِ اعلیٰ جو مادّیت سے جدا ہے، رادھا اور ساری گوپیاں اسی روح کے اجسام قرار پائیں گے۔‘‘ (ہندی ادب کی تاریخ)
رس خان ، رسکھان یا شاعری کے رس کی کھان کرشن جی سے عشق ایک فلسفیانہ، متصوفانہ اور روحانی شغل قرار دیا جاسکتا ہے۔ کرشن ان کے مرکز عقیدت ہیں:
مانس ہوں تو وہی رسکھا بسوں سنگ گوکل کے گوارن
جوپسو ہوں تو کہا بسو میرونت نند کی دھینو منجھارن
پاہن ہوں تو گری کو جو دھریو کو چھتر پرندر دھارن
جو کھگ ہوں تو بسرو کروں ملی کالندی کل کندمب کی ڈارن
(اگر انسان ہوں تو اے رسکھان گوکل کے گوالوں کے ساتھ رہوں، جو جانور بنوں تو نند کی گائیوں کے ساتھ چرتا پھروں، پتھر ہوں تو اس پہاڑ کی چٹان بنوں جس کے سائے میں کرشن جی بیٹھے تھے، اگر پرندہ بنوں تو میرا آشیانہ جمنا کے کنارے پانی پر جھکی کدم کی شاخ پر ہو)
رس خان بنیادی طور پر عشق کے شاعر ہیں۔ بقول پروفیسر محمد حسن ’’رسکھان کا مزاج عاشقانہ ہے اور ان کے کلام میں ہر جگہ مستی اور رنگینی ملتی ہے۔ رادھا اور کشن کی داستانِ محبت عشق کا وسیع المعنی استعارہ ہے، اپنی کتاب ’پریم واٹیکا‘ (گلشنِ عشق) کی صورت میں عشق کی تفسیر کے رنگارنگ پھول کھلائے ہیں۔ رس خان کہتے ہیں:
پریم اَینی شری رادھیکا پریم برن نند نند
پریم واٹیکا کے دوؤ مالی مالن دؤند
(کرشن جی کے عشق کے نشے میں سرتاپا سرشار رادھا اور محبوب کرشن گلشنِ عشق کے دو مالی ہیں)
پریم اگم انوپم امت ساگر سرس بکھان
جو آوت یہی ڈھگ بہوری جات ناہیں رسکھا
(عشق وہ دریائے ناپیداکنار ہے، جو اس کے نزدیک جاتا ہے، اسی میں ڈوب جاتا ہے اور کبھی باہر نہیں آتا)
پریم برونی چھان کے برون بھئے جل دھیس
پرہمہی سے وِش پان کرے پجے جات گریس
(عشق کی شراب پی کر ورُن (بارش کے دیوتا)دیوتا بن گئے، عشق کے بل پر زہر پینے والے شیو کی اسی لیے پوجا کی جاتی ہے)
کمل تنتو سے ہین ارو کٹھن کھڑگ کی دھار
اتی سدھو ، ٹیرھو بہُر پریم پنتھ انی وار
(عشق کمل کی پنکھڑی کی طرح نرم مگر تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔ مسلکِ عشق سیدھا بھی ہے اور ٹیڑھا بھی لیکن سالک کے لیے یہ راستہ ناگزیرہے)
آنند انوبھوہوت ناہیں بنا پریم جگ جان
کے وہ وشیانند ہو یا برہمانند بکھان
(بغیر عشق کے کیف و انبساط کا احساس ناممکن ہے، خواہ وہ عشقِ مجازی ہو یا عشقِ حقیقی، یعنی لذاتِ دُنیوی ہوں یا روحانی دونوں کی اساس عشق ہے)
بِن گن جوبن، روپ، دھن سواستھ ہت جان
سُدّھ کامنا تے رہِت پریم سکل رسکھا
(حسن، علم و ہنر، شباب، دھن دولت اور خواہشات سے عشق بالاتر ہے، دنیوی اور مادّی خیالات اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتے)
دمپتی سکھ ارووشے رس، پوجا نشٹھا دھیان
ان سے پرے بکھانیے سُدّھ پریم رسکھا
(شادی شدہ زندگی میں جنسی تلذذ عبادت اور ریاضت ان سب سے عشقِ حقیقی یکسر جداگانہ ہے یعنی بیوی، احباب، اقارب، اولاد وغیرہ سے محبت فطری ہے، لیکن عشقِ حقیقی کا معاملہ کچھ اور ہے۔ عشق حقیقی اسے کہتے ہیں کہ عاشق معشوق کو جزو میں نہیں بلکہ کل میں دیکھے)
پریم پریم سب کوؤ کہیں، کٹھن پریم کی پھانس
پران ترپھ ِنکرے نہیں کیول چلت اُسانس
(یہاں رس خان کہتے ہیں کہ عاشق ہمیشہ اپنے محبوب سے خوفزدہ رہتا ہے، عشق کی یہ پھانس بڑی تکلیف دہ ہے۔ سانس گھٹتی رہتی ہے، روح چھٹپٹاتی ہے لیکن تن سے نہیں نکلتی)
پریم ہری کا روپ ہے، تیوں ہری پریم سروپ
ایک ہوئی دُوَئے یوں جیوں سوراج اور دھوپ
(عشق ہی خدا کی صورت ہے، خدا ہی عشق ہے، یہ دونوں سورج اور دھوپ کی طرح ایک ہیں)
کوؤ یاہی پھانسی کہت، کوؤ کہت تروار
نیجا ، بھالا، تیر کوؤ کہت انوکھی ڈھار
(عشق کو کوئی پھانسی کا نام دیتا ہے، کوئی اسے تلوار کہتا ہے تو کوئی اسے نیزہ، بھالا، تیر اور ڈھال قرار دیتا ہے، لیکن اس کے زخم کی مٹھاس روئیں روئیں میں سماجاتی ہے اور مرتے ہوئے کو زندگی اور لڑکھڑانے والوں کو سنبھالا دیتی ہے)
عشق کی مختلف کیفیات کی یہ تصویر کشی خالص ہندو پس منظر میں کی گئی ہے لیکن رس خان کی یہ توضیحات اسلامی تصوف کے دائروں سے باہر نہیں کہی جاسکتیں۔
رسکھان کے بارے میں ہندی مورخوں اور محققوں کا خیال ہے کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرکے ہندو ہوگئے تھے۔ اس ضمن میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب وہ دہلی سے کرشن جی کی محبت میں سرشار ہوکر برندابن پہنچے اور شری جی کے مندر میں درشن کرنے کے لیے مندر میں داخل ہونے لگے تو انھیں غیرہندو سمجھتے ہوئے اندر جانے سے روک دیا گیا۔ رس خان اس پر بہت رنجیدہ ہوئے اور مندر کے دروازے پر تین دن تک بھوکے پیاسے پڑے رہے۔ بالآخر گوسائیں وٹھل ناتھ جی کو خواب میں حکم ملا کہ اعلیٰ ذات کا مسلمان ہونے کے باوجود انھیں اپنا چیلا بنالیں۔ چنانچہ انھیں ولبھ سمپردائے میں دیکشا دی گئی۔ اس واقعے کو 1555ء میں ہواقرار دیا جاتا ہے اور اس وقت ان کی عمر بیس بائیں سال کی تھی، یعنی رس خان عالم شباب میں کرشن جی کی عقیدت میں سرشار ہوئے۔ یہ واقعہ سچ ہے یا محض مفروضہ یہ اکبر کے عہد میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ اس زمانے میں بہت سی دیواریں ٹوٹ چکی تھیں۔ بہت سے مسلمان دانشور اور صوفیاء اس طرح کی شاعری اور بیانات سے اتحاد، یکجہتی اور ہندو مسلم عوام میں ہم آہنگی کا پیغام دے رہے تھے۔ تاریخ میں کسی کرشن بھکت مسلم شاعر کی تبدیلی مذہب کا پتہ نہیں ملتا۔ رس خان کے بارے میں بھی اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کا کلام اس قدر مؤثر اور مقبول ہوا کہ ہندوؤں کی پوجا ارچنا کا حصہ بن گیا اس لیے انھیں ہندو دھرم میں شامل مان لیا گیا۔ ویسے یہ ہندوستان کا مزاج بھی ہے، ملک بھر میں بہت سے فقیروں اور اللہ والے مسلمان بزرگوں کے مزارات ہیں جو ہندوؤں کی عقیدت کا مرکز ہیں،اس کی موجودہ مثال مہاراشٹر کے مسلمان فنا فی اللہ فقیر سائیں بابا ہیں جو اپنی برکت و کرامت کی وجہ سے ایشور کا اوتار سمجھ کر پوجے جارہے ہیں۔
ہندی زبان کے دانشور اور بھکتی ساہتیہ کے مبصروں اور مفسروں کی رائے سے قطع نظر رس خان کے کلام سے یہ اندازہ لگانا اتنا مشکل نہیں کہ وہ صوفیائے کرام کی اس تحریک کے موئید تھے جس میں من و تو کا افتراق باقی نہیں رہتا اور کائنات کے تمام مظاہر میں اسی ذاتِ حق کی جلوہ فرمائی نظر آنے لگتی ہے۔ کرشن جی کو مجسم عشق کی علامت ماننے والوں میں مسلمان صوفیائے کرام کے کئی اہم اسماء ہمیں تاریخ کے اوراق میں ملتے ہیں جن کی دینی، علمی اور روحانی عظمتیں مسلمہ ہیں، رس خان نے کرشن جی کی ماورائی شخصیت میں عشق حقیقی کے جلوے دیکھے، اسی طرح اُن کے بعد لاتعداد اہلِ دل و نگاہ بزرگوں نے ان کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے برگزیدہ بزرگ عارف باللہ حضرت شاہ محمد کاظم قلندر کاکورو کا شمار اولیائے کبار میں ہوتا ہے۔ آپ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اپنے متصوفانہ کلام سے رموزِ سلوک و معرفت بیان فرماتے تھے۔ حضرت قلند کے عقیدت مندوں میں ہر قوم و ملت کے لوگ شامل تھے اور ہیں۔ آپ کی کتاب ’سانت رس‘ (نغمات الاسرار) رس خان کے دو سو سال بعد ان کی کرشنائی روایت کی واضح توسیع ہے۔حضرت قلنر نے بھی رس خان کی طرح سری کرشن کی عظمت کے گیت گائے بلکہ ان کی تخلیقات موسیقی کے اصولوں پر مبنی ہیں جنھیں آپ خود بھی بڑے شوق سے گایا کرتے تھے۔ حضرت قلنر کرشن جی کے دوارکا چلے جانے کے بعد گوپیوں کے اپنے کانہا کے ہجر میں بیقرار ہونے کی کیفیت کو اپنی ایک ٹھمری میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:
کہاں گئے برج لال بسیّا
من موہن بنسی کے بجیّا
کہاں چھپی جائے موہنی مورت
سگرے نگر کے من کی چھلیّا
جون کرت رہو کھیل کنجن ما
کونے کنج چھیواے دیّا
چھین چھین مٹکی پھوڑ پھوڑ
برج اجاڑگا برج بسیّا
گوپیاں من موہن کو دیکھ کر سدھ بدھ کھو دیتی ہیں۔ گوپیوں کے احساسات اور محسوسات کو حضرت قلند اس طرح ظاہر کرتے ہیں:
جائی کے ہم جمنا پچھتانی
آگ لگی ہیّے بھرتے پانی
گھاٹ پہ ٹھار رہو من موہن
چتوت ہی سدھ مور بھلانی
اب تو گیو من ہاتھ سے مورے
موری چتون مورئے مونڈ بسانی
لوگ کہت سب موکو باوری
موہن لکھ کوؤ رہت سیانی
جاکے لاگے سوئی جانے کاظ
کاہو کی پیر کوؤ کب جانی
(بحوالہ صوفیہ کی شعری بصیرت میں سری کرشن، از شمیم طارق)
شاہ محمد کاظم قلندر علیہ الرحمہ کے کلام معجز نظام کا یہ چھوٹا سا نمونہ ہے وگر نہ اس موضوع پر ان کی کثیر تخلیقات مشہور و مقبول ہیں۔ اس جگہ یہ تذکرہ اس تناظر میں کیا گیا ہے کہ رس خان کا تعلق صوفیائے کرام کے فکری سلسلے سے ہی تھا جنھوں نے ہندوستان کی سرزمین پر روحانی بصیرتوں کے چراغ روشن کیے۔ رس خان نے کسی ہندو سمپردائے میں دیکشا لے کر اپنا مشرب نہیں بدلا، البتہ بقول ڈاکٹر شیام سندر داس ’’میاں رسکھان پریم دیو کی چھبی دیکھ کر رس کی کھان بن گئے۔‘‘
بحیثیت مجموعی رس خان کی شاعری اور شخصیت ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کی تعمیر میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان کے کلام میں جابجا مسلم تہذیب اور اُردو زبان کے ابتدائی نقوش برج بھاشا کے پس منظر میں اُبھرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کا یہ بیانیہ دیکھئے جب برنداون کے باغ میں کرشن جی اور رادھا جی شطرنج سے دل بہلا رہے ہیں:
برندابن کنج میں براجیں دوؤ سیاما سیام
سترنج بچھائے باجی رچی ہے بنائے کے
باجی لائی بے سر او بانسری رسال پیاری
ٹھیر ٹھیر چال چلیں پھر جیں بچائے کے
پیل دوؤ اور پیلی کے پیادن سوں گھیر لیو
پھانسی گیاساہ جب پونچیں رُکھ دھائے کے
کہے رسکھا گھوڑا پیا دہ سنگ مت کینو
ہانسی تب پیاری لئی بانسری چھنائے کے
(برندابن کے کنج میں شیاما (رادھا) اور شیام (کرشن جی) دونوں تشریف رکھتے ہیں۔ انھوں نے شطرنج کی بساط بچھا رکھی ہے۔ کرشن جی بازی میں محو ہیں، بانسری پاس رکھ دی ہے۔ وہ سوچ سوچ کر رُک رُک کر فرزیں کو بچاتے ہوئے چالیں چل رہے ہیں۔ فیل دونوں طرف سے پیادوں میں گھر گیا اور بادشاہ نرغے میں آگیا۔ تب انھوں نے رُخ آگے بڑھاکر بازی سدھار لی۔ رسکھان کہتا ہے کہ گھوڑے اور پیادے کو ایک ساتھ نہیں چلنا چاہیے۔ رادھا نے شوخی سے بانسری چھین لی اور ہنسنے لگیں۔)
سنسکرت کے قدیم گرنتھوں میں چوپڑ اور پانسے کے کھیل کا ذکر ضرور ملتا ہے۔ مہابھارت میں کوروؤں اور پانڈوؤں نے جو جوا کھیلا تھا اس میں بھی چوپڑ اور پانسوں کا ہی کھیل تھا لیکن کرشن جی اور رادھا جی کا شطرنج کھیلنا اس لیے عجیب ہے کہ شطرنج اس دور کے مسلمانوں کا کھیل تھا جو فارس سے ہندوستان آیا تھا۔ پیل، فرزیں، رُخ اور پیادہ خالص فارسی الفاظ ہیں، اس کھیل کی جزئیات کو ’کرشن کاویہ‘ (کرشنائی شاعری) میں شامل کرنا دو تہذیبوں کے امتزاج کا عمل ہے جو برج بھاشا کے اس عظیم پٹھان شاعر کے یہاں واضح ہو کر نظر آتا ہے۔
سنہ 1533ء کو رسکھان کا سال پیدائش مانا جاتا ہے اور وہ بیس بائیس برس کی عمر میں برج بھومی پہنچے یعنی 1555ء اور 1560ء کے درمیان تو یہ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کا زمانۂ اقتدار تھا۔ اکبر کے دربار میں ہندو شاعروں اور وِدوانوں کی بھرپور قدر افزائی کی جارہی تھی۔ رامائن، مہابھارت اور ہندو دھرم کی دوسری مقدس کتابوں کو فارسی میں منتقل کیا جارہا تھا۔ اس عہد کی تاریخ میں رسکھان نظر نہیں آتے جن کے کلام نے ان کی زندگی میں ہی غیرمعمولی مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ اکبر کی وفات 1605ء میں ہوئی۔ رسکھان اس وقت زندہ تھے۔ ان کا انتقال ہندی ادب کے محققین کے مطابق 1618ء میں ہوا۔ اس وقت جہانگیر کی حکومت تھی۔ جہانگیر 38برس کی عمر میں سنہ 1605ء میں تخت نشین ہوا۔ جہانگیر کی متھرا کے ایک سنیاسی سے بے انتہا عقیدت اور اس سے ملاقات کے لیے کئی بار متھرا جانے کا تذکرہ ’مآثر اُمراء‘ اور ’جہانگیر نامہ‘ میں موجود ہے، لیکن اپنے عہد کے اتنے بڑے شاعر کا ذکر کہیں نہیں ملتا جبکہ اکبر اور جہانگیر کے دور میں متعدد باکمال ہندو شخصیتوں کی قدردانی کے بہت سے تذکرے موجود ہیں۔ اس سے یہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رسکھان نے ایک تارک الدنیا صوفی اور سنت کی طرح اپنی پوری زندگی دیارِ محبوب (برج بھومی) میں فقیرانہ اور قلندرانہ شانِ بے نیازی سے گزاری، سرکار، دربار اور دنیوی کاروبار سے کوئی واسطہ نہیں رکھا اور نہ ہی کسی بادشاہ یا امیر کا قصیدہ لکھا۔qq