ڈاکٹر سلیم خان
ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد نئے امریکی صدر جو بائیڈن سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں ان کی قلعی حماس کے راکٹ حملے نے کھول دی۔ موجودہ صورتحال میں جب تک اسرائیلی حکام ظلم و زیادتی کرتے رہے امریکی صدر خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے لیکن جب حماس نے راکٹ سے جواب دیا ان کو ہوش آیا اور انہوں نے فوراً اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو سے رابطہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح فلسطینی مسلمانوں کا درد ساری دنیا کے مسلمان محسوس کرتے ہیں اسی طرح صہیونی یہودیوں کے غم میں امریکی انتظامیہ شریک ہیں ۔ یاہو کی ڈھارس بندھانے کے بعد امریکی صدر نے وہی گھسا پٹا موقف دوہرادیا کہ جس کو سن سن کر انصاف پسندوں کے کان پک چکے ہیں۔ امریکہ کے ذریعہ اسرائیل کی ہر درندگی کا جواز یہی ہوتا ہے کہ ’’ اسرائیل کو اپنے دفاع کا مکمل اختیار ہے‘‘۔ یہ مسئلہ اب اسرائیل کے اختیار و آزادی کا نہیں بلکہ اس کے ذریعہ دوسروں کی زمین غصب کرکے ان کی آزادی سلب کرنے کا ہے ۔ اس بابت امریکی انتظامیہ نے ہمیشہ ہی مجرمانہ خاموشی کی روش اختیار کی ہے ۔
امریکی صدر نے اپنےبیان میں اس توقع اور امید کا اظہار بھی کیا کہ صورتحال جلد بہتر ہو جائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے لیے کون سا عملی اقدام کیا جائے گا ؟ فی الحال امریکی صدر پر اپنے ایوان نمائندگان کا دباو ہے کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے 25؍ اراکین نے امریکی وزیر خارجہ کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی جبری بے دخلی سے روکا جائے۔ اس کے دباو میں صدر بائیڈن نے فلسطینی صدر محمود عباس کو ایک خط بھیجا اور ان کے خارجہ سکریٹری ٹونی بلنکن نے صدر عباس سے فون پر بات چیت بھی کی لیکن اس سے کیا حاصل ؟ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل اور فلسطین سے بات چیت کے لیے اپنا نمائندہ روانہ کیا لیکن وہ بھی یاہو اور محمود عباس سے بات کرے گا جبکہ اس معاملے میں اہم ترین فریق حماس ہےجس سے بات چیت کے بغیر یہ معاملہ سلجھ نہیں سکتا۔ امریکہ کو جلد یا بہ دیر حماس کے حوالے سے اپنا موقف بدلنا ہوگا ۔ وہ اس وقت کوئی اہم کردار نہیں ادا کرسکے گا جب تک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم گردانتا ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک نے حماس کو مشرق وسطیٰ میں فلسطینی حقوق کی علمبردارسب سے بڑی طاقت تسلیم کرلیا ہے۔ اس حقیقت سے گریز امریکہ کی معنویت اور وقعت کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں ہے ۔
امریکہ کی ا س مجبوری نے اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع سے متعلق اجلاس کو روکنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح فلسطینی علاقوں میں جاری تشدد اور کشیدگی کے خاتمے سے پر سلامتی کونسل غور تک نہیں کیا جاسکا ۔ یہ ادارہ اگر اتنے سنگین مسئلہ پر خاموش تماشائی بنا ر ہے تو اس ضرورت و اہمیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ مذکورہ اجلاس کو طلب کرنے کی درخواست توینس ، ناروے اور چین کی جانب سے آئی تھی جس غزہ پر اسرائیل کے فضائی حملوں سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غورکرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ فی الحال چین سلامتی کونسل کا صدر ہے۔امریکہ کو چونکہ پہلے سے اس بات خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی بمباری کی سلامتی کونسل میں تنقید کا نشانہ بنے گی اس لیے اس نے پہلے تو مجوزہ بیان پر اعتراض کیا اور پھر اجلاس کو ویٹو کردیا۔
چین نے تو اس بابت کوئی وضاحت نہیں کی لیکن امریکی بلی ازخودکود کر تھیلے سے باہر آگئی۔ امریکہ نے ا پنی حکمت عملی سے آگاہ کرتےہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کے اسرائیل کی مذمت میں بیان سے تشدد کے خاتمے میں کوئی مدد نہیں ملے گی اور اس سے محض وقت ضائع ہوگا ۔ یہ امریکہ کی سفارتی شکست ہے ۔ اس کے اندر اب وہ اعتماد نہیں ہے کہ وہ سلامتی کونسل کو اپنے موقف سے متفق کرسکے اس لیے فرار کا راستہ اختیار کیا گیا ہے ۔ ایسے میں امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے اسرائیلی اور فلسطینی امور ہادی عمرو کا دورہ بے معنی ہوجاتا ہے۔ ایک طرف تو اسرائیل کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ وہ امریکہ کی پناہ میں چھپنے کی کوشش کررہا ہے اور دوسری جانب امریکہ سلامتی کونسل سے منہ چھپارہا ہے ۔ ان دونوں چنگو منگو کی یہ حالت حماس کے حملے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مجاہدین اسلام نے ایک بہت قیمت چکا کر یہ کامیابی حاصل کی ہے ۔ اب تک شہدا کی تعداد 109 ہوگئی ہےجن میں 28 بچے، 15 خواتین اور ایک بزرگ شہری شامل ہے۔ اس بمباری میں چھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے اور بڑا مالی نقصان ہوا لیکن اس کے ذریعہ ایک سپر پاور اور اس کے بغل بچہ کا غرور خاک میں مل گیا ۔
حماس کے اس اقدامی عمل نے شرق اردن اور القدس کے مسلمانوں میں بھی بیداری کی ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ اس کا ثبوت مسجد اقصیٰ میں مصلیان کی تعداد نے پیش کیا ہے۔ جمعتہ الوداع کو 70 ہزار مسلمانوں نے نماز ادا کی اس کے بعد ظلم و جبر میں زبردست تیزی آئی ۔ عید کی شب تو غزہ پر قیامت خیز بمباری کی گئی مگر دوسری صبح مسجد اقصیٰ کے اندر ایک لاکھ فلسطینی عیدالفطر کی نماز ادا کررہے تھے ۔اسرائیل کی غزہ پر بمباری اور اپنے زیر نگیں علاقوں میں زبردست گرفتاریوں کے باوجود نماز فجر کے ساتھ ہی قبلہ اول میں مصلیان کے جمع ہونےکا سلسلہ شروع ہوگیا نیز عید کی نماز تک صحن سمیت پوری مسجد کھچا کھچ بھر گئی ۔ نماز کے بعد ہزاروں نوجوانوں نے مسجد اقصیٰ ، القدس اور غزہ کی نصرت کے حق میں نعرے لگائے۔وہ لوگ اپنے ساتھ اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس کے قائدین کی تصاویر لائے تھے اور فلسطینی راکٹوں کے بھرپور حملوں پر خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ اسرائیل جیسے سفاک ملک میں یہ اقدام خطرناک ہو سکتا تھا لیکن ان سے بے نیازہوکر فلسطین کے مسلمانوں نے جابر حکمراں کے سامنے کلمۂ حق بلندکیا۔
فلسطین کے نوجوان غزہ سے برسائے جانے والے جن راکٹوں پر خوشیاں منارہے تھے ان کا نام ’العیاش ‘ ہے۔ یہ راکٹ 250 کلو میٹردور مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ذریعہ اسرائیل کے رامون ہوائی اڈے پر حملہ ممکن ہوسکا جو 220 کلو میٹر دوری پر واقع ہے۔ اس کے سبب اسرائیل کو اپنے سب سے بڑے بن گوریون ہوائی اڈے کی ساری پروازیں معطل کر نی پڑیں۔ حماس کے یہ راکٹ القسام بریگیڈ کے کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کاجواب ہیں ۔ القسام بریگیڈ کے اسے شہید کمانڈر یحییٰ عیاش کی یاد گار میں تیار کیا ہے۔ شہید انجینیر یحییٰ العیاش کی بیوہ ام البرا عیاش کے لیے ان کے شوہر کےنام سے راکٹ کی تیاری باعث فخر ہے ۔ انہوںنے اس کے ذریعہ اسرائیل کے رامون جیسے دور افتادہ ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا جانا فلسطینی قوم کے لیے خوش آئند بتایا اورکہا کہ اب یہ راکٹ پورے مقبوضہ فلسطین میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ ام البرا نے اپنے خاوند کے نام سے راکٹ کو منسوب کرنے پر تنظیم کا شکریہ ادا کیا۔ فلسطینی خاتون صحافی لمیٰ خاطر کے مطابق شہید کمانڈر العیاش نے اپنی زندگی میں صہیونیوں کی نیندیں حرام کردی تھیں۔ آج ان کی شہادت کئی سال بعد ان کے نام سے تیار کردہ راکٹ صہیونیوں کی نیندیں اڑا رہا ہے۔ سیکڑوں ایٹم بم کے مالک اسرائیل کے خلاف العیاش جیسے معمولی راکٹ سے فلسطینی مرد و خواتین کا بلند حوصلہ اس شعر کی یاد دلاتا ہے؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
غزوۂ غزہ: مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی-The Battle of Gaza: If a believer, a soldier fights without a blade
Also read