کورونا کا نسخہ: بندر کے ہاتھ میں ناریل- Corona’s recipe: Coconut in a monkey’s hand

0
125

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 Corona's recipe: Coconut in a monkey's hand
عارف نقوی

’’بندر کے ہاتھ میں ناریل!‘‘ یہ میں اپنے بچپن سے سنتا آرہا ہوں اور ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتا تھا۔ لیکن اس کے مطلب اب واضح ہورہے ہیں۔
جی ہاں آج میں اپنی اہلیہ کے ساتھ برلن کے ایک شاندار کورونا ویکسین سنٹر میں گیا تھا، جہاںا سے اپنے ویکسین کا دوسرا ڈوز لگوانا تھا۔ میں خود بھی ویکسین لگوانے کے لئے دو بار وہاں جا چکا تھا اور وہاں کے انتظام سے بہت متاثر ہوا تھا۔ یہ سینٹر میرے گھر سے تقریباً چالیس پینتالیس کلو میٹر دور ہے۔ ہر بار خاص ٹیکسی مجھے سرکاری خرچے سے گھر آ کر وہاں لے گئی تھی اور پھر گھر واپس پہنچایا تھا۔ ہر بار وہاں جانے اور لوٹنے میں تقریباً اسّی یورو لگے تھے جو برلن کے سنیٹ نے دئے ہوں گے۔ یعنی تقریباً سات ہزار روپئے۔ دو بار ویکسین لگوانے میں ٹیکسی کا آمد و رفت کا کرایہ تقریباً پندرہ ہزار رو پیہ جو میری جیب سے نہیں بلکہ سرکار کی جیب سے گیا تھا۔
’میسے ڈم‘ نامی مقام پر ویکسین سنٹر میں میرا اس طرح استقبال کیا گیا تھا جیسے کسی بہت بڑی ہستی کا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے کان میں آلہ لگا کر دیکھا گیا کہ بخار تو نہیں ہے۔ پھر شناختی کارڈ دیکھا گیا ۔ اس کے بعد ہر قدم پر ایک نئے گائڈ نے تپاک سے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور کچھ فاصلے پر پہنچنے کے بعد بڑے احترام سے دوسرے گائڈ کے حوالے کیا۔ اس کے بعد ایک کائونٹر پر آرام سے بٹھا کرمیرے کاغذات کا معائنہ کیا گیا۔ کچھ سوالات کئے گئے کس قسم کی الرجی ہے، کون سے آپریشن ہوئے ہیں؟ کون سی دوائیں استعمال کرتے ہیں؟ کبھی بخار وغیرہ کی ویکسین لگوانے میں پریشانی تو نہیں ہوئی؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد ایک خاص کیبن میں لے جایا گیا اور ڈاکٹر نے تسلّی کر لینے کے بعد ویکسین کا انجکشن بازو میں چبھویا ، لیکن اس طرح کہ مجھے کچھ بھی محسوس نہ ہوا۔ البتہ ڈاکٹر نے یہ ضرور کہا کہ گھر جانے سے پہلے آپ ویٹنگ ہال میں آدھا گھنٹہ انتظار کر لیجئے گا۔ اپنی تسلّی کے لئے۔پھر جب میں گھر جانے لگا تو بڑے تپاک سے رخصت کیا گیا۔ ٹیکسی تک ایک صاحب چھوڑنے کے لئے آئے اور جب تک میں اس میں بیٹھ نہیں گیا وہیں کھڑے رہے۔
بہرحال میں نے پہلا ڈوز ۲؍ فروری کو اور دوسرا ڈوز ۲۳؍ فروری کو لیا تھا۔ اور بہت متاثر ہو کر لوٹا تھا۔ مارچ میں میری اہلیہ انگرڈ کو ویکسین کا پہلا ڈوز وہیں لگوانا تھا۔ اس بار بھی ٹیکسی سے مفت وہاں پہنچے۔ خوشگوار موسم تھا، ہلکی ہلکی ٹھنڈ پڑ رہی تھی لیکن دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ دور سے ہی لوگوں کا جمع غفیر نظر آرہا تھا۔انگڑد کیونکہ پچھلے ایک سال سے سخت علیل رہی ہیں اس لئے میں ان کے ساتھ سینٹر میں داخل ہونا چاہتا تھا ۔لیکن یہ ممکن نہ ہوا ۔ جس کی وجہ مناسب تھی۔ درجنوں لوگوں کی طرح جو کسی کو لیکر وہاں آئے تھے مجھے بھی تقریباً پون گھنٹہ سڑک پر سردی میں شنٹنگ کرنا پڑی، کیونکہ اس سینٹر کے باہر لوگوں کے بیٹھنے کا کو ئی بندو بست نہیں تھا۔ کسی ریستوراں میں جا کر بھی نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ہر طرف لاک ڈائون کا عالم تھا۔خیر جب انگرڈ ویکسین سنٹر سے باہر نکلی اور اس کا کھِلا ہوا بشاش چہرہ دیکھا تو میری بوریت بھی دور ہو گئی۔
اب آج انگرڈ کو ویکسین کا دوسرا ڈوز لگوانا تھا۔ ہم بڑے شوق سے وہاں جانا چاہتے تھے۔ صبح سے ٹیکسی سنٹر کو فون کر رہے تھے۔ لیکن فون پر ایک نہایت ہی میٹھی آواز آتی تھی۔’
’ ہمارا نمبر خالی نہیں ہے۔ ہم آپ کو یہ نمبر دے رہے ہیں ان میں سے کسی پر فون کر لیجئے یا پھر آن لائن ٹیکسی ریزرو کیجئے۔‘‘
آواز اتنی میٹھی اور دلکش تھی کہ لگتا تھا یہ کسی حسینہ کی ہے ۔ لیکن ہمیں حسینہ کی آواز نہیں ٹیکسی چاہئے تھی اگر نہ ملی تو کیا ہوگا؟ میں نے گھبرا کر اپنی بیٹی کو فون کیا اور تھوڑی دیر بعد اس نے ئین کردیا کہ ٹیکسی پونے دو بجے تک پہنچ جائے گی۔ اور واقعی ٹیکسی والا وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا۔ یہ ایک نوجوان ملنسار ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ اس کے اور پچھلی سیٹ کے بیچ جہاں ہم لوگ بیٹھے تھے ایک پلاسٹک کا پردا لٹک رہا تھا۔کورونا کی وجہ سے ۔ پھر بھی ہم لوگ منہ پر ماسک لگائے رہے۔ ہمار اسفر بھی بہت خوبی سے کٹ گیا، بس کبھی کبھی ہلکی بارش اور کبھی ہلکی دودھیا برف پڑنے لگتی تھی مگر دوسرے ہی لمحے سورج چمکنے لگتا تھا۔ہم وقت سے پہلے ہی ویکسین سنٹر پہنچ گئے۔ سیکڑوں ٹیکسیوں کی لاتعداد قطاریں لگی تھیں۔ جوں ہی ہماری ٹیکسی ویکسین سنٹر پر پہنچی اور ہم باہر نکللنے لگے ہمیں روک دیا گیا۔
’’آج کوئی ویکسین نہیں لگے گی۔ گاڑی میں بیٹھے رہئے۔ آج آپ کو گھر واپس جانا ہو گا۔ ۸؍ اپریل کو ویکسین لگوانے کے لئے آئیے۔ ’’
’’لیکن کیوں؟ میری اہلیہ کو تو آج بلایا گیا ہے۔ آج اسے دوسرا ڈوز لگنا ہے۔‘‘ میں نے جھنجلا کر پوچھا اور پھر مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
’’آج ویکسین نہیں ہے۔ ویکسین کا ٹرک راستے میں حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔ پورا ٹرک الٹ گیا ہے۔‘‘
مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی فلم کے ڈائلاگ بولے جا رہے ہیں۔ بہر حال انگرڈ کا شناختی کارڈ لے کر وہاں پر کھڑی چند خواتین اور مردوں نے ، جو سنٹر کے لباس میں تھے، کچھ خانہ پری کی اور پھر تحریری طور پر ایک پرچہ اس کو کو تھما دیا کہ ۸؍ اپریل کو دوبارہ آئیے ۔ ٹیکسی والے کو بھی ایک خاص پرچہ اس کے کرایے سے متعلق پکڑا دیا گیا۔
مجھے اپنے بچپن کا یہ جملہ یاد آگیا: ’’ بندر کے ہاتھ میں ناریل‘‘
ابھی کچھ دیر قبل ٹی وی پر خبریں سن رہا تھا تو معلوم ہوا کہ کل ٹکنیکی وجوہات سے راستے میں کورونا ویکسین کے ٹرانسپورٹ کو روک دیا گیا تھا جس میںایک سو اسّی لاکھ (ایک کروڑ اسّی لاکھ) ویکسین تھیں۔
دراصل جب سے کورونا کی وبا پھیلی ہے یہاں پر بوکھلاہٹ کا سماں ہے۔ حکومت اپنی طرف سے ایمانداری کے ساتھ اس وبا کی روک تھام کی کوششیں کر ہی ہے ۔ لیکن اس کے ہاتھ پیر پھول رہے ہیں۔ اگر پورا لاک ڈائون کیا جاتا ہے تو اس کے لئے سب ریاستیں متفق نہیں ہیں۔ معیشت پر بھی بہت خراب اثر پڑے گا اور عام لوگوں میں مقبولیت گھٹے گی۔
میں اس وبا کی یورپ میں ہلاکت خیزیوں کے بارے میں لکھتے لکھتے تھک گیا ہوں اس لئے پرانی باتوں کو نہیں دوہرائوں گا۔ البتّہ ایسا لگتا ہے کہ ابتداء میں یورپ نے اس وبا کے خطرات کو کافی نظر انداز کیا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یورپ بہت سی باتوں میں آگے ہے اور لوگ سمجھتے تھے کہ غربت اور بیماریاں صرف ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور دیگر پچھڑے ہوئے ممالک کی قسمت میں ہیں ۔ یہاں تک بیماریاں آنے سے کتراتی ہیں۔ پھر ساری بحثیں اس پر مرکوز رہیں کہ یہ چین سے شروع ہوا ہے یا کہیں اور سے۔پہلی بار آنکھیں اس وقت کھلی تھیں جب اٹلی ، فرانس اور اسپین میں کورونا کی تباہکاریاں بھیانک روپ سے سامنے آئی تھیں۔اور پھر برطانیہ میںقابو سے باہر ہوئیں۔ لیکن اس وقت بھی یورپ کے ان ممالک میں جو ساری دنیا کو بڑی بڑی عالیشان چیزوں کی سپلائی کرتے ہیں ماسکس کی کمی تھی۔ یہاں پر یہ بھی بتا دوں کہ بہت سی اہم دوائوں کی پیداوار دوسرے براعظموں میں منتقل کر دی گئی ہے کیونکہ وہاں انھیں بنانے میں خرچ کم آتا ہے اور وہاں سے یورپ لاکر مہنگی بیچی جا سکتی ہیں اور زیادہ منافع کمایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اب یورپ خود وہاں سے حاصل کرنے پر مجبور ہے، مثلاً بعض اہم اینٹی بایو ٹیکس۔ایسا ہی کورونا کی ویکسین کے معاملے میں دیکھا گیا۔ یہاں دیر سے ویکسین کی مہم اس لئے شروع ہوئی کہ حالانکہ جرمنی کے پاس ٹکنالوجی تھی، پیسے تھے لیکن اس کے حصّے میں ویکسین کم آئی اور عرصے تک یہاں کے سینٹر ویکسین کی سپلائی کا انتظار کرتے رہے۔ جہاں تک روسی اور چینی ویکسین کا تعلق ہے ان کا ستعمال نہ کرنے کی وجہ تو ماہرین اور سیاست داںہی بتا سکیں گے۔ پھر کمال تو یہ ہے کہ جس وقت یہ وبا قابو میں آنے لگی تھی یہاں کے لوگوں اور تجاروں کے صبر کا پیمانہ چھلکنے لگا تھا اور لاک ڈائون میں ڈھیل ڈال دی گئی تھی۔حالانکہ عقل تو یہی کہتی ہے کہ جب مرض ٹھیک ہو رہا ہے تو اسے پوری طرح ٹھیک ہو جانے دو ۔ اس کے بعد ہی علاج بند کرو۔ لیکن جب سمجھ یہ ہو کہ اب علاج روک کر دیکھا جائے کہ اب تک کی دوائوں کا کیا اثر ہوا ہے تو آپ کیا کہہ سکتے ہیں ۔ سوائے اس کے کہ عقل بڑی کہ بھینس۔ اللہ ہی خیر کرے۔ اس کے علاوہ یہ کہ فیڈرل سسٹم ہونے کی وجہ سے یہاں کی ریاستوں کی الگ الگ پالیسیاں ہیں۔ الگ الگ آوازیں ہیں جن سے لوگوں کا اعتماد بھی ڈھل مل ہو رہا ہے۔اس سب کا فائدہ دائیں بازو کی انتہا پسند قوتیں اٹھا رہی ہیں۔ اکثر ایسے بڑے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں جن میں مانگ کی گئی ہے کہ لاک ڈائون میں نرمی کی جائے۔ بعض ویکسین، جیسے آسٹرا زینیکا Astra Zeneca کے لئے کبھی کہا گیا کی وہ مفید ہیں، پھر یہ ثابت ہوا کہ ان کے استعمال سے کچھ لوگوں کو تھرمبوز کی شکایت ہو گئی ہے۔ اس لئے نہیں لگائے جائیں گے۔ پھر یہ کہا گیا کہ لگائے جائیں گے۔ساٹھ برس سے کم عمر کے لوگوں کو نہیں لگائی جائے گی۔ اس سے اوپر کے لوگوں کو لگائی جا سکتی ہے۔ کبھی یہ کہا گیا کہ کچھ نقصان بھی ہیں لیکن فائدے بہت زیادہ ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ٹورزم سے پیسے کمانے والی فرمیں الگ حکومت کا دماغ چاٹے جا رہی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہزاروں لوگوں کو ملک سے باہر کسی ضروری کام سے نہیں بلکہ چھٹیاں منانے اور سمندروں کے کناے آرام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ بغیر یہ سوچے کہ جب وہ واپس لوٹیں گے تو اپنے ساتھ جراثیم بھی لا سکتے ہیں۔ ایک بات جس کا ذکر بہت کم کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ صنعتی ترقی اور آٹو میشن کے نام پر بہت سے شعبوں میں لوگوں کو الگ کردیا گیا ہے۔ جس میں صحت کا شعبہ بھی شامل ہے۔ اب کورونا کی وبا بڑھ رہی ہے ۔ اس کی روک تھام کے لئے سارے آلے ، اور ٹکنیکی ساز سامان موجود ہیں، لیکن ان کو استعمال کرنے والوں کی کمی ہے۔ ڈاکٹروں، نرسوں اور اسپتالوں میں کام کرنے والے دیگر لوگوں کی کمی ہے اور اس کا فی الحال کوئی حل نہیں ہے جبتک کہ پالیسی میں بنیادی تبدیل نہ کی جائے۔
مجھے تو بیچاری چانسلر پر ترس آتا ہے ۔ وہ ایمانداری سے اس وبا کے خلاف لڑنا چاہتی ہیں لیکن انکے اپنے ہی ساتھی اور ہمدردوں میں رسہ کشی ہے ۔ ہر طرف سے کھینچا تانی ہو رہی ہے اور مجھے اپنے ایک
پرانے سینئیر دوست لکھنئو کے رشید قمر کے الفاظ یاد آجاتے ہیں:
دھوبی کہتا ہے کہ برسائو نہ پانی مہاراج
گیلے کپڑے میرے رہ جائیں گے خشک ہونے سے
گڑگراکر کوئی دہقاں یہ پکار اٹھتا ہے
اتنا برسائو کہ سنسار کے بھر دو جل تھل
ہو نہ جاتے یہی بھگوان جو پتھر کے کہیں
زندگی تلخ ہماری طرح ان کی ہوتی (عبدالرشید قمر، لکھنئو)
اور ٹیپ کا بند یہ کہ یہ صورتحال کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہے۔ تازہ خبروں کے مطابق ۶؍ اپریل تک ساری دنیا میںکورونا کی وباکے مریضوں کے ۱۳۲ ملین سے زیادہ (۱۲۵،۹۳۶،۱۳۲) کیس سامنے آچکے ہیں اور۲۹ لاکھ (۸۶،۲ ملین)کے قریب اموات ہوئی ہیں۔ امریکہ میں ۸،۳۰ ملین لوگ متاثر ہوئے اور ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ (۵۵۵۰۰۰) مرے ہیں۔
دوسرے نمبر پر برازیل میں ۱۳ ملین لوگ متاثر ہوئے اور ساڑھ تین لاکھ کے قریب (۳۳۳۰۰۰) لوگ مرے ہیں۔ خود ہندوستان میں جو تیسرے نمبر پر ہے تقریباًپونے تیرہ ملین (۷،۱۲ ملین) لوگ متاثر ہوئے اور ایک لاکھ چھیاسٹ ہزار (۰۰۰ ۱۶۶) لوگ مر چکے ہیں ۔ جبکہ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک میں ۲۹۱۲۶۳۶ لوگ متاثر ہوئے اور ۷۷۸۶۲ مر چکے ہیں۔ کورونا کی وبا کی تیسر لہر اپنا رنگ دکھا رہی ہے ۔ لیکن کیا فرق پڑتا ہے ساری دنیا میں یہ آوازیں گونج رہی ہیں :
’’حالات کنٹرول میں ہیں۔ کورونا کے علاج کا نسخہ ہمیں مل گیا ہے۔‘‘ مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں ناریل آگیا ہے۔
arif-naqvi.com

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here