ایک فلسطینی کو 35 سال تک اسرائيل کی جیل میں قید رہنے کے بعد رہائي ملی ہے۔
اٹھاون سال کے رشدی ابومخ نامی فلسطینی قیدی کو پیر کے روز صیہونی حکومت کی جیل سے رہا کیا گيا۔ رشدی ابومخ کا تعلق باقہ غربی شہر سے ہے اور وہ سنہ انیس سو چھیاسی میں اپنے تین دوستوں کے ہمراہ گرفتار کر لیے گئے تھے۔
Rushdie Abu Mokh was released from the notorious Israeli desert prison of Ketziot in the Negev, in southern Israelhttps://t.co/6KPD0tPLaW
— Middle East Eye (@MiddleEastEye) April 5, 2021
صیہونی حکومت نے ان برسوں کے دوران قیدیوں کے تبادلے کے کئي سمجھوتوں پر دستخط کے باوجود، انھیں اور ان کے دوستوں کو رہا نہیں کیا تھا۔ فلسطینی اور اسرائيلی قیدیوں کے تبادلے کا آخری سمجھوتہ سنہ دو ہزار چودہ میں ہوا تھا۔
رشدی ابومخ کو پہلے صیہونی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی لیکن بعد میں اسے بدل کر انھیں پینتیس سال قید کی سزا دی گئی تھی۔
رشدی ابومخ کو پہلے صیہونی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی لیکن بعد میں اسے بدل کر انھیں پینتیس سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ ابومخ کی رہائي کے بعد اسرائيل کی جیلوں میں قید پرانے فلسطینی قیدیوں کی تعداد پچیس ہو گئی ہے۔ ان میں سے گيارہ افراد انیس سو چوراسی کے مقبوضہ علاقوں کے ہیں جن میں سب سے پرانے قیدی کریم یونس اور ماہر یونس ہیں جنھیں سنہ انیس سو تراسی میں قید کیا گيا تھا۔