تم قتل کروہو کہ کرامات کروہو- You kill to do miracles

0
138

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


You kill to do miracles

انیس درانی
میرے دامن پر لہوکے کتنے دھبے ہیں نہ ڈھونڈ
دیکھ اپنی آستیں جو خوں سے ترہونے لگی
مجھے بھی دن بدن یہ یقین ہونے لگاہے کہ ہمارے ہردلعزیز وزیزاعظم نریندر بھائی مودی انسان نہیں بلکہ بھگوان ہیں۔ بے ترتیب لمبی داڑھی والے بھگوان کے مندرجلد ہی ہمارے بھارت میں نظرآئیں گے۔ اس جیتے جاگتے بھگوان کے لمبے لمبے پروچن میں ہزار رہا لوگوں کو لایا جاتاہے ۔ بالخصوص ان ریاستوں میں جہاں بھاجپاکی حکومت ہے۔ اوراس جے جے کارسے وزیراعظم کا چھپن انچ کا سینہ اور بھی زیادہ پھول جاتاہے۔ جس کے آڑمیں بہت سی باتیں نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ مودی کی قیادت میں بھارت میں سب سے بڑا چمتکار یہ ہورہاہے کہ قتل کے مقدمات میں خصوصی عدالتیں اور سیشن عدالتیں انجام کار اس نتیجے پر پہنچتی ہیں۔ کہ دن دہاڑے ہونے والے قتل یا عصمت دری کے مجرم بے گناہ ہیں۔ پھر لازمی طورپر یہ سوال سامنے آتاہے کہ اگرملزمان بے گناہ ہیں توپھراصلی مجرم کون ہے۔ اس سوال کاجواب نہ سیشن عدالتیں دے پاتی ہیں۔ اورنہ خصوصی عدالتیں ۔بس ایسا لگتاہے کہ کوئی راکھشس آسمان سے آکر کارنامہ انجام دے گیا۔ یہ بھی چمتکار ہی توہے۔
۱۹سالہ عشرت جہاں جواں عمر جاویدشیخ ۔امجدعلی رانا۔ذیشان جوہر۱۵جون ۲۰۰۴ء؁ کو احمدآباد کے مضافات میں کوٹارپورواٹرورکس کے نزدیک (DCB)دٹیکشن کرائم برانچ احمدآباد نے مارگرایا۔ بدنام زمانہ پولیس آفیسر ڈی جی بنجارہ اس انکاؤنٹرٹیم کی قیادت کررہے تھے۔ DCBنے بعدمیں اخباروالوں کو بتایا کہ چاروں افراد پاکستانی تھے۔ اور لشکرطیبہ دہشت گردتنظیم کے ممبرتھے اور وہ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر بھائی مودی کو مارناچاہتے تھے۔ اس انکاؤنٹر کی بہت چرچاہوئی ۔ مرکزی حکومت نے اس کی تفتیش سی بی آئی کے سپرد کردی ۔ مرکزمیں من موہن سنگھ وزیراعظم تھے۔ اور نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے جب من موہن سنگھ ۲۰۰۲ ء کے مسلم کش فسادکے ملزمان کو سزا دلانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی توچار نوجوانوں کے فرضی انکاؤنٹرکی کیا اہمیت ہوسکتی ہے البتہ انہوں نے انکوائری کے لئے CBIکوکیس منتقل کردیا۔
احمدآبادمیں ہونے والے اس ۲۰۰۴ کے انکاؤنٹرکی مکمل فرد جرم (چارشیٹ) سی بی آئی نے ۲۰۱۳ء؁ میں داخل کی۔ اس چارج شیٹ میں CBI(سنٹرل بیوریوآف انویسٹیگیشن) نے گجرات کے سات اعلیٰ پولیس افسران کواس فرضی انکاؤنٹرمیں ماخوذکیا۔ ان بہادر پولیس افسران کے نام پی پی پانڈے، ڈی جی ونجارہ، این کے امین، جے جی پارمیر، سنگھل بڑوت چودھری اور احمد آباد کے جوائنٹ کمشنر پولیس کرائم کے نام شامل تھے۔ سی بی آئی نے اپنی تفتیش جاری رکھی چنانچہ ۲۰۱۴ء کے آغازمیں انھوں نے ایک اور اضافی چارج شیٹ داخل کی۔ جس میں (انٹلی جنس بیورو) احمدآباد کے چار افسران کوبھی اس سازش میں شریک قرار دیا۔ ۳۱مارچ ۲۰۲۱ء کوسی بی آئی کی خصوصی عدالت نے سترہ سال بعد ابھی تک مقدمہ میں پھنسے تین افسران کے خلاف مقدمات کوخارج کردیا۔ یہ تین افسران بی ایل سنگھل ریٹائرڈ پولیس افسرترون بروٹ اور اسسٹنٹ سب انسپکڑآنوجہ چودھری ہیں۔ ان تینوں پر دیگر گرفتار شدہ افسران کی طرح اغوا قتل اور مجرمانہ سازش کے الزام تھے۔ جواس خصوصی عدالت نے خارج کردیئے۔ اب صرف سی بی آئی ہی خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو خلاف اپیل کرسکتی ہے کیونکہ عشرت جہاں کی والدہ نے توپہلے ہی ونجارہ اور امین کے خلاف مقدمات خارج ہونے پر خود کو اس مقدمہ کی ایک مدعی کی حیثیت سے علیحدہ کرلیا تھا شمیہ کوثرنے اکتوبر ۲۰۱۹ میں ایک پریس کانفرنس کرکے اس کا اعلان کردیا تھا علیحدہ ہونے کا مقصد صاف تھا کہ اب انہیں انصاف ملنے کی کوئی امیدنہیں رہی تھی۔ بہرحال اب یہ توطے شدہ ہے کہ خصوصی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف CBIکوئی اپیل نہیں کرے گی اور یہ مقدمہ بھی ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا۔
خصوصی عدالت کے جج نے جو فیصلہ لکھا ہے اوراس فیصلے کے معاملے میں نتائج پر بعدمیں تبصرہ کروں گا۔ لیکن CBIکے رویہ میں تبدیلی کیسے آئی جہاں اس نے ۲۰۱۳ میں جو ایک مبسوط اور جامع فرد جرم داخل کی تھی جس میں گجرات کے اعلیٰ پولیس افسران کو ماخوذ کیا گیا تھا۔ پھر ۲۰۰۴ء کے شروع میں اسی CBIنے ایک اضافی فردجرم داخل کی تھی جس میں انٹلی جنس بیوریو کے افسران کو بھی اس سازش میں شریک قراردیا تھا۔ اچانک ۲۰۱۴ء میں زبردست انقلاب آیا اور نریندر مودی گجرات کے وزیراعلی سے بھارت کے وزیراعظم بن گئے۔ سی بی آئی براہ راست مرکزی وزارت داخلہ اور پرائم منسٹر ہاؤس کی ماتحتی میں کام کرتی ہے۔ چنانچہ ۲۰۱۴ء میں مودی جی کے وزیراعظم اورامیت شاہ کے وزیرداخلہ بنتے ہی پہلی اس کیس کی تفتیش کے معاملہ میں جان بوجھ کر سستی برتی جانے لگی۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ اس سارے معاملہ کی جو فرضی انکاؤنٹرکا مقدمہ تھا بالکل ہی برعکس شکل دیدی گئی۔ اورچاروں مرنے والوں کوپاکستانی دہشت گرد تسلیم کرلیا گیا جن کو مارنا پولیس افسران کی ذمہ داری بنتی تھی۔ اپنے فرض کی ادائیگی میں گولی مارنے پر کوئی جرم ہی نہیں بنتا۔ چنانچہ انکاؤنٹرایک فرض کی ادائیگی قرار پا یا اور ایک کے بعدایک تمام پولیس افسران بری ہوگئے۔
۲۰۱۳ء میں جب پہلی اورجامع چارج شیٹ CBIنے داخل کی تھی اس میں CBIنے گجرات پولیس کے سات اعلی افسران کو ملزم بنایا تھا اور ان سب پرقتل ، اغوا، اور ثبوتوں کے مٹانے سمیت دیگر الزامات عائدکئے تھے۔ اور ۲۰۱۴ میں ایک اضافی چارج شیٹ میں واضح طورپر کہا گیا تھا یہ فرضی انکاؤنٹرگجرات پولیس اور CBIاحمدآبادکامشترکہ آپریشن تھا۔ اور CBIکے مطابق اس فرضی انکاؤنٹرمیں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی فراہمیCBIنے کی تھی۔ مئی ۲۰۱۹ء میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے ونجارہ اور امین کو بری کردیا۔ CBIکے اس فیصلہ کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی اور پھراسی نظیر کو سامنے رکھتے ہوئے CBIکی خصوصی عدالت نے بی ایل سنگھل (جواس وقت گجرات پولیس فورس میں انسپکٹرجنرل ہیں) ترون بروٹ اور آنو جاچودھری کو ۳۱مارچ کوبری کردیا۔ ملزمان کی اس طرح بری کرنے کے خلاف CBIاب بھی اپیل نہیں کرے گی پانڈے جو اس وقت کرائم محکمہ کے جائنٹ کمشنر آف پولیس تھے 2018میں بری کردیئے گئے تھے۔ جب ۲۰۱۹ء میں ونجارہ اور امین کو بری کیا گیا تھا تو خصوصی عدالت کے فیصلہ میں صاف لکھا تھا کہ حکومت نے ان افسران کے خلاف کسی عدالتی کارروائی کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ اور اس حکم کے خلاف CBIنے کوئی اپیل بھی نہیں کی ہے۔ ملزمان کی طرف سے داخل کی گئی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست میں انھوں نے واضح طورپر لکھا ہے کہ گجرات سرکار نے اپنے ایڈیشنل چیف سکریڑی پنکج کمار کے ذریعے CBIکو پولیس والوں کے خلاف عدالتی کارروائی کرنے سے منع کردیا ہے۔ اس لئے انہیں اس کیس سے خارج کردیا جائے۔ چنانچہ عدالت کے لئے آسان ہوگیا کہ وہ ونجارہ اور امین کے خلاف مقدمات کوخارج کردے اور اب سنگھل ترون بروٹ اور انوجاچودھری کو بری کردیا گیاہے۔
عشرت جہاں انکاؤنٹرکے ملزمان کو اس طرح مقدمات سے باہر نکالناتوبھارت میں عدلیہ کی موجودہ صورتحال پرکافی روشنی ڈالتاہے ۔لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک ملزمان کے لئے لکھے گئے وہ ستائشی الفاظ ہیں جو جج راول صاحب کے فیصلے میں نمایاں ہیں۔ـ’’ عدالت کے نزدیک ان فرض شناس پولیس افسران کے ذریعے کسی فرضی انکاؤنٹرکاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ اپنے فرائض کے تئیں الرٹ رہتے ہیں۔ انکاؤنٹرمیں ہلاک ہونے والوں کی انڈیکا گاڑی میں پائے گئے سامان کو دیکھتے ہی فوراً اندازہ ہوجاتاہے کہ ان کے خلاف جو اطلاعات پہنچی تھیں وہ درست تھیں اور ان اطلاعات میںکافی وزن تھااور انکاؤنٹرس میں ہلاک ہونے والے مجرموں کو کسی بھی قیمت پر روکناضروری تھا۔ درحقیقت قانون کے مطابق پولیس افسران ۲۴گھنٹے ڈیوٹی پرہوتے ہیں۔ جوریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ۔ وہ کسی طرح کا شبہ بھی پیدانہیں کرتاکہ مرنے والے مجرم دہشت گردنہیں تھے۔ یا انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات درست نہیں تھیں‘‘۔
اس خصوصی عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ’’ حکومت کا مقدمہ چلانے کی اجازت نہ دینا بہت کچھ کہتاہے ۔ یہ حکم حکومت نے بہت سوچ سمجھ کر نکالاہے۔ حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے۔ کہ درخواست دہندگان (پولیس افسران) پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ سب ان پولیس افسران کی فرائض کے انجام دہی کے دوران عمل میں آئے۔ علاوہ ازیں ملزمان کے خلاف تفتیش ضابطوں کے مطابق نہیں ہے۔ اور نا ہی ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت ہیں۔ CBIکی خصوصی عدالت نے اکتوبر ۲۰۲۰ کے ایک عدالتی حکم کا بھی حوالہ دیا جس کے تحت انکاؤنٹرپولیس کی (ڈیوٹی کا اہم حصہ ہے فریضہ ہے) اس حکم کو نہ توشمیہ کوثرنے چیلنج کیا اورنہ CBIنے چنانچہ جج راول صاحب نے اس تازہ فیصلے میں بھی مدعی کی طرف سے اپیل کرنے کاتذکرہ بھی کیاگیا ۔ جج راول صاحب نے اکتوبر ۲۰۲۰ کے ایک آرڈرمیں گجرات پولیس کے انکاؤنٹرکے توثیق کی اور لکھا کہ عشرت جہاں اور اس کے ساتھ مارے جانے والے عام قسم کے مجرم نہیں تھے بلکہ وہ دہشت گرد تھے اور ان کا مجرمانہ کردار تھا۔ فاضل جج نے فیصلہ میں اس بات کا بھی اقرار کیا ہے۔ کہ چاروں مرنے والوں کے خلاف گجرات کے پولیس کے پاس قابل اعتبار اطلاع تھی اسی لئے اس پختہ اور صحیح اطلاعات کی بناپر گجرات پولیس نے یہ کارروائی کی ہوگی۔
اس فیصلے کاسب سے زیادہ فائدہ ان پولیس والوں کو ہوگا جو خود کوقانون سے بالاترسمجھتے ہیں۔ اور خود کوہی قانون کارکھوالا کہتے ہیں۔ انکاؤنٹرکے نام پر ان کو ایساہتھیار دے دیا گیا ہے جس کا وہ کہیں بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ حکومت کی شہ پر جب انکاؤنڑ ہونے لگیں گے اور جب تمام پولیس افسران کو خصوصی عدالتیں فرض شناس ہونے کا تمغہ دینے لگیں گی توپھربھارت میں کسی کی بھی زندگی محفوظ نہیں رہے گی۔ ابھی تک اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ جب عشرت جہاں پاکستانی دہشت گردتھی تواس کی والدہ شمیہ کوثربھارتی شہری کیسے ہیں؟
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here