امریکی رپورٹ نے حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو دکھایا آئینہ – US report mirrors human rights violators

0
125

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


US report mirrors human rights violators

عباس دھالیوال
یوں تو دنیا کے الگ الگ ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کے خلاف ورزی کو لیکر مختلف قسم کی تجزیاتی رپورٹس میں آئے دن ہونے والے خلاصے سامنے آتے رہتے ہیں. تاہم انسانی حقوق کی صورتِ حال کو لیکر جو ایک رپورٹ امریکہ کی طرف سے سامنے آئی ہے یقیناً اس کو دیکھتے ہوئے انسانی حقوق پاسداری کرنے والے تمام لوگوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے. یہی وجہ ہے کہ مذکورہ رپورٹ کے ضمن میں امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس انسانی حقوق کی صورت حال اچھی نہیں رہی، دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد کو ‘ظالمانہ صورت حال میں مشکلات برداشت کرنی پڑیں۔‘دراصل بلنکن کے مذکورہ تاثرات امریکی محکمۂ خارجہ کی 2020 کی سالانہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد آئے ہیں. رپورٹ کے حوالے سے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق رجحانات مسلسل غلط سمت کی طرف جا رہے ہیں۔” محکمۂ خارجہ کی اس سالانہ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں کچھ “مختلف مسائل” پیدا کیے ہیں، جس میں بعض حکومتوں نے “وبا کے بحران کو حقوق پر پابندیوں کے جواز اور آمرانہ حکومتوں کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔
وزیرِ خارجہ مذکورہ رپورٹ کی روشنی میں یہ بھی کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران معاشرتی تحفظ یقینی بنانے والے روایتی طریقے محدود ہونے سے خواتین اور بچوں کے لیے صنفی یا گھریلو تشدد کے خطرات میں جو اضافے ہوئے ہیں وہ بے حد تشویش ناک ہیں۔
اس کے علاوہ آبادی کے “دیگر کمزور طبقات” کو، بقول انھیں کے جس طرح سے عمر رسیدہ افراد، جسمانی کمی کا شکار یا صنفی لحاظ سے مختلف شاخت رکھنے والے افراد کو خطرات کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ بھی قابل تشویش ہے ،۔ امریکی کانگریس کی منظوری سے مرتب کی جانے والی محکمہ خارجہ کی مذکورہ سالانہ رپورٹ، دراصل دنیا کے ان ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں تیار کی جاتی ہے، جنہیں اکثر امریکہ کے توسط سے کسی نہ کسی طرح سے کوئی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
وہیں اس مذکورہ رپورٹ کو ناقدین و مبصرین اس وجہ سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ اس رپورٹ میں 2020 کے دوران امریکہ میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں یا سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد عائد کیے گئے انتخابی دھاندلیوں کے ان الزامات کا ذکر تک نہیں ہے، جنہیں بہت سے ماہرین و مبصرین بے بنیاد قرار دیتے آئے ہیں۔ادھر بلنکن کا کہنا کہ بائیڈن انتظامیہ نے انسانی حقوق کو اپنی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح بنایا ہے”، جب کہ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق “اپنے بلند ترین معیارات اور اصولوں پر پورا اترنے کے لیے” امریکہ کو “اپنے گھر” یعنی اندرون ملک بھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ “ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہر وہ طریقہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے، جس سے دنیا کو زیادہ پر امن اور انصاف پر مبنی بنایا جا سکے۔
دریں اثناء بلنکن نے کہا کہ 2020 کے دوران بیرونی دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد کو “ظالمانہ صورت حال میں مشکلات برداشت کرنی پڑیں”۔ انہوں نے اس موقعے پر ان ملکوں کا ذکر کیا، جہاں امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق انسانی حقوق کی صورت حال اچھی نہیں رہی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی اس تازہ رپورٹ میں چین، ایران، روس، میانمار اور بیلاروس سمیت متعدد ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ جبکہ رپورٹ کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ نے اس موقعے پر چین کے صوبہ سنکیانگ میں ویغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر کیا اور صورت حال کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے شام کے باشندوں سے کیے جانے والے سلوک اور یمن کی جنگ سے پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی تباہ کن صورت حال کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا. روس کی حکومت کی جانب سے اپوزیشن لیڈر الیکسی نیوالنی جیسے سیاسی مخالفین سمیت پر امن مظاہرین کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات، وینیزویلا کے لیڈر نکولس میڈورو اور ان کے اہم ساتھیوں کی کرپشن، کیوبا، نکارا گوا، ترکمانستان اور زمبابوے کی حکومتوں کی جانب سے سیاسی تقریروں پر لگائی گئی پابندیاں کا ذکر بھی تفصیل سے امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس کا ذکر امریکی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں بھی کیا. انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں بھارت اور پاکستان حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ دونوں پڑوسی ممالک میں (بھارت و پاکستان) اذیت اور بے رحمی کے واقعات، غیر انسانی اور اہانت آمیز سلوک اور سزائیں دینا مشترک رہیں۔ یہی صورت حال یک طرفہ قید، جیل میں انتہائی سختی اور جان لیوا سلوک، سیاسی اختلافات کی بنیاد پر لوگوں کو قید میں ڈال دینے اور لوگوں کی پرائیویسی میں غیر قانونی حکومتی مداخلت کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہیں. رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں میں ہی اظہار رائے کی آزادی، پریس اور انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں، صحافیوں کے خلاف تشدد، انہیں غیر قانونی طور پر گرفتار کرنے اور غائب کر دینے، سینسر شپ اور ویب سائٹوں کو بلاک کر دینے کا سلسلہ جاری رہا۔رپورٹ میں یہ بھی خلاصہ کیا گیا ہے کہ دونوں ملکو ں کی حکومتوں نے لوگوں کے پرامن اجتماعات، تنظیموں کی آزادی جیسے حقوق میں مداخلت کی جن میں غیر سرکاری تنظیموں پر بندشیں عائد کرنا بھی شامل ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی حکومتوں نے مذہبی آزادی اور آزادنہ نقل و حرکت پر بھی سخت بندشیں عائد کیں۔ بیوروکریسی میں بدعنوانی، خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی تفتیش اور احتساب کا فقدان دونو ں ملکوں میں مشترک ہے۔
ادھر ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بلنکن نے سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی پالیسیوں کے بلیو پرنٹ کو باضابطہ طور پر تبدیل کر دیا ہے، جس کی بنیاد پر انسانی حقوق سے متعلق امریکہ کی پالیسیاں صرف ان اہداف کی حمایت تک محدود کر دی گئی تھیں، جنہیں مبصرین کے مطابق قدامت پسندوں کی حمایت حاصل تھی، جیسے کہ مذہبی آزادیاں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بلنکن نے سابق امریکی انتظامیہ کے اس فیصلے کو بھی مکمل طور پر بدلنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے مطابق انسانی حقوق سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں دوسرے ملکوں میں تولیدی حقوق سے متعلق کچھ حصے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ “خواتین کے جنسی اور تولیدی حقوق بھی انسانی حقوق کا حصہ ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کو ہدایت کی گئی ہے، کہ انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں اضافی تحریریں شامل کی جائیں، جن میں زچہ کی شرح اموات، خواتین کی تولیدی اور جنسی صحت اور زچگی اور اسقاطِ حمل سے متعلق معلومات شامل ہوں. بلنکن کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی اساس یہ ہے کہ وہ عالمگیر ہوتے ہیں، اور ہرشخص کے لیے ہوتے ہیں۔کل ملا کر مذکورہ رپورٹ میں جس طرح سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات سامنے آئے ہیں. ہم سب کے لیے وہ ایک بڑی تشویش و فکر کا باعث ہونے چاہئیں . بھلے ہی آج ہم ترقی یافتہ ہونے کے بڑے بڑے دعوے کرتے نہیں تھکتے. لیکن اتنی ترقی کے باوجود بھی اگر ہم اپنے مفاد کو بروئے کار لانے کے لیے حقوقِ انسانی کو پامال کر کمزور طبقات کا استحصال کرنے میں لگے ہوئے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں ہمارے ترقیاتی دعوے بے معنی و بے سود یا کھوکھلے ڈھکوسلوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں..
رابطہ 9855259650
[email protected]

 

 

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here