فھیم انور اعظمی ولید پوری
میں عائشہ بنت لیاقت علی مکرانی ہوں میری میلاد ہی ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں پر غربت کی زنجیریں میرے والدین کے خو شنما خواب کو دھو مل کر چکی تھیں غربت اور افلاس نے کچھ اس طرح سے عرصہ حیات کو تنگ کیا کہ میرے والد کو اپنے بچوں کی کفالت اور ان کے بہتر مستقبل کے لئے اپنے آبائی صوبے سے دوسرے صوبے میں ہجرت کے لئے مجبور ہو ناپڑا جب میرے والد محترم نے راجستھان کے آبائی علاقہ کو چھوڑ کر گجرات میں محنت و مزدوری کی اور خود درزی کے کام کو فوقیت دیکر اس فرائض پر عمل پیرا ہو ئے تو کچھ آسودگی اور غربت کی زندگی سے نجات ملی میرے والد لیاقت مکرانی کی ابتداء سے ہی یہ خواہش رہی کی اپنے بچوں کو اعلی تعلیم و تعلم سے فیضیاب کر ان کے مستقبل کو سنوارا جائے جس کے لئے انہوں نے اپنے خواب کو پائے تکمیل تک پہچانے کے لئے جدو جہد اور مجاہدہ بھی کیا میرے بڑے بھائی کو تعلیم کی دولت سے مزین کر نے اور ان کے مستقبل کو تابناک بنا نے کی غرض سے ایک اسکول میں داخل بھی کرایا جہاں پر میرے بڑے بھائی نے اپنے والدین کی امیدوں پر اپنی ذہنیت کو ثابت کر نے کی غرض سے محنت بھی کی مگر والدین کی مفلسی اور ان کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے خود والدین کا سہارا بننے کی غرض سے تعلیمی دنیا سے منحرف ہو کر پر ائیویٹ سیکڑ میں کام کر نے پر مجبور ہوا جس سے کہ والدین کی ذمہ داری کو اور ان کے بوجھ کو کچھ کم کیا جا سکے اس کے بعد میرے والدین نے میری بڑی بہن کو بھی تعلیم کے شعبے میں اعلی تعلیم سے مزین کیا اس کے بعد میرے والدین کی نظریں میری جانب مر کوز ہوئیں میں ابتدائی تعلیم سے ہی فطین الذ ہن تھیں اس لئے میری قابلیت کو دیکھتے ہوئے والدین کے جذبے میں نکھار پیدا ہوتا گیا اور میں تعلیمی میدان میں اپنے آپ کو والدین کی امیدوں اور ان کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے تعلیمی میدان میں قسمت آزمائی کرتی گئی وقت اور حالات نے میری محنت اور میرے جذبے کو جدید استقلال و عزم سے میرے قلب کو منور کیا اور میں نے اپنی محنت کی بنیاد پر تعلیمی میدان میں گریجویٹ بھی کیا اور بہتر مستقبل کی فراق میں ایم اے کے شعبے میں قسمت آزمائی کررہی تھی کہ اسی بیچ میرے والدین نے میرے رشتے کی بات کر لی اور میری شادی پڑھائی کے دوران ہی عارف خان کے ساتھ ہوئی میری شادی کے وقت میری والدہ حرمت بی بی نے میرے شوہر کے سامنے میری پڑھائی کے متعلق گفتگو کی تو میرے شوہر نے میری والدہ کو مطمئن کر نے کی غرض سے اس بات کا یقین دلایا کی عائشہ کی پڑھائی میں مستقبل میں جاری رکھوں گا تمام گفتگو سے مطمئن ہو نے کے بعد جب میں دلہن بن کر عارف خان کے گھر میں داخل میں ہوئی تو مصائب و آلام نے مجھے چہار جانب سے اپنے آغوش میں لے لیا میرے شوہر نے زندگی کے ابتدائی مراحل میں مجھے کچھ خوشیاں دیں مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میں اپنے شوہر عارف علی کی نگاہ میں ایک کنیز کی حیثیت سے عزت رکھنے لگی میرے شوہر عارف علی خاں کے شادی سے پہلے ہی کسی دوسری محبوبہ کے ساتھ عشق و محبت کی نا گریز حالات سے گزر رہے تھے مجھے رسوا کر نے اور مجھے قلبی تکلیف دینے کی باعث میرے ہی سامنے اپنی محبوبہ سے ویڈیوکال کیا کرتے تھے جسے دیکھکر میں اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو گئی جس کی شکایت بھی میں نے اپنے شوہر کے والدین سے کی انہوں نے میری باتوں کو سننےکے بعد مجھے ہی طعن و تشنیع کر نے لگے اور اپنے بچے کی ناکردہ حر کت پر پرڈہ ڈالنے لگے جب میں اپنے شوہر کی ناگریز حالات سے دل بر داشتہ ہو گئ تو اپنے میکے چلی آئی جہاں پر میرے والدین نے میرے شوہر کے والدین سے گفتگو کی کالونی کے ذمہ داران کے صلح مصالحت کے سبب زندگی ایک بار پھر پڑی پر لوٹی مگر جب میں دوبارہ اپنے شوہر کے گھر میں داخل ہوئی تو میرے زندگی کے اوپر عرصہ حیات کو تنگ کر دیا گیا میں حاملہ ہو گئی میرے بطن میں دو ماہ کا حمل تھا میرے شوہر نے مجھے گھر میں بند کر دیا جہاں پر میں ایک مجرم کے مانند بند کو ٹھری میں پڑی رہی نہ مجھے کھانا دیا گیا اور نہ ہی میری کو ئی خبر گیری کی گئی جب میں ان نا مساعد حالات کا مقابلہ کر نے کے بعد اپنے گھر لوٹی تو کچھ دنوں کے بعد میرے شوہر کی آمد میرے گھر ہوئی اور انہوں نے غصہ کی حالت میں میرے والدین کے سامنے اونچی آواز سے گفتگو کی اور غصے کی حالت میں میرے بطن پر پیر ماری جس سے میری طبیعت بگڑ گئی اور میری زندگی کے تحفظ کے لئے میرے والدین نے ڈاکٹروں سے رجوع کیا جہاں پر ڈاکٹروں نے اس بات کی وضاحت کی کہ مادر شکم بچے کی موت ہو چکی اگر عائشہ کی زندگی کو بچانا ہے تو اسقاط حمل کے مراحل سے گزرنا ہو گا اس لئے کہ یہاں پر میری زندگی بچانا مقصود تھا اور مجھے اسقاط حمل کے مراحل سے گزرنا پڑا جس کے بعد طبیعت میں کچھ افاقہ ہوا اور میں معمولات زندگی پر لوٹی اور میں نے اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے اور سرکے بوجھ کو کچھ ہلکا کر نے کی غرض سے پرائیویٹ سیکٹر میں نو کری کر نے لگی نو کری کر نے کے بعد بھی میرے قلب میں میرے شوہر کی محبت ٹھاٹھیں مارتی رہی میں اپنے شوہر عارف علی کو مطمئن کر نے کے لئے فون کر تی رہیں کی پھر سے میری محبت میرے شوہر کے دل پر غالب آجائے مگر جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا ہی گیا آخر کار میرے شوہر نے میرے والدین کے سامنے دس لاکھ روپئیے کی ڈیمانڈ رکھ اوریہ پیغام دیا کی جس دن دس لاکھ روپئے کا انتظام ہو جائے عائشہ کو میرے گھر پہچا دینا میں اپنے شوہر کی بات کو سنکر اندر ہی اندر گھٹتی رہی اور زندگی سے امیدیں چھوڑ دیں اس کے باوجود بھی میرے والد نے ڈیڑھ لاکھ روپئیے کا انتظام کیا اور میں عارف خان کے گھر چلی گئی مگر میری سسرال میرے لئے ایک عقوبت خانہ بن چکی تھی ہر بار سسرال میں اپنے شوہر کے پیار سے محروم رہی آخر کا ر مجھے زند گی سے تنگ آکر مجھے سوسائڈ کر نے پر مجبور ہو نا پڑا اور میں سابر متی کے ریور فرنٹ پر پہچ کر چند کلمات کے ساتھ اپنی زندگی کی بازی ہار گئی میں جب ویڈیو شوٹ کررہی تھی اس وقت میں نے یہ کلمات ادا کئے کہ میں اب دوبارہ سے انسانوں کی شکل نہیں دیکھنی چاہتی میں جو کچھ کررہی ہوں اپنی مرضی سے کررہی ہوں میں اپنے اللہ سے ملاقات کروں گی اور سارے گلے شکوے اللہ کی عدالت میں رکھوں گی اے اللہ میں کہاں غلط تھی مجھے امید ہے یہ دریا مجھے اپنی آغوش سما لے گا اور میں پانی کی روانی میں اپنی زندگی کو گلے لگا لوں گی انہیں کلمات کو کہہ کر عائشہ نے اپنی زندگی ختم کر لی اور عائشہ کی موت کے بعد ہی قوم و ملت کے اندر جہیز جیسی خطر ناک رسم کو لیکر آوازیں اٹھنے لگی اور جہیز کے خلاف مخالفت کا دور شروع ہو گیا علمائے حق نے بھی جہیز کی تقریبات میں شرکت سے انکار کر دیا اور ایسے خاندان کا بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے آخر کب تک قوم و ملت کی بچیاں جہیز جیسی ناسور اور مہلک رسم کے خلاف بلی چڑ ھتی رہیں گی اور ہم بائکاٹ کا اعلان کر تے رہیں آج بھی مریم اور سیتا غریبی اور مفلسی کے سبب اپنی زندگی کو اور اپنی جوانی کی قر بانی اپنے گھروں میں دے رہی ہیں اور مفلسی کے سبب نیک سیرت لڑ کیاں غریب والد کے گھر میں ضعیفی کے عالم میں پہچ رہیں آج ان کے رشتے کے لئے ہماری جانب سے کوئی بھی پیشکش نہیں گھر میں بچیوں کی جوانی نے والد کی نید کو حرام کر دیا اور ہماری قوم کی بچی شب کی تاریکی میں اپنی مفلسی پر آبدیدہ ہیں آنکھیں اشکبار ہیں مگر مفلسی اور تنگ دستی نے ان کے رشتے کے سارے دروازے بند کر رکھے ہیں آج مریم اور سیتا کی رخصتی کے لئےہمیں جہیز جیسی خطر ناک رسم کے خلاف ایک مہم کا آغاز کر نا ہو گا جمعہ کے خطبہ اور عیدین کی نماز میں تفصیل کے ساتھ ان امور پر ذکر کر نا ہو گا جس سے کہ قوم و ملت کے نوجوانوں کے قلب میں جہیز کے خلاف عزم پیدا ہو اور ہمارا معاشرہ جہیز جیسی لغویات سے پاک ہو جس سے کہ ایک غریب آدمی کو بھی اپنی بیٹی کی شادی کے لئے آسانیاں پیدا ہو یہ سب جذبہ اسی وقت پیدا ہو گا جب ہم غریب بیٹوں کے توسط سے غورو فکر کریں گے اور ان کی رخصتی اورنکاح کے لئے کمر بستہ ہو ں گے ۔
[email protected]