حمد و نثاء کر تی ہوں اس پاک پروردگار کی جس نے ہمیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امت میں پیدا کیا اور خانوادہ انصار میں پیدا کیا ۔ مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے علمی گھرانے میں پیدا کیا اور مجھے آج اس قابل بنادیا کہ میں معروف شخصیت کے بارے میں کچھ قلمبند کر نے کی جسارت حاصل کر رہی ہوں کسی بھی شخصیت کے بارے میں انکے اخلاق و کردار اور ان کے کارناموں کو ضبطِ تحریر میں لا نا بڑا دشوار کن مرحلہ ہے ۔
شہر گلبرگہ علمی ادبی ثقافتی تہذیبی اعتبار سے ہر دور میں اپنا فعال کر دار ادا کیا ہے اس سرزمین پر حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کا کرم اور آپ کا فیضان ہے کہ یہاں علم و ادب کی آبیا ری ہر دور میں ہوتی رہی ہے یہاں کئی ایسے بزرگان دین کے کشف و کرامات اور آپ کی تعلیمات کا وسیلہ ہے کہ یہ شہر علم و ادب سے مالا مال ہوگیا۔
شہر گلبرگہ کی ایک سنجیدہ شخصیت جو اپنے علم و ادب اخلاق و کردار سے مشہور و معروف ہیں اور اپنے اندر بے شمار صفات رکھتے ہیں وہ قابلِ تعظیم شخصیت ہیں محترم جناب منظور وقار جیسا نام ہے ویسا وقار آپ کی طبیعت میں موجود ہے سنجید گی کا مرقع سیدھی سادھی طبعیت خاموش مزاجی جیسے اوصاف آپ میں موجود ہیں۔ نام محمد منظور احمد قلمی نام منظور وقار 5ڈسمبر 1953ء کو شہر گلبرگہ کی سرزمین پر آنکھیں کھولیں آپ کے والد محترم محمد مشائخ صاحب ایک پر وقار اور معزز شخصیت کے مالک تھے اگرچہ آپ کے گھر کا ماحول ادبی نہ تھا لیکن آپکے اندر یہ ذوق طالب علمی کے زمانے سے ہی پروان چڑھا میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج کا رخ کیا اور بی اے کی تکمیل کی گورنمنٹ کالج گلبرگہ کے ادبی ماحول نے آپکے ادبی ذوق کو پروان چڑھایا بعد از سیاسیات میں دھارواڑ یونیورسٹی سے یم اے کیا۔آپ کی ملازمت کا آغاز ولیج اکائونٹنٹ کی حیثیت سے ہوا جو بیجاپور کے ایک تعلقہ میں ملازمت کی وہاں کنڑا ماحول رہنے کے بعد بھی آپ نے اپنی زبان سے صحیح انصاف کیا۔
آپ بی اے پاس ہوتے ہی گورنمنٹ سائنس کالج میں بحیثیت کلرک اپنی خدمات انجام دیتے رہے اس زمانے میں آپ کو اردو زبان و ادب سے گہرا لگا ئو رہا اور آپ بزم اردو گورنمنٹ کالج میں منعقدہ تحریری تقریری اور بیت بازی کے مقابلہ جات میںبڑے ہی خوش اسلوبی اور ذوق کے ساتھ سر گرم عمل رہ کر اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دیتے رہے۔ شہر گلبرگہ میں انجمن ترقی پسند مصنفین بزم اردو گورنمنٹ کالج کے جیسے مقابلہ جات کوئی منعقد نہیں کر سکتا ایک میلہ لگا ہوتا 8دن طلباء و طالبات شہر کے مشہور و معروف ادیب شاعر نقاد صحافی اسٹاف لیکچرارس مودبانہ شخصیات کا ہجوم ہوا کرتا تھا ۔ شہر گلبرگہ کی تاریخ میں بزم اردو گورنمنٹ کالج کی ادبی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیںگی ۔
منظور وقار کا ادبی ذوق کالج کے ادبی ماحول میں پروان چڑھتا رہا اور وہاں پر قابل اساتذہ کرام ڈاکٹر طیب انصاری ، ڈاکٹر جلیل تنویر ، جناب سعید شاہد صاحب وغیرہ کی صحبتوں و رہبری نے آپ کے ادبی ذوق کو پروان چڑھایا اور آج آپ شہر گلبرگہ کے بہترین قلمکار طنز و مزاح نگار ہیں۔ معروف منظور وقار کی شخصیت محتاج تعارف نہیں وہ بہت ہی پر وقار شخصیت کے مالک ہیں سادگی آپکی فطرت میں ہے۔آپ اردو زبان وادب کی صنف افسانہ نگاری خاکہ نگاری طنزو مزاح نگاری قابل ستائش ہے۔ خواجہ ہائی اسکول میں آپکی تعلیم ہوئی اور وہاں کے اساتذہ کرام آپ کے ادبی ذوق کو پروان چڑھایا اور آپکی حوصلہ افزائی فرمائی ادبی مقابلہ جات میں حصہ لیکر انعامات و اعزازات حاصل کئے اور کئی اخبارات رسائل میں مضامین شائع ہو تے رہتے ہیں ۔ ان کا پہلا افسانہ’’انسانیت کی لاش‘‘ خواجہ ہائی اسکول گلبرگہ کے میگزین ’’شاہین‘‘ میں 1971 میں شائع ہوا تھا تاحال ان کے سینکڑوں نثری تخلیقات رسائل اور اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔
منظور وقار صاحب بڑے سیدھے سادے اور سادگی پسند شخص ہیں آپکے اخلاق و کردار بہت جامعہ بلند ہیں اور اردو زبان کے بے لوث سچے خادم ہیں نام اور شہر ت نہیں چاہتے بلکہ خدمتِ خلق کا جذبہ آپکے اندر موجود ہے اور اپنے اساتذہ کرام کے مرہون منت آپ نے کبھی حدّ ادب سے دور نہیں بلکہ ہمیشہ ادب پر قائم رہے مبالغہ آمیزی اور جھوٹی شان سے ہمیشہ دور رہے اور قوم کے سچے خادم بن کر اپنے علم و عمل کے ذریعہ اپنے قلم کی جولا نیا ں دکھاتے رہے ۔ آ پ کے مضامین بڑے دلچسپ ہو تے ہیں خاص طور پر آپ کی پہلی تصنیف کر دہ کتا ب ’’ہنسنا منع ہے ‘‘ جو سب کو ہنسنایا اور ہنسنے پر مجبور کر دیا یہ کتاب 1990ء میں شائع ہوئی۔ 2015ء میں افسانچوں کا مجموعہ ’’کانٹوں کا جھنڈ‘‘ کرناٹک اردو اکاڈمی کے زیر اہتمام شائع ہوا ۔ پھر 2019ء میں طنزو مزاحیہ مضامین کا دوسرا مجموعہ ’’ مسکرانہ منع ہے ‘‘ کرناٹک اردو اکاڈمی کے زیر اہتمام شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔جنوری2021 میں ان کے پچاس خاکوں کی کتاب ’’ورق ورق چہرے‘‘قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان، دہلی کے زیر اہتمام شائع ہوکر مقبولیت کے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔
منظور وقار کو کئی اداروں و انجمنوں نے اعزازات سے نوازا جن میں غالب کلچرل اکاڈمی (بنگلور) نے انہیں سال 1989ء میں بہترین افسانہ نگاری کے لئے ’’سروش ایوارڈ‘‘ سے نوازا ہے سال 1990ء میں ادارہ روزنامہ بہمنی نیوز نے انہیں بہترین نثر نگاری کے لئے ’’شاہین ایوارڈ‘‘ سے نوازا ۔ سال 2019ء میں انجمن خادمان اردو شولاپور (مہاراشٹرا) نے انہیں بہترین طنزو مزاح نگاری کے لئے ’’الحسینی ایوارڈ‘‘ سے نوازا ۔ سال 2018ء کے لئے کرناٹک اردو اکاڈمی بنگلور نے انہیں بہترین طنزو مزاح نگاری کے لئے اکاڈی کے ایوارڈ سے نوازا۔ موصوف گلبرگہ کی کئی انجمنوں سے وابستہ ہیں ڈاکٹر طیب انصاری ،ڈاکٹر جلیل تنویر اور منظور وقار کی قائم کر دہ ’’ادبی مجلس ‘‘ کے وہ جوائنٹ سیکریٹری رہ چکے ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے وہ خازن تھے ۔ علاوہ زایں مجلس شعور ادب گلبرگہ کے وہ نائب صدر ہیں تو حیدرآباد کرناٹک سوشل جاگرتی فورم گلبرگہ کے کنوینر اور اردو رائٹرس فورم گلبرگہ کے رکن عاملہ میں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ آپ بہمنی نیوز لٹریری فورم گلبرگہ کے نائب صدر ہونے کے ساتھ ساتھ سرسید احمد خاں اکاڈمی کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں ۔ منظور وقار کا کمال یہ ہے کہ وہ جس صنف ادب کو چھوتے ہیں اسکے فنی لوازم کا پورا پورا الترام کیا کر تے ہیں ۔ افسانہ جہاں سنجید گی کے لئے ہوتا ہے انکی مزاح نگاری میں شوخی اور برجستگی ہوتی ہے۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جو منظور وقار کے فن کو نکھا رتی ہیں منظور وقار ریاستی سطح اور کل ہند سطح کے بے شمار ادبی اجلاسوں اور سمیناروں میں اپنی تخلیقات پیش کر چکے ہیں ۔ آپ کے مضامین ، افسانے ، خاکے ، افسانچے اور انشائیے ملک اور بیرون ملک کے ادبی رسائل میں تواتر سے شائع ہو ا کر تے ہیں۔ عزیز اللہ سرمست صاحب کے اخبار روزنامہ بہمنی نیوز گلبرگہ میں منظور وقار صاحب کا کالم ’’غبار ِراہ‘‘ دس برس تک بلاناغہ شائع ہوا کرتا تھا۔منظور وقار کی طنز ومزاح نگاری کا آغاز اسی کالم کے ذریعہ ہوا تھا۔
منظور وقار صاحب اپنے اندر ایک خاص انفرادیت رکھتے ہیں اور آپ کا عظیم کام یہ ہے کہ آپ نے کبھی صلہ کی پرواہ نہیں کی نہ ہی دولت کی انہیں آس ہے۔بلکہ بغیر معاوضہ اور بغیر نام ونمود کے اپنی علمی و ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں خاص طور پر مجلس شعور ادب کے زیر اہتمام محترم سراج وجیہہ تیر انداز صاحب اور ڈاکٹر چندا حسینی اکبر صاحب کے اتحاد سے یہ انجمن ہمیشہ سرگرم عمل رہ کر فعال کردار ادا کر رہی ہے منظور وقار صاحب کی شخصیت پر قلم اٹھانا بڑا مشکل ہے میں تو صرف سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی مہارت حاصل کر رہی ہوں منظور وقارصاحب میرے چچا مرحوم ڈاکٹر طیب انصاری کے بہت قریبی رفقاء میں شامل تھے ۔ اور آپ کی بے پناہ محبتوں کا کرم ہے کہ آپ ڈاکٹر طیب انصاری مرحوم کے چاہنے والوں میں سے رہے ہیں ۔
بہت ہی بہترین اخلاق و کردار کے مالک جناب منظور وقار صاحب تمام اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل ہیں اللہ کرے آپ ہمیشہ خوش و خرم شاد و آباد رہیں۔بہر حال منظور وقار صاحب کی شخصیت بہت ہی قابلِ تعظیم ہے آخر میں آپکی شخصیت پر غالب کا یہ شعر کچھ ترمیم کے ساتھ پیش کرنا چاہتی ہوں :
ہیں اور بھی دنیا میں مزاح نگار بہت اچھے
کہتے ہیں کہ منظور کا ہے اندازِ بیاں اور
اردولیکچرنیشنل ڈی ایڈ کالج گلبرگہ
٭٭٭٭