(فیصل اباد)
“مرده خانہ میں عورت “کی عمارت استعاروں کے وسیع جال سے بنائ گئ ہے. موازنیت، متوازیت ،تضادات اور معنی خیز ی کے سمندر ہر سطر پر قاری کے وجدان کی راہ میں حائل ہوتے ہیں. اس ناول کا بیانیہ انفرادیت سے آفاقیت کی طرف جست لگاتا ہے. مرکز سے مرکز گریز کے تصور نے لسانی تنظیم کو لفظیاتی اور معنیاتی جہت عطا کی ہے. متن در متن استعاروں کی مدد سے ایسا زمینی بیانیہ تیار کیا ہے. جس کی روش پر امن وامان کی زبوں حالی، سیاسی، معاشرتی عدم توازن، جنگ، نظریاتی اختلاف، مذہبی منافرت کے بت کدے پورے قد سے ایستادہ ہیں. انسانی ذہن کی محرکات، متھ کے تجزیے اور زندگی کی بے ثباتی کے بلیغ اشارے موجود ہیں.
مار شہوت را بکش در ابتدا
ورنہ اینکہ گشت مارت اژدہا…. (مولانا روم)
“خواہش کے سانپ کو ابتدا میں ہی مار دو ورنہ دیر ہونے پر اژدہا قابو سے باہر ہوجائے گا
“The fear of appearance is the first symptom of impotence. ..
Only to live, to live and live, life, what ever it may be!
خواہش ایک عکس ہے ،پرچھائ ہے. مگر اس سراب کے پیچھے انسان پوری عمر تیاگ دیتا ہے. اسی ہوس نے دنیا کو مرده خانے میں بدل دیا ہے. ذوقی نے دنیا کو مرده خانہ کہا ہے. وجودی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے جانوروں کی علامتیں استعمال کیں ہیں. دنیا کی زنگ آلود اقدار اور سائنسی چکاچوند کا تصادم ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کر رہا ہے. ناول کے آغاز سے کئی بحثیں سامنے آتیں ہیں. موت جسے زندگی کا اختتام سمجھا جاتا ہے. مختلف اساطیری حوالوں سے موت کی بانسری سے
ہی انبساط ، موسیقی اور زندگی کے مثبت رخ کی عکاسی کرتے ہوئے موت کا نیا فلسفہ اور نیا تصور پیش کیا ہے
لفظ “موت” کی معنوی ترمیم کرتے ہوئے پزل گیم کی بساط پر ناول کی دنیا میں نیا تکنیکی محل سجایا ہے. اگر موت کے لفظ سے “م ” کا حرف نکال دیا جائے تو” وت” ہندی میں ماضی کو کہتے ہیں. یہ مقولہ مشہور ہے کہ موت ہر وقت انسان کے تعاقب میں رہتی ہے. ایک ٹرین کی طرح جس کا انجن زندگی اور پیچھے لگی ہو ئ بوگیاں ماضی ہیں ..جو آگے کی طرف سفر کرتی ہے اور ماضی کی بوگیاں کسی صورت اس کا پیچھا نہی چهوڑتیں اور بوگیوں کے بغیر انجن کا وجود ناکارہ ہے. کرداروں کی مدد سے زندگی کی بے ثباتی واضح کی گئ ہے. موت کا بلیک ہول چند ساعتوں میں حرارت سے بھر پور جسموں کو تحلیل کر دیتا ہے. کرنل سدهو ،ڈاکٹر سدهاکر، سمیتا، ریحانہ اور کاشف کے کرداروں کا وجود سے عدم وجود کے بیانیے کو پیش کیا گیا ہے.
انسانی مذاہب آئے، دهارمک منتر آئے مگر موت کے پرندے کی تند خوئ ازل سے ابد تک جاری و ساری رہے گی. مابعدالطبیعاتی عناصر. موسموں کا سفر، وقت کا جلاد، تہذیبوں کے سمندر منتھن ہیں اور ہر عہد کے فاتح راکشش کی مانند ہیں. موت کو سفید چوہے سے . عورت کے وجود کو مرغابی سے ، موسم، وقت، زندگی اور استعماری طاقتوں کو خانہ بدوشوں سے تشبیہ دی ہے. عقائد کو تتلیوں سے ‘ نوح کی کشتی کو اور انڈیمان جزائز کی جدوجہد کی مانند قرار دیا ہے. سوءروں کو سیاسی یلغار سے، زغفرانی فصل کو مذہبی انتہاپسندی کی علامت کے طور پر دکھایا. ڈارون تھیوری کی مدد سے بندروں اور انسانوں کے رویہ جاتی افعال کی سائنسی توجیع پیش کی ہے. کرناتی مشن کے زغفرانی رنگ نے ایوانِ بالا سے نچلی سطح تک ذہنوں کو مفلوج کر رکھا ہے.
سیاسی مہرے زبان بندی کی آڑ میں انسانی جزبات کو بھی سیاست کی گهناونی دلدل میں دهکیل چکے ہیں.انسان کے اندر ازلی ٹهگ چپ ہوا ہے. جو جزبات، اخلاقیات اور سیاست ہر میدان میں ٹهگی کی بساط سجاتا ہے. وہ مکهڑا ہے جو چالاکی سے دوسروں کو مکهی سمجھ کر ورغلاتا رہتا ہے. انسان پیدائش سے بهی اندهیری راه کا مسافر ہوتا ہے اور موت کے بعد بهی اندهیرے میں دفن ہو جاتا ہے .مگر زندگی آوازوں میں قید ہو کر فضا میں بکهر جاتی ہے.انسانی دماغ ریڈیائی لہروں کی مدد سے ان آوازوں کی بازگشت سن سکتا ہے گہری طنز کا حوالہ پیش کیا ہے. انسانی سوچ کے اصول،قوانین،تہزیبوں کی بازیافت کے لیے زمینی کهدائ اپنے اندر گہرے مفاہیم رکھتی ہے.مصنف نے تلازمہ خیال اور قوت واہمہ کی مدد اساطیری حوالے سے عورت کے وجود کو ہر عہد کے عروج و زوال کا اہم عنصر قرار دیا ہے.
قید صرف جیل میں نہیں ہوتی – نظریاتی، مذہبی، علاقائی، جغرافیائی حدبندیاں بھی قید کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں. مسیح سپرا کی شکل میں مصنف کی کرداری جھلک نمایاں ہے. تحلیل نفسی کا عمدہ آمیز اس کردار میں نظر آتا ہے.مصنف کی حسیاتی آنکھ دنیا کے خوف ناک منظر نامے کو محسوسات کے ذریعے صحفہ ء قرطاس پر بکهیر رہی ہے.موجوده سیاسی صورتحال کو غرناطہ کی بربادی سے ملایا ہے . ہزاروں سال کے قدیم عربی ادب کا جلا دیا جانا، انقلاب ءفرانس، امرتسر کا گولڈن ٹیمپل. بابری مسجد کا انہدام، میانمار ،گجرات کے فسادات. جامعیہ ملیہ کے طالب علموں پر خونی تشدد، نسلی شناخت جیسے حساس ایشوز ناول کے بیانیے میں چهیڑے گئے ہیں.
بی مشن ہر نظام میں ہمیشہ موجود رہتا ہے. دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے نظروں تک کیسے فیصلے بدل جاتے ہیں. نیتیں بدل جاتیں ہیں .مٹهی بهر خانہ بدوش کروڑوں ذہنوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں (صفحہ نمبر، 90،91)
“زمین پر خانہ بدوشوں کے قدم جم چکے ہیں اور اب لال قلعہ کی فصیلوں سے پرچم لہرانے کا وقت آ چکا ہے ”
اور یہ اقتباس …اس نے سوچا، کیا آفتاب سچ مچ طلوع ہوتا ہے؟ غروب ہوتا ہے؟ سمندروں سے موجیں اٹھتی ہیں؟ اس نے پہاڑی شگاف سے اٹھنے والے آتش فشاں کو دیکھا۔ اور اس وقت وہ دشت لایعنیت کے صحرا میں تھا…. اور ایک زندہ انگلی اس کے لئے قطب نما تھی جو اسے راستہ بتا رہی تھی۔ اس نے ایک قحبہ خانے کو دیکھا، دھول مٹی کی سڑک کو…. اور ایک خاص بو کو محسوس کیا جو شمال سے ہوتی ہوئی چاروں سمت پھیل رہی تھی۔
….اور اس نے سوچا، پیدا ہوتے ہی پہاڑی شگاف سے اٹھنے والے آتش فشاں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں، مگر ہم موسموں کا اعداد و شمار رکھتے ہیں اور اس لمحہ وقت کسی مسخرے سے کم نہیں ہوتا۔ وہ آفتاب کی طرح طلو ع و غروب کے رقص میں ہوتا ہے، مہتاب کی طرح بادلوں کے قافلہ میں چھپتا اور اُبھرتا ہے… اور سمندر کی بے قرار موجوں کی طرح فلک تک اچھال لیتا ہے اور بکھر جاتا ہے…..
وہ اس زندہ انگلی کے لمس کے ساتھ گھر لوٹا تھا اور اس وقت اس نے بی بی مریم کے مجسمے کو دیکھا تھا اور اس سرخ چیونٹے کو جو صندوق کے پاس دیوار پر چڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔وہ سونے کی کوشش کرتاہے تو وہ انگلی رقص کرتی ہوئی اس کے سامنے آجاتی ہے۔ وہ ایک برف کے قلعے کو دیکھتا ہے اورپھر ریحانہ کو۔وہ قلعے کی فصیلوں پر کھڑی ہوئی مسکرا رہی ہے اور پھر اپنی چار انگلیاں دکھا کر کہتی ہے کہ ایک انگلی تمہارے لیے چھوڑدی، کہ تم مردہ مچھلیو ں کی طرح ساکت نہ رہو اور چاہو تو کسی خاتون کو گھر لے آؤ، جو میری طرح برف کے قلعوں میں قید نہ ہو۔
ہمارے ہی ہاتھوں سے پتلی تماشا دکھایا گیا. جمہوریت کی ڈگڈگی ہر نسل ،ہر عقیدے سے انتقام لیتی ہے. .گرگس کی چال کی طرح سیاست کا کوئی عقیدہ کوئی اصول اور کوئی نظریہ نہی ہوتا. مغربی انقلاب کا اژدہا مشرقی معصومیت کو نگل گیا. مصنف نے مولانا روم، دوستو فیسکی. کافکا. مار خیز. جیمس جوائز ، جوناتهن کلر اور جارج آرول کے افکار کی مدد سے نئ دنیا کا بھیانک چہره دکھانے کی کوشش کی ہے.
دنیا کی بد ہیتی کو ڈھانپنے کے لیے سائنسی ترقی اور گلوبلائزیشن کی شکل میں نئے نقاب جیب کی مانند ہیں.( ص نمبر 137 ) “جیب. .اس میں فلائ اوورز ہیں، نیشنل اور انٹرنیشنل بینک ہیں. عدلیہ ہے، ایجنسیاں ہیں، خانہ بدوش ہیں، مزہب ہیں اور ہتھیار. ….”مصنف نے زندگی کی بقا کو خلیات کی تنظیم ء نو کے مماثل قرار دیا ہے. جس طرح موت کی پرچھائ زندگی کی عمارت کو منہدم کر دیتی ہے. انسان کے اندر بهی بے شمار مدفن موجود ہیں. ہزاروں سالوں کی تاریخ میں سندھ کے علاقے سے محمد بن قاسم کی شکل میں ہندوستان پر حملوں کی شروعات ،چنگیز، ہلاکو سے لے کر مسولینی اور ہٹلر کے کارنامے ،نازی افواج کے ظلم ،جنگ عظیم اول اور دوم کی خونچاں کہانیو ں کی مثال سے موجود ه ہندوستانی پولیس کے طرز عمل پر گہری طنز کی گئ ہے ،انا الحق کا بیان، نظام الدین اولیا کے مزار کا بیان، جامع مسجد اور محلہ بلی ماراں. تہذیبی استعارے ہیں. دلی کی قسمت میں بار بار اجڑنا ہی لکھا ہے. غرناطہ کی تباہ و بربادی کی تاریخ پهر سے دوہرائی جا رہی ہے. جیسے اسپین سے مسلمانوں اور یہودیوں کو بے دخل کیا گیا تھا. موجوده دور میں سیاسی خانہ بدوش زغفرانی فصل کی آڑ میں اقلیتوں کو شہریت سے بے دخل کرنے کی سازش کر رہے ہیں. ان استعماری طاقتوں کے لیے بهیڑیے، باره سنگھے اور بندروں کی علامتی بیانیے میں پیش کی گئیں ہیں. اسلام سے خائف جسموں میں، پہناووں میں، تسبیح میں اسلام تلاش کر رہے ہیں. (ص نمبر 530 )”دو آنکھیں ہر وقت تعاقب میں ہیں “A big brother is watching you. ..یہ دو آنکھیں پولیس اور فوج کی بربریت کی طرف اشارہ ہے.
یہ ناول ما بعد جدید بیانیے کی توانا آواز ہے.اس کی کہانی انفرادیت سے اجتماعیت کا سفر ہے جو ایک معاشرے سے شروع ہو کر دنیائے عالم کی معاشرتی زبوں حالی کا مستحکم بیانیہ بن چکی ہے. شعور سے لاشعور کا سفر، زمینی سطح سے آفاقی سطح پر ظلم و جبر کے نتیجے میں کیسے کیسے انقلاب راه پاتے ہیں. استعاراتی بیانیے کی مدد سے ناول نگار نے کورونا وبا کو مثبت انداز میں پیش کیا ہے. اس ظلمت کدے میں وائرس نے ہی کمزوروں کو اپنی آغوش میں چهپا لیا ہے. ورنہ سیاسی گدھ تو دو گز زمین دینے سے بهی انکاری ہیں. (ص نمبر 462) ” ویسے تم لوگوں کو دو گز زمین کی ضرورت ہی کیا ہے یہ دو گز زمین بهی ہماری ہے “…..ناول کے بیانیے میں معنی خیزی کے سرکٹ کی برقی رو موجوده حالات سے جوڑے ہوئے ہے. مسیح سپرا کا گهر استعاراتی سطح پر ہندوستان سے لے کر تمام مقبوضہ دنیا کے لیے مرده خانہ ہے. اس مرده خانے میں گل بانو کا کردار زندگی کی بقا اور آسودگی کی علامت ہے.قدیم زمانوں سے ہی عورت کا وجود دنیا میں حیات و حرارت کا منبع رہا ہے.فینکس پرندے کی طرح امریکہ سے نیپال تک کی زمین کو اپنے لباس اور جسم سے ڈھانپ لیا ہے. ناول نیو ورلڈ آرڈر کے حساس ایشوز کو پیش کیا گیا ہے. لایعنیت کے صحرا ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں.مصنف نے آوازوں کو، لہجوں کو کرداری تقویت پہنچا کر ماورائے فکشن کی نئ مثال پیش کی ہے. بیانات کی بے جا طوالت کہیں کہیں قرآت کو بوجھل بهی بناتی ہے. “مرده خانہ میں عورت ” استعاراتی بیانیے کی معنی خیزی کے حوالے سے اردو ناول کے میدان میں اپنی مثال آپ ہے.
ضضضضض