ایک نئی پہل

0
102

مذہب کی تبدیلی کے روکنے کے لئے ایک طرف جہاں طرح طرح کے بئے قوانین کا سہارا لیا جا رہا ہےاور ایسے قوانین بنائے جا رہے ہین جو آئین کی روح کے خلاف ہیں۔لیکن اس خرابی کے تدارک کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھائے جاتے۔بلا شبہ جبریہ تبدیلی مذہب کی جنگائش نہ کسی مذہب میں ہے اور کسی ملک کے قانون میں تاہم س حوالے سے پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک نئی اور قابل ستائش پہل سامنے آئی ہے اور وہاں کی ہ ندو کونسل اور علما کے درمیان ایک معاہد ہ طے پا گیا ہے۔
تبدیلی مذہب کے حوالے سے سرکردہ سمجھے جانے والے بعض علما اور پاکستان ہندو کونسل کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے تحت فریقین میں اتفاق ہوا ہے کہ ایسے واقعات سے متعلق پیشگی اطلاع فراہم کی جائے گی۔ دوسرے فریق کو مطمئن کرنے کے لیے وقت بھی دیا جائے گا۔اطلاعات کے مطابق پاکستان ہندو کونسل کے پیٹرن انچیف، رکن قومی اسمبلی اور پاکستان اقلیتی کمیشن کے رکن رمیش کمار وانکوانی اور گھوٹکی کی مشہور درگاہ بھرچنڈی شریف سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو، سجادہ نشین گلزار خلیل عمرکوٹ پیر محمد ایوب جان سرہندی اور جامع بنوریہ کراچی کے مہتمم مولانا نعمان نعیم کے دستخطوں سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔اس بیان کے مطابق تبدیلی مذہب کے لیے آنے والے لڑکے، لڑکی یا خاندان اگر کسی دینی درس گاہ سے تبدیلی مذہب کے لیے رجوع کرتا ہے۔ تو انہیں اسلام قبول کرانے سے قبل شہر میں موجود ہندو مْکھی یا اس ضلعے کے کسی رکن پارلیمان کے گھر پر مذہب تبدیلی کے خواہش مند افراد کی ان کے والدین اور رشتہ داروں سے آزادنہ ماحول میں ملاقات کرائی جائے گی۔ اور اس ملاقات میں دوسرے فریق کو اچھی طرح مطمئن کرنے کے لیے وقت دیا جائے گا جس کے بعد ہی تبدیلی?مذہب کے خواہش مند افراد کے بیان پر عمل کیا جائے گا۔
معاہدے میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اگر ایسا کوئی بھی مسئلہ سامنے آتا ہے۔ تو اس پر بیٹھ کرمشاورت سے مسئلہ حل کیا جائے گا۔پریس ریلیز کے مطابق علما نے واضح کیا کہ وہ کسی کو بھی زبردستی مسلمان بنانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی اس مقصد کے لیے کسی کو اغوا کیا جاتا ہے۔ ایسے من گھڑت الزامات سے اْن کا اور ملک کا تاثر خراب کیا جاتا ہے۔علما اور ہندو کونسل نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ حکومت کی جانب سے اس متعلق اگر کوئی ایسا قانون لایا جاتا ہے جو اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت سے تیار ہوا ہو اسے بھی قبول کیا جائے گا۔وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے اس مفاہمت کو مثبت سمت میں ایک قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے مذہب کی تبدیلی سے پہلے ہندو کونسل کو آگاہ کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ وہ تبدیلی مذہب کے خلاف نہیں ہیں۔ مگر اس بارے میں دنیا بھر میں رائج طریق کار پر عمل درآمد ضروری ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے وفاقی سطح پر قانون سازی کی جا رہی ہے۔ڈاکٹر رمیش کے مطابق جبری تبدیلی مذہب ان کی کمیونٹی کا ایک دیرینہ مسئلہ تھا جو مشترکہ کاوشوں سے اب حل ہوتا نظر آرہا ہے۔معاہدے میں شریک جامعہ بنوریہ کے مولانا نعمان نعیم کا کہنا تھا کہ جبری تبدیلی مذہب کے الزامات سے چھٹکارے کے لیے یہ تسلیم کیا ہے کہ اگر کوئی لڑکا، لڑکی یا خاندان اسلام قبول کر رہے ہیں۔ تو اس سے پہلے ان پر کسی قسم کی زور زبردستی نہ ہونے کی تصدیق ضروری ہے۔ اور اگر وہ دل سے اسلام قبول کرتے ہیں تو ہندو کونسل یا کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کسی کو دباؤ کے ذریعے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جارہا ہو تو پھر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا کہ ہندو مْکھی انہیں اپنے پاس ہی رکھ لے۔انہوں نے بتایا کہ یہ تمام معاملات باہمی افہام و تفہیم سے طے ہوئے ہیں۔ دین اسلام میں زبردستی کی کوئی گنجائش نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے سے قبل بھی کوئی مسلمان ہونے کے لیے ان کے ادارے سے رجوع کرتا ہے تو اس سے قبل اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے سے قبل اس کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں۔ اور اس مقصد کے لیے دائرہ اسلام میں داخل کرنے سے قبل فارم میں ایسے بیسیوں سوالات کے جواب تحریری طور پر بھی لیے جاتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے یہاں بھی اسی طرح کا معاہدہ عمل میں آئے۔تاکہ مسئلہ کا صحیح حل نکالنے کی صورت مین ہم آگے بڑھ سکیں۔لیکن یہاں حل نکالنے کے ایسے طرقے اپنائے جاتے ہیں جن سے خواہ مخواہ ایک طبقہ کے خلاف شکوک و شبہات پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔یوں بھی صرف شادی کے لے مذہب تبدیل کرنا اصلا مذہب کا تبدیل ہونا نہیں ہے ایسی شادیاں قانونا اور شرعا درست نہیں ہوتیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here