لکھنؤ: عالمی شہرت یافتہ ادیب و دانشور شمس الرحمٰن فاروقی کے سانحہ ارتحال سے اردو دنیا ابھی ابھر نہیں پائی تھی کہ پر فیسر ظفر احمد صدیقی کی خبر انتقال نے اردو دنیا کو مزید سوگوار کر دیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ فاروقی صاحب کے بعد ظفر احمد صدیقی کا گزر جانا ایسا خلا پیدا کرتا ہے جسے دیکھ کر اندیشہ ہوتا ہے کہ یہ خلا کیونکر پر ہو سکے گا۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے رٹائرمنٹ لیا تھا اور اب یہ امید تھی کہ وہ زیادہ یکسوئی سے کام کر سکیں گے۔ مشرقی ادب پر ان کی جیسی نظر تھی اس کی مثال آسانی سے نہیں مل سکتی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ سے ان کا گہرا تعلق رہا یہاں کے سمینار اور مذاکروں میں وہ پابندی سے شریک ہوئے اور ان کی موجودگی سے جلسے پر علمی رعب کا احساس ہوتا تھا۔ کلاسیکی ادب کے وہ بے مثال استاد تھے۔ پروردگار عالم ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر عطا کرے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سید رضا حیدر نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ظفر صاحب کا ایسے وقت میں گزر جانا جب اردو دنیا علمی شخصیات سے دھیرے دھیرے خالی ہوتی جا رہی ہے ہمارے غم کو دوبالا کر دیتا ہے۔ ظفر احمد صدیقی نہ صرف اردو زبان و ادب کے بڑے عالم تھے بلکہ فارسی و عربی ادب پر ان کو غیر معمولی ملکہ حاصل تھا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے علمی معاملات میں ہم ان کے مشوروں سے مستفید ہوتے تھے۔ حال ہی میں مرزا دبیر سمینار میں وہ شریک ہوئے اور غالب انسٹی ٹیوٹ گولڈن جبلی تقریبات کے موقعے پر اس ادارے نے نظم طباطبائی پر ان کا تصنیف کردہ مونوگراف بھی شائع کیا۔ غالب نامہ کے پچھلے شمارے میں ہماری فرمائش پر انھوں نے اپنا تحقیقی مقالہ ‘غالب اور معارضہ کلکتہ’ ارسال کیاتھا۔ کیا خبر تھی کہ یہ ان کا آخری مقالہ ہوگا۔ میں اپنی اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام اراکین کی جانب سے ان کے پسماندگان کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور بارگاہ رب العزت میں دعا گو ہوں کہ پروردگار انھیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ دکھ کی اس گھڑی میں انسٹی ٹیوٹ ان کی پسماندگان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔
اردو کے نامور استاد و محقق پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے انتقال پر غالب انسٹی ٹیوٹ کا اظہار تعزیت
Also read