ملک میں’لوجہاد‘کے مسئلہ کاآغاز کیسے ہوا؟

0
168

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


مولاناعبد اللطیف
پچھلے دس برسوں سے آج تک جب بھی کوئی غیر مسلم (خاص طور پر ہندو) لڑکی ایک مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے تو کچھ تنظیموں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ شادی ایک منصوبے کے تحت کی گئی ہے اور یہ تنظیمیں اس طرح کی شادی کو ’لو جہاد‘ کا نام دیتی ہیں۔اس حوالے سے رواں برس ستمبر میں ہندوستان میں ہندوتوا آئیڈیالوجی کی سرکردہ تنظیم راشریہ سویم سیوک کے ہندی ترجمان رسالے ’پانچ جنیہ‘ نے ایک کور اسٹوری شائع کی تھی جس کا عنوان تھا ’’پیار کا اسلامی قتل۔‘‘اس اسٹوری میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مسلمان لڑکے ایک سازش کے تحت اپنا نام بدل کر ہندو لڑکیوں سے محبت کرتے ہیں، پھر لڑکی کا مذہب تبدیل کر کے شادی کرتے ہیں اور آگے چل کر وہ کسی اور لڑکی کو اپنا شکار بناتے ہیں اور پہلی کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے اسے قتل کر دیتے ہیں۔
تاہم ماہرین ایسے تمام الزامات اور دعوؤں کوبے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب باتیں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں ہے۔اگر ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنا کر شادی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور یہ قانون اس سے نمٹنے کیلئے بنایا جا رہا ہے تو ملک کی مختلف ریاستوں میں پہلے سے ہی جبراً تبدیلی مذہب کے خلاف قانون موجود ہے۔ حکومت کو اس کا استعمال کرنا چاہیے۔یاد رہے کہ ملک کی آٹھ ریاستوں میں جبراً تبدیلی مذہب کے خلاف قانون موجود ہے ۔
2009 میں’’لو جہاد‘‘ کے متعلق سب سے پہلے کیرالہ میں ’’ہندوجاگرتی‘ ‘نامی ایک ویب سائٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ کیرالہ میں مسلم یوتھ فورم نام کی تنظیم نے ’’لو جہاد‘ ‘کا ایک پوسٹر لگوایا ہے، جس میں مبینہ طور پر ہندو لڑکیوں کو’ ’پیار و محبت کے جال میں پھنسا کر‘‘ ان کامذہب تبدیل کرانے اور پھر ان سے شادی کر لینے کی بات کی گئی ہے۔اسی کے بعد ہندوتوا تنظیموں کی جانب سے اس طرح کے دعوے ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کیے جانے لگے۔ تاہم کیرالہ پولیس کی تفتیش میں’لو جہاد‘ کے الزام کو جھوٹا پایا گیا۔اس کے علاوہ دوسال تک چلنے والی تفتیش کے بعد کیرالہ ہائی کورٹ نے جانچ کو بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارے سماج میں بین المذہبی شادی ایک معمولی بات ہے اور اس میں کوئی جرم نہیں ہے۔‘
حالیہ دنوں ’’لوجہاد‘‘ پر سیاست کچھ زیادہ تیز ہوگئی ہے ۔ یوپی حکومت نے اس سے متعلق قانون کی تشکیل کی اوراس کا نفاذ بھی کردیا یہ عمل سبھی کیلئے حیرت انگیز تھا ۔مرکزی اورریاستی حکومت کے پاس رام مندر کے تصفیہ کے بعد اب کوئی مدعہ عوام کو سمجھانے کیلئے بچانہیں تھا ۔ سی-اے-اے اوراین-آر-سی جیسے مسائل کوکووڈ19کے سبب فوری طور پر اٹھایانہیں جاسکتاتھا۔بہار اوربنگال کے انتخابات کے مدنظر اب مرکز اورریاست کو ایک نئے مدعہ کی ضرورت تھی ۔ کشمیر سے متعلق دفعہ 370کی منسوخی کے مثبت نتائج بھی عوام کے سامنے نہیں آسکے ہیں۔چنانچہ ’لو جہاد‘ سے متعلق قانون کی تشکیل کرکے فوری طور پر اسے نافذ بھی کردیاگیا۔عدالت میںاس نوعیت کے چندمقدمات بھی اخباروں کی سرخریاں بنی ہوئی ہیں۔
’’ لوجہاد‘‘ لفظ کا استعمال اب ہمارے لیے فیشن بن چکاہے ۔کچھ خصوصی تنظیم ’لو جہاد‘لفظ کی موجد ہیں اورقابل غور بات یہ ہے کہ وہ تنظیمیں جہادکے معنی بھی نہیں سمجھتیں ۔جہاد جیسے عظیم لفظ کی بے حرمتی کی گئی ہے۔اگرانسان کسی دوسرے انسان پر ظلم کررہاہے یااسے جان سے مارنے کی کوشش کررہاہے تواس انسان کا تعلق کسی بھی ذات ،مذہب ،فرقہ یاجماعت سے ہواس کوبچاناجہاد ہے ۔اگرہم کوئی ایسا کام کررہے ہیں جس سے معاشرے کو فائدہ پہنچ رہاہے تو وہ بھی جہاد کی تاریخ میں آتاہے ۔غیرمسلم ’لوجہاد‘کامطلب یہ سمجھتے ہیں کہ کسی مسلمان لڑکے نے کسی ہندو لڑکی سے بہلاپھسلاکر یا دھوکہ دے کر اس کی مرضی کے خلاف شادی کرلی ہے۔اگرایساہوتاہے تو اسے جہاد ہرگز نہیں کہاجاسکتاکیوں کہ جہاد کا مقصدکسی کو دھوکہ دینانہیں ہوتا ہے۔ایسے تمام مسلمان ہیں جنہوںنے ہندو لڑکیوں سے شادی کی ہے اوروہ ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزاررہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر مسلمان اس بات کو بالکل پسند نہیں کرتے کہ ان کا لڑکا یا لڑکی کسی غیرمسلم سے شادی کرے۔اسی طرح ہندواکثریت بھی اس بات کے خلاف ہوتے ہیں کہ ان کالڑکا یا لڑکی کسی غیرہندو سے شادی کرے ۔جو شادیاں اس طرح کی ہوتی ہیں وہ عام طور پر آپس کی رضامندی سے ہوتی ہیں۔اگرشادی زبردستی مذہب تبدیل کراکے ہورہی ہے اوراس میں لڑکی کی رضامندی شامل نہیں ہے تواس مسئلے سے نمٹنے کیلئے پہلے سے قانون موجودہے۔’لو جہاد‘سے متعلق قانون کی کیا ضرورت ہے؟بس ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اِس قانون کا مقصد ہندواورمسلمانوں کے بیچ منافرت پیدا کرکے سیاسی فائدہ اٹھانا ہے ۔آخراس حقیقت کو ہندوستان کے بھولے عوام کب سمجھیں گے؟
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ رواں سال کے آغاز میں خود نریندر مودی حکومت پارلیمان میں کہہ چکی ہے کہ موجودہ قوانین کے مطابق ’ ’لو جہاد‘‘جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اس وقت کسی مرکزی تفتیشی ایجنسی کے پاس ایسا کوئی معاملہ ہے۔این -سی استھاناکے مطابق اس سے قبل 2018 میں کیرالہ کے ہی ایک معاملے میں نیشنل تحقیق ایجنسی (این- آئی- اے) نے ہندوتواوادی تنظیموں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ الزام لگایا تھا کہ ہادیہ( پہلا نام اکھلا اشوکن) برین واشنگ اورسائیکولوجیکل اغواکاری کی وجہ سے ہندو سے مسلمان ہو گئی تھیں۔ ایجنسی نے یہ الزام لڑکی کے والد کی ایما پر لگایا تھا جسے ہادیہ نے مسترد کر دیا تھا۔ مارچ 2018 میں اس معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے اور دعوے کو خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عقیدہ اور یقین کے مسئلے آئین کے ذریعے فراہم آزادی کی بنیاد میں ہیں اور سرکار یا سماج کا پدری نظام اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔
آج ملک کی صورت حال یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کو پوری طرح بد نام کر کے ان کی زندگیوں کو جہنم بنایاجارہا ہے۔کہیں انھیں دہشت گردی کے الزام میں پھنسایا جارہا ہے تو کہیں انھیں دیگر ملک دشمن کارروائیوں کا مر تکب بتا یاجارہا ہے، تو کہیں انھیں ملک کے لیے’سب سے بڑاخطرہ‘بتایا جارہا ہے۔ حالانکہ خداشاہد ہے۔ ان بے چارو ں کے ہاتھ سے ایک چڑیا بھی نہ مری ہوگی مگر تفتیشی ایجنسیاں انھیں بم دھماکوں کا مجرم بنا کر جیلوں میں بھر دیتی ہیں۔ان کی نہ سنوائی ہوتی ہے اورنہ فریادرسی۔ایک عرصے بعد جب ان پر سے دھماکوں کے الزامات ہٹتے ہیں اور ان کی بے گناہی ثابت ہوتی ہے اس وقت حالانکہ انھیں باعزت بری کر دیا جاتا ہے ،جیسے مولانا انظر شاہ کشمیری جو کافی دن جیل میں رہے اس کے باوجود ان کے مقدمے کو کورٹ نے سرے سے خارج کر دیا اور وہ کافی دن کے بعدجیل سے باعزت بری ہوئے۔
اور اب …!اب تودوسرا ہی پر و پیگنڈ ہ کیا جارہا ہے۔ہندوستانی اقوام میں آپسی میل ملاپ میں دراڑ ڈالی جارہی ہے۔’لوجہاد ‘کی ہوا کھڑا کر کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بین المذاہب رواداری و محبتوں میں نفرت،دشمنی ،بے اعتباری،فراڈ ،دھوکے بازی اور غلط فہمیوں کے بیج بوئے جارہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں اتر پردیش کے ضلع شاہجہانپور میں ایک 27 سالہ نوجوان، اس کے والدین، تین بھائی بہنوں اور تین دیگر افراد کے خلاف انسداد غیرقانونی تبدیلی مذہب قانون کی دفعہ 3/5 کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ خبر رساں ایجنسی آئی -اے- این- ایس کے مطابق صوبہ میں نیا قانون نافذ ہونے کے بعد سے اب تک ایسے دس معاملے درج کیے جاچکے ہیں۔ نوجوان کے خلاف عصمت دری اور استحصال کا بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
رابطہ نمبر:7355097779

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here