9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
عشرت کلیم تیمی
قریب آٹھ دہائیوں سے فلسطینی اپنی زمین ،اپنی خودمختاری اور اپنے وجود کے ساتھ ساتھ قبلہ اول کے تقدس کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ،اب تک وسائل اور بنیادی ضروریات کے فقدان کے باوجود یہ فلسطینی اس لئے اسرائیلی توپ وٹینک کے سامنے نہتے ڈٹ جاتے تھے کیوں کہ ان کو مسلم ممالک کا جذباتی تعاون مل رہا تھا ،غزہ پٹی کی سرزمین معصوم فلسطینیوں نے اپنے خون سے سیراب کردیا لیکن صیہونی طاقتوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے،آٹھ دہائیوں سے یہ فلسطینی دھماکوں اور لاشوں کے بیچ اپنی زندگی گزارتے آرہے ہیں ،امن ان کے حصے میں کبھی آیا ہی نہیں ۔موسم بہار کبھی دیکھا ہی نہیں ،خوشی اور جشن کا موقع نصیب ہی نہیں ہوا چونکہ سوال تھا اپنے وجود،اپنی خودمختاری اور قبلہ اول کی تقدس کا ،معمولی آبادی پر مشتمل فلسطینیوں کوا پنے دشمن اسرائیل کے سامنے جس انداز میں ڈٹ کرسامنا کرنے کی ضرورت تھی اس سے کہیں زیادہ زبردست انداز میں اسرائیل کا مقابلہ کیااور اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عرب ممالک نے اس لڑائی میں فلسطینیوں کی مدد کی،ان کی آزاد اور خود مختاری ریاست کے خواب کوتعبیر کرنے کیلئے اسرائیل سے جنگ مول لی ،سن ۲۰۰۶ میں لبنان اور اسرائیل کی جنگ اس کے ثبوت کیلئے کافی ہے ،بقیہ عرب ممالک چاہے وہ عرب امارات ہو یا سعودی عربیہ ،مصر ہو یا بحرین،سوڈان ہو یا ترکی اور ایران ان تمام مسلم ممالک نے فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا ہر موڑ پر دعویٰ کیا اور قریب ۶۰ سے ۷۰ سالوں تک عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بائیکاٹ اور دوریوں کا جو سب سے بڑا سبب تھا وہ صرف اور صرف مسئلہ فلسطین تھا ،تمام مسلم ممالک اور کچھ یوروپین ممالک بھی اس بات کے قائل تھے کہ فلسطین ایک آزاد ریاست کا حقدار ہے اورمسلم ممالک کے مابین ایک زبانی قرارداد بھی تھا کہ جب تک فلسطینیوں کو ایک آزاد مملکت نہیں مل جاتی تب تک عرب ممالک متحد ہو کر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔لیکن فلسطین کیلئے مسلم ممالک کا یہ عہد چھ سے سات دہائی سے زیادہ نہیں چل سکا اور دھیر دھیرے فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کے ساتھ ایک ایک کرکے ہاتھ ملانا شروع کردیا ۔ گزشتہ دو ماہ کے اندر جو تصویر عرب ممالک اور اسرائیلی تعلقات کے حوالے سے دیکھنے کو ملی وہ یقیناً حیران کن اور فلسطینیوں کے ساتھ ایک بڑی غداری ہے ،متحدہ عرب امارات،بحرین،سوڈان،مراکش یہ وہ مسلم ممالک ہیں جنہوں نے فلسطینیوں کو ابھی ابھی تازہ زخم دیا ہے اور ان کے ساتھ بڑی غداری کی ہے ،بیچ مزدھار میں انہیں لاکر بے سہار کردیا ہے ،سعودی عرب بھی اس قطار میں ہے ،ترکی نے بھی اپنا سفیر روانہ کردیا ہے ، کچھ اور مسلم ممالک ایسے ہیں جو فلسطینیوں کے خون سے سنے ہوئے صیہونی ہاتھ کے ساتھ ہاتھ ملانے کو بے قرار ہیں اور بہت جلد یہ تصویر بھی صاف ہوجائے گی کہ فلسطینیوں کے پیٹھ میں اپنے ہی صف سے خنجر گھونپنے والوں میں کون کون شامل ہے۔متحدہ عرب امارات نے کوورونا وائرس کے دور میں فلسطینیوں کو ایک ماسک نہیں بھیجا لیکن اسرائیل مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ فوراً منسوخ کردیا۔اسرائیل کے ساتھ ویزہ فری معاہدہ کرلیا اوربحرین ،سوڈان ودیگر مسلم ممالک بھی فلسطنیوں کو درکنا کرکے اپنے مفاد کیلئے سودے بازی کیلئے سودے بازی شروع کردی ۔لیکن فلسطینیوں کا یہ پہلے دن سے ہی عہد تھا کہ ہمیں اپنے کاندھے پر اپنا سر رکھ کرچلنا ہے چونکہ دوسرے کے سہارے خودمختاری کی جنگ نہیں لڑی جاتی ،آج بھی فلسطینی اسرائیلی درندوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم ان عرب ممالک کو اپنے جال میں پھنسا کرفلسطینیوں کی زندگی کو مزید اجیرن بنانے کا روڈ میپ تیار کررہا ہے اور اس میں سب سے پہلا نشانہ ہے مشرقی یوروشلم جہاں اسرائیل اپنا دبدبہ قائم کرنا چاہتا ہے۔اسرائلپ نے پہلے ہی اعلان کررکھا ہے کہ وہ مشرقی یروشلم مںن 12 سو سے زیادہ گھر تعمرا کرنے کے اپنے منصوبے پر عمل کرے گا۔ فلسطو کاں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے مستقبل مںک کسی فلسطیرد ریاست کا قاوم ناممکن ہو پائے گا، کوبنکہ وہ بتک الحم اور مشرقی یروشلم مںب تقسم ہو جائے گی ۔اسرائلا کے اعلان کے مطابق، وہ گو ات ہماتاس نامی علاقے مںئ بارہ سو سے زیادہ گھر تعمر کرے گا، جو کہ سن 1967 کی سرحدوں کو عبور کرنے کے مترادف ہے۔اسرائلے کا کہنا ہے کہ یہ یروشلم کا نواحی علاقہ ہے۔ جبکہ فلسطوا، ں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسے علاقے مںہ یہودی آبادکاری ہو گی جس پر اسرائل نے سن 1967 مں قبضہ کای تھا۔اسرائیل کے ٹیبل پر دوسرا ناپاک منصوبہ مقبوضہ فلسطن کی وادی اردن اور مغربی کنارے کے اسرائلک مںر انضمام کا ہے ،عرب ممالک سے رشتے بحال ہونے کے ماحول میں اسرائیل نے فی الحال اس کو ٹھنڈے بستے میں ضرور رکھا ہوا ہے لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے کے حصے کے طور پر مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق مں تاخرف پر راضی ہو ئے ہںم لکنر منصوبہ اب بھی ‘زیر غور’ ہے۔ صیہونی حکومت کا کہنا ہے کہ امریی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ معاہدے مںی مغربی کنارے کے ساتھ الحاق کے منصوبوں کو ‘موخر’ کا تھا لکنم وہ ‘اپنی سرزمنی پر حقوق سے کبھی دستبردار نہںں ہوں گے اور یہ ابھی بھی زیرغور ہے۔چونکہ اسرائیل کو یہ معلوم ہے کہ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تو پھر فلسطوستبں کی آزاد ریاست کے خواب کو ہمشہ کلئے دفن کرنے میں کامیابی مل جائے گی اور صہوںنوحں کا گریٹر اسرائلر کا خواب شرمندہ تعبرھ ہوجائے گا۔جب کہ دنیامانتی ہے کہ اسرائیل کی اس حرکت سے مشرق وسطیٰ کا امن غارت ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشعل بیچلےنےکہہ دیا ہے کہ انضمام کا اسرائیسا منصوبہ نہ صرف اسرائلی اور فلسطنر کے لےل بلکہ پورے علاقے کے لےا تباہ کن ثابت ہو گا اور اس سے دو ملکی حل کے امکانات معدوم ہو جائںا گے۔ان کا ماننا ہے کہ مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں کو اسرائل مںو شامل کرنا ایک انتہائی خطرناک عمل ہو گا۔ اس پر عمل درآمد سے اسرائلم، فلسطنم اور پورے علاقے کا امن خطرے مں پڑ جائے گا۔مشعل نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ انضمام غرط قانونی ہے۔ مقبوضہ فلسطیمغ علاقے کے انضمام کی کوئی بھی کوشش انسانی حقوق کی صورت حال کو مزید خراب کر دے گی۔ ویسے ہی اس علاقے مںح کشدمگی کی وجہ سے گذشتہ دو عشروں مں انسانی حقوق کی خاصی خلاف ورزیاں ہوتی آ رہی ہں۔ اور اب اگر اسرائیل مزید ایسی حرکت کرتا ہے تو پھر خطے کا امن پوری طرح سے غارت ہوجائے گا۔لیکن ان تمام باتوں سے اوپر اٹھ کر اگر دیکھیں تو ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عرب ممالک کا اسرائیل کے ساتھ رشتہ بحال کرنا ،فلسطینیوں کے ساتھ غداری اور دھوکہ نہیں ہے،کیا عرب ممالک فلسطینیوں کے قاتل کا ہاتھ مضبوط کرنے والا کام اب نہیں کررہے ہیں ،اسرائیل بڑی تیزی اور چالاکی کے ساتھ عرب ممالک کے ساتھ ڈیل کررہا ہے ،معاشی مورچے پر اسرائیل اس اندازمیں ڈیل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ آگے چل کر اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملانا ان ممالک کی مجبوری ہوجائے ،لیکن ان ممالک کو شاید ابھی ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ رشتے بحال کرکے اسرائیل کو ہی باندھ دیں گے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے اسرائیل کو مجبور کردیں گے ،یہ ایک ایسا خواب ہے جس کو بے ہوشی کے عالم میں عرب ممالک دیکھ رہے ہیں ،اسرائیل کی شاطرانہ چال کسی سے مخفی نہیں ہے،اسرائیل کیلئے فلسطین نہیں اسرائیل اہم ہے اور اس کیلئے ایک مدت تک عرب ممالک سے لاتعلقی کے باوجود بہت زیادہ نقصان نہیں اٹھانا پڑا تو پھر اب کیا اسرائیل فلسطین کے معاملے پر گھٹنے ٹیک دیگا؟اسرائیل کی ترجیحات میں دنیا کے ساتھ معاشی مقابلہ نہیں بلکہ گریٹر اسرائیل منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے اور اسی کیلئے وہ طرح طرح کے حربے کا استعمال کررہا ہے جس کا شکار اب یہ عرب ممالک ہونے لگے ہیں ۔لیکن سوال توان مسلم ممالک سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر یہی سب کرنا تھا تو اتنے دنوں تک فلسطینیوں کو جھوٹی تسلی کیوں دے رہے تھے؟اگر یہی راستہ اختیار کرنا تھا تو فلسطینیوں کو اسرائیل کے خلاف سپورٹ کیوں کررہے تھے ؟اگر اسی نیتجے پر آنا تھا تو پھر فلسطنیوکں کو آزاد ریاست کا سبز خواب کیوں دکھا رہے تھے اور اتنے دنوں تک رشتے کی معطلی کا صلہ آپ کو کیا ملا؟آپ نے تو رشتے بحال کرلئے ،تجارت ،سرمایہ کاری سب پر ڈیل کرلی ،آپ کو بدلے میں لاکھوں کروڑ کی سرمایہ کاری کا تحفہ تو مل گیا لیکن ان فلسطینیوں کو کیا ملا؟ان کا پہلے دن سے ہی نقصان ہورہا ہے ،ہزاروں کی تعداد میں فلسطنیوتں کی قربانی جن عرب ممالک کے جذباتی تعاون کے بدولت ہوئی تھی ان شہیدوں کو ،ان کے اہل خانہ اور تباہ حال فلسطین کو کیا ملا،،کچھ بھی تو ایسا نہیں ہے جس کو دیکھ کر کہا جاسکے کہ فلسطینیوں نے اس طویل مدت میں کچھ پایا ہو،اب تک فلسطینی تو صرف اپنوں کھوتے آئے ہیں اور جس چیز کیلئے اپنوں کو یہ فلسطینی کھوتے آئے ہیں وہ ایک آزاد ریاست کے قیام کا خواب تھا ،جس کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ان تمام عرب ممالک نے ان فلسطینیوں سے وعدہ کیا تھا لیکن اب عالم یہ ہے کہ اپنوں نے ہی فلسطنیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ اب وہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔وقت اور حالات کے بدلنے کے ساتھ ان مسلم ممالک کے تیور بھی بدلے ،ترجیحات میں بھی تبدیلی آئی اور ملکی مفاد اس انداز میں ہاوی ہوا کہ اپنے ہی بھائی بہن کو بیچ بھنور میں بے یارو مددگار چھوڑ دیےاور یہ بھی نہیں سوچا کہ اب ان کا کیا ہوگا،یہ اور بات ہے کہ چند روایتی جملے تیار کرلئے گئے ہیں جو اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے والا ہر ملک دوہراتا ہے کہ ’’ہم اسرائیل سے تعلقات ضرور بحال کررہے ہیں لیکن فلسطینیوں کے مطالبات کے حوالے سے ہماری جدوجہد جاری رہے گی‘‘،یہ صرف دھوکہ دینے والا جملہ ہے جس کو فلسطینی بہت اچھے سے سمجھ رہے ہیں ۔اب آگے کیا ہوگا اللہ جانے۔۔۔۔۔۔