عورت ابھی زندہ ہے

0
101

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


ہمارے معاشرے میں ایک تنہا عورت کا کردار ہمیشہ مشکوک ہی سمجھا جاتا ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اسے تنہا کرنے والے بھی ہم ہی لوگ ہیں،پھراگر شادی شدہ عورت کسی مرد سے کوئی بات کر لیں تو اس کے دل میں اس خاتون کے لیے خراب خیال پیدا ہو جاتے ہیں۔یہ ہمارے معاشرے کا غلاظتوں بھرا رویہ اور سوچ ہے۔کیا صرف رشتے جسم کے ہوتے ہیں، روح سے محبت نہیں ہو سکتی ہے۔ہو سکتا ہے کہ وہ اس میں اپنے والد بھائی،یا کسی اور رشتے داروں کو تلاش کر رہی ہو، اس نا سمجھ کو تو مردوں کی گندی سونچ کا پتہ ہی نہیں ہوتا ہے،اور ایسے غلیظ مرد کچھ دیر کی ہوس کی تسلی کے لیے، عورتوں کو گناہ کے راستے پر ڈالنے کے لیے طرح طرح کا حربہ استعمال کرتے ہیں،اور باقی کام فلمی نغمے اور رومانٹک واقعات کرتے ہیں، عورت ایک لتا کی طرح ہوتی ہے اسے ایک سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ بھیڑ کی شکل میں چھپے ہوئے بھیڑیے کو نہیں پہچان پاتی، اور اس گناہ کے لیے سارا معاشرہ عورت کو ہی ذمے دار مانتا ہے۔حقیقت میں اسکا ذمیدار مرد ہی پہلے ہوتا ہے۔پھر عورت کے قدم اپنے آپ گناہوں کے دلدل میں ڈوب جاتے ہیں۔
فاتحہ لوگوں کے مرنے پر نہیں بلکہ احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آجاتا ہے مگر احساس مر جائے تومعاشرہ کی روح مر جاتی ہے۔ لگاؤ یا محبت یا تعلق رشتوں کا نہیں احساس کا ہوتا ہے۔اگر احساس نہ ہو تو رشتے مجبوری بن جاتے ہیں۔پھر وہاں سچی محبت اور خلوص کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔صرف جھوٹی محبت، مکاری،دکھاوٹی خیر و عافیت پوچھنا اور ریاکاری ہوتی ہے۔ اگر لڑکی کنواری ہو تو مردوں کو لگتا ہے کہ یہ آسانی سے سب کے لیے دستیاب ہے۔آج ہمارے سماج میں بیٹی کا ماں باپ ہونا ایسا جرم عظیم بن چکا ہے جس کا مداوا نا ممکن ہے۔ان کو معاشرہ احساس کی موت دیتا ہے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 497 اسی بارے میں ہے اور اسے پڑھیں تو ایک حیرت انگیز تصویر ابھرتی ہے۔ ہمارے ملک میں جو قانون نافذ کیا گیا ہے اس میں تو اور گناہ کی دعوت ہے۔نافذ کردہ قانون میں کہا گیا ہے کہ ‘اگر کوئی بھی (شخص) کسی ایسی عورت سے جنسی تعلقات قائم کرتا ہے، جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ وہ کسی اور کی بیوی ہے، یا اس کا یہ خیال ہو کہ وہ کسی اور کی بیوی ہے، اور اس (جنسی) عمل میں اس کے شوہر کی مرضی یا معاونت شامل نہ ہو، اور اگر یہ عمل ریپ کے زمرے میں آتا ہو، تو پھر وہ شخص اڈلٹری (غیر ازدواجی تعلقات) کے جرم کا مرتکب ہے اور اسے یا تو زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید یا جرمانے یا دونوں کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ لیکن بیوی کسی جرم کی مرتکب نہیں ہوگی۔’دو بالغ، بشرطیکہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت ہو، اگر شادی کے بغیر بھی جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو یہ جرم نہیں ہے اور خود سپریم کورٹ ‘لو ان’ ریلیشن شپ یا شادی کے بغیر ساتھ رہنے والے جوڑوں کے قانونی حقوق کو تسلیم کر چکی ہے۔اور اب homosex بھی قانونی شکل میں جائز قرار دیا جا چکا ہے۔
بلجیئم کے شہر برسلز میں کچھ عرصہ پہلے ملبوسات کی ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ یہ ملبوسات کسی ماڈل نے زیب تن نہیں کیے اور نہ ہی ان پر کوئی فیشن لیبل موجود تھا۔ تمام ملبوسات الگ الگ شیشے کے شوکیسوں میں ٹنگے ہوئے تھے۔ کہیں جینز اور شرٹ تھی، کہیں منی اسکرٹ اور بلاوز، کہیں گھٹنوں تک طویل سکرٹ اور مکمل آستینیوں والا بلاوز۔ کہیں لو نیک ملبوس تھے تو کہیں بند گلے والے سویٹر۔ کوئی ٹی شرٹ تھی تو کوئی جیکٹ، کہیں پانچ سالہ بچی کا فراک تھا تو کہیں ادھیڑ عمر عورتوں کا مکمل سوٹ، اور تو اور عبایا اور گاون بھی نمائش میں موجود تھے۔ ان طرح طرح کے ملبوسات میں کوئی قدر مشترک نہیں تھی ماسوائے اس کے کہ ان میں سے ہر لباس اس کے مالک نے اس دن پہنا ہوا تھا جب اس کا ریپ ہوا تھا۔ ہر لباس کے ساتھ ریپ کا شکار ہوئے مظلوم کا ایک ذاتی نوٹ موجود تھا۔
ایک بچی کے لباس کے ساتھ منسلک نوٹ پر لکھا تھا ’’میں کچھ سمجھ ہی نہیں پائی۔ میں تو بس بھائی کے کمرے سے نکل کر ٹی وی والے کمرے میں جانا چاہتی تھی تاکہ کارٹون دیکھ سکوں‘‘
ایک ٹی شرٹ کے ساتھ یہ نوٹ لگا تھا ’’یہ روز کا معمول تھا۔ میںا سکول سے لوٹتی تو میرا سوتیلا باپ گھر میں زیادتی کے لیے میرا منتظر ہوتا۔ ماں شام کو لوٹتی تو قیامت گزر چکی ہوتی‘‘
ایک پولیس یونیفارم کے برابر لکھا تھا ’’میری پولیس یونیفارم اور ہولسٹر میں موجود ریوالور بھی مجھے بچا نہیں پایا‘‘
نمایش کے ایک منتظم نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’جب آپ ریپ کا شکار ہوئی ایک عورت سے یہ پوچھتے ہیں کہ اس وقت آپ نے کیا پہنا ہوا تھا تو آپ گویا اس مظلوم کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ آپ ذمہ داری کا بار اس کے سر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں وہ مظلوم بھی ہے اور مجرم بھی۔ یہ کیسا ظلم ہے‘‘
عورت اگرچہ جسمانی اعتبار سے مردوں سے کمزور ہے ،لیکن یہ صنف نازک ذہنی اعتبار سے مردوں سے بہت زیادہ مضبوط ہے،ڈاکٹر ریحان غنی صاحب اس طرح سے اس بات کو واضح کرتے ہیں۔ ابرا ہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ محترمہ کو ریگستان میں تنہا چھوڑا تو وہ مقدس خاتون صرف اللہ کے نام کے سہارے وہاں تن تنہا رہ کر صبر و استقلال کی وہ نشانی پیش کی ،جس کی مثال ملنی ممکن نہیں ،(اللہ تعالیٰ کو انکی یہ ادا اس قدر پسند آئی کے رکن حج میں شامل کرکے حیات جاوداں عنایت کی) نبی پاک ﷺپہلی وحی کے نزول کے (بعد انسانی کمزوری کے مطابق جب پریشان ہوئے ) تو اماںخدیجہ الکبریٰ ؓ نے آپ ﷺ کو بہترین اور شاندار الفاظ میںبہت پیارسے تسلی دی،اس سے آپ ﷺ کواطمینان اورتسکین حاصل ہوئی۔صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ کی دل جوئی کے لئے جب صحابہ اکرام رضی اللہ کی مقدس جماعت جذباتی ہو گئی تو اماںام سلمہؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مسلمان کبھی آپ ﷺ کی حکم عدولی نہیں کریں گے ہاں وہ اپنے دین و ایمان اور آپ ﷺ کے رسالت کے اعتبار سے بہت پر جوش ہیں ، آپ ﷺ حلق کیجیے اور جانور ذبح کیجیے سارے آپ کے ساتھ ہیں ، اور اس سے آقا ﷺ کے چہرے انور ﷺ پر سکون و اطمینان کی لالی نمودار ہوئی، آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا ۔صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے آپ ﷺ کی اتباع کی۔

 

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here