[email protected]
9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند رجه بالا ای میل اور واٹس ایپ ن مبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں ۔
ڈاکٹر عقیل خان
انگلینڈ میں ناویل (Novel) کرونا وائرس کی نیء قسم کے وجود میں آنے کے بعد دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جیسے ہی اس کی اطلاع برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے دی نتیجتاً کیء ممالک نے انگلینڈ سے آنے اور وںاں جانے والی پرواز یں عارضی طور پر معطل کر دی ہیں۔ کرونا وائرس کی یہ نیء قسم جو وی یو آیء – 202012/01 یا B.1.1.7کے نام سے جانا جارہا ہے ۔اسمیں 23 تبدیلیاں پایء گیء ہیں۔ جسمیں اسکے اسپایک پروٹین کی تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔ اور یہ 70 گنا زیادہ بیماری پھیلانے کی قوت رکھتا ہے۔ لیکن ایک اہم بات اسکے تعلق سے یہ ہیکہ اسکی ہلاکت خیزی ناویل کرونا وائرس سے زیادہ نہیں ہےء جس سے وہ 23 تبدیلیوں کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ وایرس کی اس نیء قسم کے پیدا ہونے کے بارےمیں انگلینڈ کی تنظیم “کوویڈ 19 جینومکس یو کے (COG- UK) کونسورٹییم” نے حکومت برطانیہ کو مطلع کیا۔ اس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے حکومت برطانیہ نے تقریباً تمام احتیاطی اقدامات لےء ہیں۔ جسمیں لاک ڈاؤن بھی شامل ہےء۔
چونکہ کرونا وائرس کی یہ نیء قسم 70 گنا زیادہ متعدی ہےء اس وجہ سے وہ بیماری تیزی سے پھیلا سکتا ہے۔ سپتمبر 2020 میں اسکی شناخت برطانیہ میں کیگیء تھی ۔یہ اتنی تیزی سے پھیلا کہ تین مہینے بعد دسمبر میں کل کرونا وائرس کے کیسوں میں سے 60 فیصد کیس کرونا وایرس کی نیء قسم کی وجہ سے تھے۔ اسکی شناخت جنوبی افریقہ’ اٹلی’ ڈنمارک’ نیدرلینڈ اور آسٹریلیا میں بھی کی گئی ہےء۔ ساینسدانوں کے مطابق وایرس میں تبدیلیاں ہونا فطری امر ہے اور ان تبدیلیوں سے وہ اپنا بچاؤ کرتا ہےء۔ اس بات کا ذکر یہاں مناسب ہوگا کہ بھارت نے حالانکہ کرونا وائرس کی نیء قسم سے بچاؤ کے طور پر انگلینڈ سے آنے اور وںاں جانے والی پرواز یں 23 دسمبر 2020 سے 31دسمبر 2020 تک معطل کر دی ہیں لیکن اس سے پہلے آنے والے 21 لوگ کرونا وائرس سے متاثر شدہ پاےء گےء ہیں۔ حکومت حفاظتی اقدامات کررہیء ہےء اور یقیناً یہ بات بھی معلوم کرنے کی کوشش ہوگی کہ اس میں سے کتنے کرونا وائرس کی نیء قسم سے انفیکٹ ہوئے ہیں۔کوویڈ 19 سے نپٹنے کے لیے تیار شدہ ویکسین کیا کرونا وائرس کی نیء قسم کے لئے موثر ثابت ہونگے ؟ کوویڈ 19 سے نپٹنے کے لیے ویکسین کی عالمی دوڑ میں تین کمپنیوں کے مندرجہ ذیل ویکسین سب سے آگے ہیں۔
* امریکہ کی فایزر کمپنی کا بی این ٹی 162b2 نامی ویکسین
* امریکہ کی موڈرنا کمپنی کا میسینجر آر این اے 1273 نامی ویکسین
اور* انگلینڈ کی ایسٹرا زینیکا کمپنی کا اے زیڈ ڈی 1222 نامی ویکسین۔
امریکہ اور برطانیہ نے اپنے شہریوں کو فایزر کمپنی کا ویکسین دینا بھی شروع کر دیا ہے۔
مندرجہ بالا ویکسینز میں وایرس کا ایساجینیاتی مادہ ہوتا ہے جو انسانی خلیوں میں وایرس کا اسپایک پروٹین بناتا ہے۔یہ وایرس پروٹین انسان کے مدافعتی نظام کو متحرک کرتا ہے۔ ویکسین کا ہدف ناول کرونا وائرس کا اسپایک پروٹین ہےء۔ جسکے معنی یہ ہے کہ ویکسین دینے کے بعد مدافعتی نظام جو اینٹی باڈیز بناتا ہے وہ اسپایک پروٹین سے چپک کر ناول کرونا وائرس کو برباد کر دیتی ہیں یا کرونا وائرس کو انسانی خلیوں کے ساتھ چپکنے اور انکے اندر داخل ہوکر انھیں برباد کر نے سے روک دیتی ہیں۔ یہ ویکسین سایٹوٹاکسک ٹی سیلز کو متحرک کردیتے ہیں جو کرونا وائرس سے متاثر شدہ انسانی خلیوں کو مار دیتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ جب کرونا وائرس کے اسپایک پروٹین میں تبدیلی ہونے کی وجہ سے جو کرونا وائرس کی نیء قسم بنی ہےء کیا مندرجہ بالا ویکسین اس نیء قسم کے خلاف کام کر پاینگے ‘ انھیں برباد کرپاینگے اور انسانوں کو کوویڈ 19 بیماری سے محفوظ رکھ پاینگے؟ اس سلسلے میں محقیقین کی رائے ہے کہ کرونا وائرس کے اسپایک پروٹین میں تبدیلی کی وجہ سے ویکسین کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ اس لےء کہ وایرس کے اسپایک پروٹین کے مختلیف حصوں کو دھیان میں رکھ کر ویکسین میں اس کا جینیاتی مادہ رکھا گیا ہے جو انسانی خلیوں کے ذریعےپروٹین کے مختلیف حصے بناتا ہے۔ جو بعد میں مدافعتی نظام کو متحرک کر کے وایرس کو برباد کر تے ہیں۔ یقیناً ویکسین کی کارکردگی برقرار رہنے کی خبر ہمارے اطمینان کا باعث ہے۔ ساینسدانوں کا یہ بھی خیال ھیکہ ویکسین سے بڑے پیمانے پر جب انسان محفوظ ہو جاینگے تو انسانی مدافعتی نظام سے بچنے کےلئے کروونا وایرس میں بھی تبدیلیاں آسکتی ہیں جو پر یشانی کا باعث ہو سکتی ہیں!!!
پروفیسر و ہیڈ (ریٹائرڈ) پوسٹ گریجویٹ ٹیچنگ ڈیپارٹمنٹ آف بایو کیمسٹری آر ٹی ایم ناگپور یونیورسٹی ناگپور ‘ مہاراشٹر
M : 9890352898