9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
سلیم رضا
ہجر کے زہر کا ہوتا ہے اثر شام کے بعد
دل میں اٹھ جاتا ہے اک درد سر شام کے بعد
تیری یادوں سے مہک اٹھے مری بزمِ خیال
روشنی کرتے ہیں اشکوں کے گہر شام کے بعد
ڈھونڈنے روز نکل پڑتا ہے تاروں کا ہجوم
جانے سورج چلا جاتا ہے کدھر شام کے بعد
خیر مقدم مرا کرتی ہے اداسی گھر کی
لوٹ کے آتا ہوں جس وقت میں گھر شام کے بعد
دھوپ تنہائی کی جھلساتی ہے دن بھر ان کو
درد کرتے ہیں بیاں مجھ سے شجر شام کے بعد
شاہراہوں پہ عجب خوف ہے سناٹا ہے
کیسے کر پاؤ گے آغازِ سفر شام کے بعد
چڑھتے سورج کی پرستش تو سبھی کرتے ہیں
بھول جاتے ہیں اسے لوگ مگر شام کے بعد
دن رہے رختِ سفر باندھ کے رکھ لیجے سلؔیم
کیا کروگے نہ ملا موقع اگر شام کے بعد