9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
فساد فی الارض 11؎
آیت اللہ سید حمید الحسن
لاتفسدوا فی الارض۔ زمین پر فساد مت کرو۔ یہ بات ہر مذہب والے سے اس کے منتخب رہنمائوں نے کہی۔ انسان کی تاریخ اسی نصیحت اسی ہدایت سے بھری پڑی ہے۔ قرآن کریم نے ہم کو کہاں کہاں اور کس کس انداز میں آواز دی ابتدا میں اسے سمجھ لیں کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ قرآن کریم کا انسان اور ہے اور ہماری اس سرزمین پر رہنے والا انسان کچھ اور ہے۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ توریت والا انسان انجیل والے سے اور زبور والا انسان کسی اور مذہبی کتاب سے وابستہ انسان سے الگ ہے؟ قرآن نے جب اسے انسان کہا تو عربی زبان میں اسے انسان پکار لینے سے وہ منش نہیں رہا اور ہیومن بینگ کہہ دینے سے وہ کوئی سپر انسان نہیں بن گیا۔ اسی لئے قرآن کریم نے ان تمام مذہبی کتابوں کی تصدیق کردی جو پہلے آتی رہیں اس نے کہیں ان کا نام لکھا تو کہیں بس صحیفہ کہہ کر ہمیں سمجھایا۔ تم کوئی بھی مذہبی کتاب مانو مگر اسے مت بھلا دینا کہ رہوگے تم ہر جگہ انسان۔ اور اسے ایک مثال سے سمجھو تو سمجھنا بہت آسان ہوجائے گا۔
تم اپنے درمیان اپنے اپنے مذہب کے چند بڑوں کو ایک جگہ جمع کرلو بس ایک ایک پانچ یا دس بھی نہیں یہ ایک ملا ّ، یہ ایک پریسٹ (فادر) یہ ایک ربی (یہودی) اور یہ ایک سوامی، یہ ایک گرو، اب اگر پہچاننا چاہو کہ یہ سب ایک جیسے انسان ہیں یا الگ الگ؟ تو سب کو ایک جگہ جمع کرکے کہو۔ آیئے ذرا اپنے شہر کے (زو) عجائب گھر تک چلیں۔ ان سب کے ساتھ اس کٹھرے تک آئو جس میں شیر (لائن) اندر ہو۔ اور اب ان سب سے گذارش کرو آپ حضرات اس کٹھرے میں اندر چلے جائیں۔ پھر دیکھئے وہ مذہب کے اعتبار سے ان سے ملے گا یا سب کو ایک ہی طرح سے خوش آمدید کہے گا۔ یہ اس کا سب سے ایک ہی طرح ملنے کا انداز بتا دے گا کہ وہ ان سب کو سمجھتا ہے۔ ان سب کو جانتا ہے اور ان سب کو ایک ہی طرح کا انسان مانتا ہے۔ افسوس جانور ہم انسان کو انسان مانتے ہیں مگر ہم انسان اپنے جیسے دوسرے کو انسان نہیں مانتے۔ وحشی درندے ہم سب کو انسان اور بس انسان سمجھتے ہیں اور ہم ان وحشی جانوروں کو حقیر جانور جانتے ہیں اور اپنے جیسے انسان کو ان سے بھی زیادہ حقیر سمجھتے ہیں۔
ایک پہچان اور اپنالیں۔ کیا ہم نے کسی اپنے جیسے کو دیکھا، سنا کہ انہیں بھوک نہیں لگتی۔ انہیں نیند نہیں آتی اس لئے کہ وہ فلاں مذہب کے ہیں؟ انسان ہیں تو بھوک لگے گی، نیند آئے گی، انسان نہیں ہیں، فرشتے ہیں، ملک ہیں۔ تو بات کچھ اور ہوجائے گی۔ اپنی زندگی میں بے شمار مذہبی بزرگ ہیں ملتے رہے۔ فادر، پریسٹ، سنت، سادھو، گرو، مگر کوئی کبھی ہمیں ایسا نہیں ملا جس نے ہم کو دیکھا۔ یہ ہندو، مسلمان، یہ سکھ اور وہ نفرت سے ہم سے دور بٹ جائے۔ یا ہم کو دور ہٹ جانے کو کہے۔ بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ جب ہم میں سے کچھ یہ نہیں سمجھنا چاہتے کہ وہ خود کیا ہیں؟ کسی کی ماں آسمان سے اترکر ایک بچے کو جنم دے کر اس کو اس کی غذا دے کر اسے زمین پر چھوڑکر آسمانوں میں واپس نہیں چلی گئی۔ ہاں یہ فرق ملے گا۔ ایک کی ماں جنگل میں رہتی ہے ایک کی ماں عالیشان محل خوبصورت عمارت میں رہتی ہے۔ مگر دونوں کے بچے جب اس دنیا میں پہلی بار آئے تو ایک جیسے تھے۔ دونوں جگہ دونوں کو بھوک لگی۔ دونوں جگہ دونوں روئے دونوں جگہ دونوں کو ان کی مائوں نے ایک طرح محبت دی۔ جنگل کی جنگلی ماں بھی بس ایک ماں تھی اور عالیشان عمارت میں رہنے والی ماں بھی بس ماں تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی جنگلی ماں کا بیٹا بڑا ہوکر بڑا انسان بن جائے اور مہذب سوسائٹی کی ماں کا بیٹا بڑا ہوکر وحشی خونخوار انسان کہلائے اور ہم سب جب یہ سب پڑھیں سنیں تو اتنا کہہ کر خاموش ہوجائیں گے۔ اپنی اپنی قسمت۔ بس اتنا ہی لمحہ بہت کافی ہے ہمیں اپنے کو سمجھ لینے کے لئے اور دوسروں کو سمجھانے کیلئے۔ ایک وقت ہر انسان کے لئے ایسا ضرور آتا ہے جب وہ کسی غیبی طاقت کے سامنے سر جھکاکر اپنے لئے کہتا ہے۔ میری قسمت۔ ہماری تقدیر۔
ہم اپنے سلسلہ مضامین کی اس قسط 101 ایک سو ایک میں پھر اسی بات کو لکھیں کہ ’’زمین پر فساد نہ کرو‘‘ قرآن کریم نے جب اسے عربی زبان میں کہا تو خطاب دنیا کا ہر انسان ہے یا بس وہ جو عرب یا عربی زبان والا ہو جو قرآن کو مانتا ہو۔ تو پھر کوئی ہمیں بتائے کہ عہدنامہ مقدس، یہ توریت، یہ انجیل، یہ اوستھا، یہ رامائن، یہ گیتا۔ یہ گرو گرنتھ میں اسی انسان کو کیا کہا گیا؟ تو ان میں ہر جگہ کا انسان ایک ہے یا ہر ایک کا انسان اور کچھ ہے؟
قرآن کریم نے ہم کو ہم انسان کو مختلف انداز میں تقریباً 96 جگہ یاد کیا۔ اس نے اپنی اس عظیم تاریخ ہدایت میں اپنے جتنے سوروں میں ہم کو آواز دی ان میں البقرہ، الانعام، الاعراف، الاسراء، النمل، فصلت، الاحقاق، الذاریات، الرحمان، الجن، النساء، یوسف، ہود، یونس، ابراہیم، الہجر، النمل، الکہف، مریم، الانبیاء، الحج، المومنون، الفرقان، العنکبوت، لقمان، یس، الاحزاب، الزمر، الشوریٰ، الزخرف، النجم، ق، الاحقاف، الحشر، المعارج، القیامۃ، الانسان، (الدہر)، النازعات، عبس، الانشقاق، الانغطار، الطارق، البلد، التین، العلق، الزلزلہ، العادیات، العصر، الفرقان۔ صرف یہ تقریباً 49 سورے وہ کہ جن میں اس نے لفظ انسان کو اپنے مختلف انداز میں یاد کیا ورنہ تو تمام قرآن ہی اسی انسان کے لئے ہے۔ اسی کو اچھا انسان بنانے کے لئے ہے اسے دنیا اور آخرت کی زندگی کے فرق بتانے کے لئے ہے؟ اس نے جب پہلی بار قرآن میں کہا: ’بسم اللہ الرحمان الرحیم‘ تو اس میں لفظ انسان کہیں نہیں ہے مگر جو بھی اپنی انسانی زندگی کو سمجھے گا وہ ضرور جان لے گا کہ یہ بات ہم ہی کو کہنا ہے۔ کوئی درخت درخت بننے سے پہلے جب ایک ننھے سے بیج تک محدود تھا یا جب وہ درخت بننے لگا تو اس کو نہیں کہنا ہے کہ ’شروع کرتا ہوں اس اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے‘ حالانکہ اس کے وجود میں آنے سے اس کی منزل کمال تک اس کا ہر ہر لمحہ ہم انسان کو اپنی کیفیت انسانی سمجھا دینے کے لئے اور کسی عظیم قوت کی طاقت اس کی رحمانیت اور اس کی رحیمیت سمجھا دینے کیلئے بہت کافی ہے بشرطیکہ ہم اس نظر سے دیکھنا چاہیں جو خالق نے ہم کو دی ہے اور ہم اس کو استعمال بھی کریں۔ نظر، نگاہ، دیکھنا، بصارت ہی سے نہیں ہے بصیرت سے بھی ہے۔ پیشانی سے متصل آنکھیں اور ہیں اور دل سے وابستہ نگاہیں اور ہوتی ہیں۔ اور اگر ہم دونوں سے صرف اس ایک درخت کے وجود کو دیکھیں تو ہم خود اپنے وجود کے چاروں طرف جو بھی ہے اسے دیکھ سکیں گے۔
ہمارے سامنے کسی نے زمین کی تہوں کو ہٹایا۔ ایک انگور اس میں ڈال دیا۔ کیا ہم اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ زمین اس انگور کے بیج سے اور وہ انگور کا نرم نازک بیج اس زمین سے کس طرح پیش آرہے ہیں؟ ننھے سے بیج نے زمین کے بھاری ہاتھوں کو تھپکی دی اور کہا ذرا راستہ دیں ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ زمین نے اپنے ذرات سے کہا اِدھر اُدھر ہٹتے جائو کسی اور کا حکم ہے کہ اس ننھے سے بیج کو آگے جانا ہے۔ زمینی ذرات ہٹنے لگے۔ بیج کے سینے سے ایک نرم کونپل نے سر باہر نکالا ادھر ادھر اس نے دیکھا وہ سب کو دیکھا جو ہم بڑے مغرور متکبر انسان نہیں دیکھ سکتے ہم آسمانوں پر کہکشائوں کو، ستاروں کو، چاند کو، سورج کو دیکھ سکتے ہیں لیکن اپنے گھر میں اپنی زمین پر اپنے قدموں کے نیچے نہیں دیکھ سکتے کہ ایک ننھے منے اور اس کی نرم و نازک کونپل کی اس دھرتی، اس زمین، اس مٹی اور اس خاک سے چپکے چپکے کسی ان سنی آواز میں کیا باتیں ہورہی ہیں۔ ہم نہیں سن سکتے۔ ہم نہیں جان سکتے ہم کتنے عالم ہوکر بھی کتنے جاہل ہیں اور کتنے طاقتور ہوکر بھی کتنے کمزور ہیں۔ اسے سمجھنا ہو تو ان دو سے سمجھیں۔ زمین کے طاقتور وزنی، بھاری ہاتھ، بیج کی ہری کونپل کی نرم و نازک کمزور پتی، مگر دونوں میں کب اچھا سمجھوتہ۔ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کہ وہ کونپل دونوں طرف مٹی کو ہٹاتی ہوئی باہر کی دنیا کو دیکھنے اوپر آئی۔ آہستہ آہستہ آگے بڑھتی گئی اندر زمین کو محبت، مروت اس کی اصل، اس کی جڑکے ساتھ ساتھ بنی رہی کہ وہ جتنا چاہے اس زمین میںگہرائیوں میں، دائیں بائیں طرف، اوپر کی طرف اپنی جگہ بناتی رہے ہٹاسکتی ہے۔ وہ کونپل، اوپر کی طرف ایک شاخ بکریلی، شاخ میں شاخیں، ننھی سی کونپل، درخت بنی، آسمان چھوتی شاخیں بنی، پھل، پھول سے لدی شاخوں کی نعمتوں سے مالا مال وہ کونپل اب کونپل نہ رہی اب ایک ننھا سا بیج نہیں رہ گئی لیکن اس نے ہم کو، ہر انسان کو ایک سبق دیا اگر ہم اسے سمجھ لیں اگر ہم اسے سمجھ سکیں اگر ہم اسے یاد رکھ سکیں کہ یہ کونپل اسی وقت تک عظیم الشان درخت بن کر زندہ رہے گی جب تک اس کا رشتہ اپنی جڑ، اپنی اصل سے باقی ہے اور یہ رشتہ اسی وقت تک باقی رہے گا جب تک وہ غیبی طاقت چاہے کہ جس کے حکم پر زمین نے دائیں، بائیں، گہرائیوں میں اوپر کی طرف، حکم خالق پر کسی وجود کو آگے جانے کے مواقع فراہم کئے۔
کیا ہم میں سے کوئی انسان کتنا ہی قوی ہو، کتنا ہی طاقتور ہو اس ننھے منے بیج کو خلق کرسکتا ہے؟ اس کی ہیئت اس کی خاصیت کو بدل سکتا ہے۔ املی کا بیج آم کی گٹھلی نہیں بن سکتا اور سنگترے کی قلم کو سیب کی شاخ نہیں بنایا جاسکتا۔ یوں ہی انسان لاکھ چاہے وہ انسان کو انسان نہ رہنے دے، ایسا نہیں ہوسکتا۔ وقت کے پر قوت ہاتھ انسان کو انسانیت کی بلندی کی طرف لے جاتے ہیں اور جہالت و تعصب کی چار دیواری آہستہ آہستہ ایک دیوار کہنہ بن کر رہ جاتی ہے اور پھر خود ہی منہدم ہوجاتی ہے وقت کی پرشور عبرتناک ہوائیں اس پر زمانے کے خس و خاشاک اس طرح ڈالتے چلے جاتے ہیں کہ پھر کسی کو یہ بھی یاد نہیں رہ جاتا یہاں کوئی انسانی پیکر میں غیرانسانی وجود رہتا تھا۔
اور اس طرح قرآن کریم جو تمام دنیا کے مذہبی انسانوں کی نمائندگی کرنے والے انسان کا وجود پیش کرتا ہے کبھی خود لفظ انسان کے ساتھ اور کبھی پردئہ غیب میں اسے رکھ کر یہ سمجھاتے ہوئے کہ جو کہا جارہا ہے وہ تم ہی سے۔
قرآنی کتاب ہدایت کو بعض لوگ صرف اسلامی، مسلمانوں کی اسلام کی کتاب سمجھتے ہیں لیکن اس کا عربی میں ہونا اور ہے اور اس کا خطاب ہر انسان کے لئے ہونا اور ہے۔
آیئے اسے کچھ اور انداز میں سمجھیں۔
قرآن کی ابتدا بسم اللہ سے۔ یہاں انسان کا لفظ نہیں۔ اس کا پہلا سورئہ الحمد۔ کہیں انسان لفظ نہیں مگر ہر آیت کا خطاب انسان ہی سے۔
دوسرا سورئہ البقرہ شروع اس کی بھی سات آیتیں ختم ہوگئیں۔ الحمد کی سات آیتیں۔ البقرہ کی سات آیتیں اب پہلی بار یہ لفظ انسان ظاہر ہوا۔ ظہور میں آیا تو اس انداز میں ’ومن الناس‘ اور بعض انسان ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور قیامت کے دن (آخرت) پر ایمان لائے ہیں حالانکہ (ایسا نہیں وہ دل سے) ایمان نہیں لائے۔ اور پھر اسی سورہ کی 12 آیتیں ختم ہوگئیں اور جب تیرہویں آیت آئی تو یہاں پھر کہا گیا ’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ (انسان) ایمان لائے تم بھی ایمان لائو تو کہتے ہیں کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جس طرح اور احمق لوگ ایمان لائے آگاہ ہوجائو احمق (تو خود) یہی لوگ ہیں لیکن جانتے نہیں۔‘ (البقرہ۔ 13 )
یہاں قرآن کریم نے لفظ انسان کی اس تقسیم سے ہمیںآگاہ کررہا جو مومن ہے یا مومن نہیں ہے۔ جو احمق ہوکر خود کو عقلمند سمجھتے ہیں اور سامنے والوں کی عقل و فکر کو نہ سمجھتے ہوئے انہیں احمق سمجھتے ہیں۔
یہ تقسیم قرآن نے جب کی تو مسلم، غیرمسلم، قرآن والے غیرقرآن والے، کہہ کر نہیں کی بلکہ، ایمان والے اور غیرمومن کہہ کر اور انہیں بھی عقل والے اور احمق و نادان کے درمیان تقسیم کی۔
کیا یہی تقسیم آج تک نہیں ہے؟
آج بھی ہے، ہر جگہ ہے۔ کاش اسے ہم اس لئے نظرانداز نہ کرتے کہ ہمارے جو مراد ہیں وہ بس وہی جو عربی کے قرآن سے وابستہ ہوں اور بس۔ نہیں یہ تقسیم ہر اس انسان کے درمیان ہے جو اللہ پر اور آخرت پر یعنی ایک دوسری دنیا میں یقین رکھے یا وہ جو اُن سے انکار کرے۔
آج اقرار و انکار والے کون اور کون ہیں؟ سمجھنا بہت آسان ہے۔ یہ دیکھ لیں زمین کی تہوں میں ایک ننھے سے بیج پر زمین کی رحمت کے سایے کو کس نے سمجھا اور شیروں کے سامنے انسانی وجود مانے گئے یا ان میں فرق دیکھا گیا۔ یہ سب ہم پر منحصر ہے۔
قرآن کریم نے انسان کو پھر اس لفظ انسان سے آگے چل کر پھر اسی سورئہ بقرہ کی اکیسویں آیت میں بہت واضح طور پر اپنا پیغام دے دیا۔ آگے تم سمجھو یا نہ سمجھو۔ خالق مالک کی رحمت کا تقاضہ تھا کہ اب بات پردوں میں رکھ کر نہ کی جائے اب بہت واضح طور پر سمجھا دیا جائے کہ جس کے بعد حماقت اور عقل کے فرق کو لوگ سمجھ لیں اس نے کہا ’یاایہاالناس‘ اے لوگو! عبادت کرو تم لوگ اپنے اس رب کی جس نے تم کو خلق کیا اور ان لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے۔ شاید کہ تم پرہیزگار (اعلیٰ کردار والے) بن جائو۔(ترجمہ)
’جس نے تمہارے لئے (یہ) زمین کو فرش اور آسمان کو (بلندی۔ چھت) قرار دیا اور (جس نے) آسمان سے پانی برسایا پھر اسی کے (ذریعے) سب سے تمہارے لئے کھانے کے لئے بعض پھل پیدا کئے تو کسی کو اسی اللہ کا شریک نہ بنائو جبکہ تم خوب جانتے ہو۔‘
انسان، انسان، پھر اسی سورہ میں اسے چوبیسویں آیت میں بتایا گیا کہ نہ ماننے والے لئے کیسی آگ ہے۔ اور ماننے والے کیلئے کیا انعام ہیں۔
اس نے ہمیں پھر سمجھایا اسی سورہ کی چھبیسویں آیت میں ایک مچھر کی مثال سے بھی ہم کو آگاہ کیا۔ مچھر۔ ہم جسے بہت حقیر سمجھتے ہیں۔ وقت ایسے ہی آئے جب ہم ایک مچھر پر بھی قابو نہیں پاسکتے۔
یہاں ایک بات یاد آئی جسے لکھ دینا وقت کی مناسبت سے بھی ہے کہ ہم بات اور بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
کافی مدت قبل ہم امریکہ میں تھے۔ نیویارک میں، نیوجرسی میں تھے جہاں آج امریکہ اپنی تاریخ کے بدترین وقت سے گذر رہا ہے وہاں ہم کو ہمارے بعض احباب نے جن کے علوم جدیدہ پر معلومات بہت وسیع تھے بتایا ’’یہ نیویارک کے لئے یہاں کے محققین کا یہ کہنا ہے کہ اگر یہ نیچر (یہ لوگ جسے نیچر، طبیعت کہتے ہیں ہم اسی کو مالک، خالق کی قوت مانتے ہیں) ساتھ نہ دے تو تمام نیویارک کے لوگ شاید چوبیس گھنٹے میں ختم ہوجائیں۔ ہم نے حیرت سے پوچھا ایسا کیسے؟
جواب ہم آپ پڑھیں سنیں۔ قرآنی سورئہ البقرہ کی اس آیت کو دیکھیں جس میں وہ خالق ہم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہا ہے۔
’یقینا اللہ کو مچھر یا اس سے بھی بڑھ کر (کوئی حقیر مخلوق کا) مثال دینے میںکوئی شرم نہیں… (آیت چھبیس کا ایک ابتدائی حصہ)
اور یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ مچھر ہو یا کوئی بھی اس سے بھی کمتر مخلوق سب اسی کی تخلیق تو ان کی مثال وہ ہی دے سکتا ہے جو ہمارا بھی خالق اور ان سب کا یہ نیویارک (امریکہ کا بہت بڑا شہر) جس سمندر کے کنارے ہے وہاں لاکھوں سال سے سمندری موجوں کے ٹکرائو نے زمین کے اندر اندر بہت دور تک غار بنا رکھے ہیں ان غاروں میں شام ہونے سے پہلے پہلے بے شمار مچھر وجود پاتے ہیں اور جب شام کے وقت نیویارک شہر روشنیاں بلند ہوتی ہیں تو ان غاروں سے مچھروں کی ایک کالی دیوار شہر کی طرف بڑھتی ہے کہ اگر یہ شہر تک پہنچ جائے تو تمام انسانوں کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے لیکن انہیں غاروں میں لاتعداد چمگادڑ (چھوٹے بڑے) بھی پرورش پارہے ہوتے ہیں وہ بھی سورج ڈوبتے ہی باہر نکلتے ہیں اور مچھروں کی اس ہیبت ناک دیوار کو اپنی غذا بنانا شروع کردیتے ہیں اس سے پہلے کہ یہ مچھر شہر تک پہنچیں یہ چمگادڑ انہیں کھاچکے ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا زمانوں سے قدرت کا یہ منظر وہاں جاری ہے۔ آج اسی ملک اسی شہر میں تحقیق ہورہی ہے کہ انسانی زندگی تک ایک بہت چھوٹا اندیکھا جرثومہ کیسے پہنچ گیا۔ جو پہنچ سکتے تھے انہیں کس نے روک رکھا ہے اسی کو سمجھ لیں تو سب کچھ سمجھ میں آجائے گا کہ ہم کس کا انکار کرنا ہے اور کس کا اقرار؟
اسی سورہ کی 27 آیت کا یہ فقرہ اسی بات کو سمجھاتا ہے:
ترجمہ: اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں۔ یہی لوگ گھاٹا اُٹھانے والے ہیں۔ (27)
ہم نے فساد کو فساد سمجھ لیا ہوتا تو ہم ان باتوں کی طرف پوری طرح توجہ دیتے کہ انسان کو کسی مرض کی ہلاکت سے کیسے بچایا جائے۔ اگر انسان کے ذریعہ انسان کو ہلاک کرادینا فساد ہے تو پھر کسی اندیکھے جرثومے سے انسان کو بچا لینے کی باتوں سے بے توجہی کے لئے آج ہم کیا کہیں گے؟ فساد دونوں جگہ ہے۔ شاید اب دونوں جگہ کے فساد کو دور کرنے میں اہم اپنی ذمہ داریاں بہتر طور پر پوری کرسکیں گے۔
اسی جگہ قرآن کریم تیسویں آیت میں اسی بات کو اس طرح کہا گیا کہ شاید ہی انسانی اور اسلامی اور قرآنی زندگی سے وابستہ کوئی ایسا ہو جو اس سے ناواقف ہو۔
جب انسانی تخلیق، آدم کی تخلیق کی باتیں تھیں تو قرآن نے کہا (اے رسول) ’اور جب تمہارے رب نے ملائکہ سے کہا میں زمین میں اپنا ایک نائب (خلیفہ) بنانے والا ہوں تو (فرشتوں نے) تعجب سے کہا گیا تو زمین میں (ایسے شخص کو) بنائے گا جو زمین فساد کرے گا اور خونریزی کرے گا۔‘ (البقرہ از آیت 30 )
یہ قرآنی تعلیم یہ قرآنی ہدایت کا اپنا انداز۔ ایک مالک، ایک خالق، ملائکہ سے لے کر انسانوں تک سب کا خالق ہم کو آگاہ کررہا ہے کہ اے انسان یہ بات تو ملائکہ بھی سمجھ رہے تھے کہ تو فسادی بنے گا۔ خونریزیاں کرے گا لیکن ہم بھی علم ایسا علم عطا کریں گے جس پر یہ انسان فخر بھی کرسکے اور اپنی آدمیت اپنی انسانیت کو محفوظ بھی رکھ سکے۔
اور اس طرح ہم انسان کی تخلیقی منزل میں سب سے پہلے وجود حضرت آدم کا نام اسی سورہ البقرہ کی 33 ویں آیت میں سب سے پہلے لیا گیا تو جنت کے تذکرہ کے ساتھ۔ اور یہ بھی اہم ہے کہ اقرار و انکار، مومن و غیرمومن۔ فساد و خونریزی، جنت اور جہنم، رحمانی قوت اور شیطانی گمراہیاں ان سب میں جب پہلی بار کسی بھی قوم کا تذکرہ قرآن نے کیا۔ قوم، فرد نہیں، فرد میں آدم کانام آپ کا۔ فرد میں شیطان کا نام آپ کا۔ بحیثیت قوم تو پہلی بار اسی سورہ کی چالیسویں آیت میںکہا گیا بنی اسرائیل… اے بنی اسرائیل (حضرت یعقوب کی اولاد) جبکہ حضرت آدم سے اس قوم تک ہزاروں سال میں اور بھی قومیں آئیں کہ جن کا تذکرہ بعد میں قرآن نے کیا۔ لیکن یہاں پہلی بار کسی قوم کو پکارا گیا۔ تو قرآن نے اے بنی اسرائیل کہا۔ اور آگے چل کر جب پھر کسی فرد کا نام لیا گیا تو اب فرعون کا نام آیا۔ 49 ویں آیت میں ان کی ان بدترین زندگی کی بناء پر جو اُن کی تھی۔ اور آدم کے نام کے بعد دوسرا اچھا نام جو قرآن نے لیا وہ موسیٰ۔ یعنی ہم اگر توجہ کریں تو قرآن جب انسانی تاریخ ہدایت کی بات کرتا ہے تو اس نے اپنے سورئہ البقرہ میں پہلا نام اچھا نام آدم لیا۔ دوسرا بدتر نام ابلیس لیا۔ پھر دوسرا برا نام فرعون لیا اور دوسرا اچھا نام موسیٰ لیا۔
اور بحیثیت انسان اسے اسی لفظ سے اسی سورہ کی ساٹھویں آیت میں خطاب کیا گیا ’ہر انسان نے اپنا اپنا گھاٹ (پانی پینے) کی جگہ کو جان لیا۔ اور نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے پھر قرآن کریم نے کہا: ’اور ملک میں (زمین میں) فساد کرتے نہ پھرو۔‘‘
ہماری انسانی داستان بس اتنی ہی ہے کہ ہم اگر اللہ پر ایمان رکھتے ہیں تو اپنے جیسے انسان کے انسانی وجود سے انکار نہ کریں۔ اپنے انسان ہونے پر فخر اور دوسرے کی ذلت کو اپنا دین نہ بنالیں۔
جانور مجموعی طور پر ہم کو انسان سمجھتے ہیں۔ ہم خود کو اس طرح تقسیم کرتے رہتے ہیں جیسے بس ہم یا جو ہمارے منظور نظر ہیں وہی انسان میں اور بس۔
تمام پرندے ہم کو جب دیکھتے ہیں تو وہ کالا گورا زرد سرخ انسان سمجھ کر نہیں دیکھتے۔ تمام چوپائے جب ہمارے سامنے آجاتے ہیں تو وہ ہمیں امریکی، افریقی، چینی، ہندوستانی سمجھ کر نہیں دیکھتے۔ سمندروں کے بیکراں پانی کے گھڑیال مگرمچھ ہم پر کسی خاص انسان کا تصور کرکے مہربان نہیں ہوجاتے۔
کیا ہم ان مچھر، مکھی، چیونٹی سے بھی زیادہ کم فہم ہیں کہ وہ تو ہم سب کو بغیر کسی تفریق کے انسان مانتے ہوں اور ہم یہی ثابت کرنے میں اپنی زندگیاں ختم کرتے رہتے ہیں کہ ہم میں سے فلاں مذہب والا انسان ہے فلاں نہیں۔
فساد پر لکھتے ہوئے اس قسط 101 کی یہ گیارہویں گفتگو ہے۔ ہمارا بھارت مکمل طور پر ایک مذہبی ملک ہے۔ اور یہ ہمارے ملک کا ایک ایسا امتیاز ہے کہ جس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملے گی کہ یہاں دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والے موجود ہیں صرف موجود ہی نہیں ایک دوسرے سے محبت رکھنے والے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہر مذہب کسی غیبی طاقت پر یقین عطا کرتا ہے۔
اور اسی غیبی قوت و طاقت کو قرآن کریم نے ’اللہ‘کے نام سے ہمیںآگاہ کیا۔ لیکن یہ نہیں کہ بس یہ بتا دیا گیا کہ کوئی اللہ ہے اور بس۔
جی نہیں۔ جس نبیؐ نے اس کی طرف سے آکر ہم کو قرآن دیا۔ قرآنی احکام، ان کے اور اللہ پر یقین دیا اس نے کیا کہا؟ ذرا اسے ہم پڑھیں انہوں نے (ہمارے نبیؐ نے) فرمایا:
ترجمہ: ’’جو اللہ سے ڈرتا ہے اس سے ہر شئے ڈرتی ہے اور جو اللہ سے نہیں ڈرتا اللہ اسے ہر شئے سے خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔‘‘
شرط یہ ہے کہ ہم پہلے اپنا جائزہ لیں کہ ہم اللہ سے ڈرتے ہیں؟ کیا واقعی ہم اس کا خوف رکھتے ہیں۔
تو سمجھیں کہ اس کا ثبوت کیا ہم کو ملے کہ ہم واقعی اللہ سے ڈرتے ہیں؟
یہاں ایک اور قول حضوؐر ہم نقل کریں فرماتے ہیں:
’’کوئی جوان جو سخی ہو اور اچھے اخلاق والا ہو وہ اللہ کیلئے زیادہ محبوب ہے کسی ایسے بزرگ سے جو بخیل ہو اور عابد ہو اور بداخلاق ہو۔‘‘
جب وقت اور حالات ایسے ہوں کہ انسان مشکل میں ہوں لوگ پریشان ہوں۔ اس وقت ہمارا امتحان ہوتا ہے۔
اور اسے بھی ہم دیکھیں جب حضوؐر نے فرمایا: ’’کسی خاص وقت کے لئے کہا گیا نمازیں اپنے گھروں میں پڑھو اور نوافل (سبھی نمازوں) کو وہاں مت چھوڑو۔ تو مقصد یہ نہیں کہ بس اسی طرح رہو۔ عبادت پر زندگی مقدم ہے۔
بارگاہ رب میں ہماری وہ عبادت اہم ہے جو اُس کے لئے ہو۔ اور اس میں صحت و زندگی کو اولیت حاصل ہے۔ اور اس کے لئے سب سے افضل عبادت ایک ہے کہ ہمارے ذریعہ کسی اس کے بندہ پر ظلم نہ ہونے پائے۔
ہمیں اس مضمون کے لکھتے ہوئے یہاں ایک تاریخی واقعہ یاد آیا۔ فکر ہوئی اسے تلاش کریں جہاں لکھا ہوا ہو وہاں سے اسے نقل کریں۔ واقعہ بہت محدود جگہ پر ہے۔ بہت کم لوگوں کے درمیان ہے لیکن اگر ہم اسے وسعت دیں تو یہ قبیلوں کو، خاندانوں کو، قوموں کو اپنے آپ میں سمیٹ لے۔ اسے صرف دو یا تین لوگوں کے درمیان محدود نہ سمجھا جائے۔ واقعہ ملا آیئے اسے اس کی اصل کیفیت میں لکھیں۔ وہ کہ جو اُسے پڑھ چکے یا سن چکے ہوں وہ یہاں اسے پھر سے دیکھیں اور جو اسے پہلی بار پڑھیں وہ غور کریں کہ یہی کردار اگر آگے اور آگے بڑھتا چلا جائے تو اس چشمہ سے کم نہ ہوگا جو پہاڑیوں سے اترکر جب میدانوں سے گذرتا ہے تو نہ جانے کتنی زمینوں کو اس طرح سیراب کرتا چلا جاتا ہے کہ جہاں ہوٗ کا عالم ہو وہاں درخت، پھل پھول سبزہ کھیتیاں باغات ہر طرف نظر آنے لگتے ہیں اور ان سے فیضیاب ہونے کے لئے انسان، جانور چرند پرند سب ہی آجاتے ہیں۔
تو آیا اپنی محدودیت کے باوجود اس واقعہ کی وسعت کا احساس کریں۔ تاریخ کا سچا واقعہ، تاریخ کے حقیقی کردار، بعد کی نسلوں کو کیا کچھ دے گئے یہ اسی کے لئے تحفہ ثابت ہوگا جو اس سے کچھ حاصل کرلینے کا ارادہ کرلے۔
صدیوں پہلے۔ ایران کے ایک باوقار بادشاہ عباس صفوی کا نام آج بھی بہت مشہور و محترم ہے۔ اسی کے زمانہ میں ایک عالم جلیل محمد باقر داماد تھے کہ جن سے متعلق واقعات علماء کی زندگی کے لئے ایک روشن چراغ کی طرح ہیں اور انہیں کے معاصر علامہ بہائی علمی تاریخ کا ایسا نام ہے کہ جس سے علمی استفادہ کرنے والوں کی بڑی طولانی فہرست ہے۔
یہ تین نام ان کے درمیان ایک واقعہ ۔ اسے دیکھیں۔
سید باقر داماد باعتبار جثہ و جسامت بہت صحتمند تھے وہ اپنے گھوڑے پر آہستہ آہستہ اطمینان کے ساتھ باوقار انداز میں لئے چل رہے تھے۔ یہ شاہ عباس کا لشکر تھا۔ شیخ بھائی بہت کمزور جثہ والے تھے ان کا گھوڑا بیحد شوخ تھا بہت تیزیاں کررہا تھا شاہ عباس نے خیال کیا ان دو بزرگ علماء کے درمیان کیا محبت ہے کیا خلوص ہے اسے دیکھیں۔ میرباقر داماد کے پاس آیا اور کہا ذرا ملاحظہ کریں عالم کو ایسا نہ ہونا چاہئے کہ اس طرح اپنے گھوڑے کو دوڑائیں جو اُن کی شرمندگی کا سبب بنے۔ سید نے سنا جواب دیا بیشک آپ نے جو کہا ایسا ہی ہے لیکن شیخ کا گھوڑا اس کا حق رکھتا ہے اس کی بے چینی اس لئے ہے کہ جو علم شیخ کے پاس ہے اس کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ شاہ عباس اب شیخ بہائی کے پاس آیا اور کہا عالم کو ایسا نہ ہونا چاہئے کہ آپ کی سواری کے گھوڑے کو انہیں لے کر چلنے میں دقت ہو جیساکہ یہ سید داماد، شیخ نے کہا۔ بیشک لیکن سید کے گھوڑے کی یہ سست رفتاری سید کے (جثہ و جسامت کے) وزن کے سبب نہیں ہے بلکہ بار علم کی کثرت کہ جس کے حامل سید ہیں ان کا گھوڑا اس وزن علم کے سبب تیز نہیں چل سکتا۔ شاہ عباس فوراً اپنے گھوڑے سے اترا اور سجدئہ شکر کیا کہ اس کے دور میں ایسے علماء ہیں جن کے درمیان ایسی دوستی اور ایسی محبت ہے۔
یہاں بات صرف ایک بادشاہ اور دو علماء کی نہیں ہے بلکہ بات اس فکر کی ہے جو حاکم وقت کے پاس ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ایک عالم واقعی عالم ہے یا بس ہے اور دوسرا عالم بھی واقعی روحانی ہے یا دکھاوے کی زندگی ہے۔ اور عالم بھی ایک دوسرے کے علم کے معترف ہیں یا بس خود ہی کو عالم سمجھتے ہیں اور دوسرے کو جاہل یا اپنے سے کمتر۔
حکومت اور صاحبان علم کے رشتے ہمیشہ رہے ہین اور رہیں گے۔ لیکن اگر حکومت علم و علماء کو پسند کرتی ہے تو ان کے اتحاد کی بات میں اپنی کامیابی سمجھے گی اور اگر حاکم کو بس اپنی فکر ہے تو وہ ناقدری علم ہی میں اپنی حکومتی کامیابی سمجھے گا۔
اگر ہم آج کی دنیا پر نظر ڈالیں تو شاید آج سے زیادہ دنیا میں کبھی علم کی بات نہ ملے گی۔ ہم کبھی کناڈا میں وہاں کے ایک بڑے شہر مانٹریال میں سڑکوں سے گذر رہے تھے ایک چوراہا پر آسمان چھوتی عمارتیں تھیں جو میرے ساتھ میں کوئی صاحب تھے انہوں نے ہم سے کہا یہ جو آپ عمارتیں دیکھ رہے ہیں یہ صرف مانٹریال میں ہے کہ جہاں ایک چوراہا پر یہ تین تین یونیورسٹیاں ہیں۔ ایک شہر میں نہیں۔ ایک شہر کے ایک چوراہا پر۔ تو علم تو آج دنیا کے ہر ہر گوشہ میں اپنی منزل کمال پر ہے۔
لیکن علم کے ان سمندروں میں جو بڑے بڑے شپ، جہاز، اسٹیمر رواں دواں ہیں ان میں ڈھونڈتے چلے جائیں شاید کہیں ان میں کوئی کردار ایسا نظر آجائے جو اپنے سوا بھی کسی اور کو اپنے سے بہتر سمجھے، مال میں نہیں، علم میں نہیں، قومیت میں نہیں، صحت میں نہیں، رنگ روپ میں بھی نہیں بلکہ انسانیت میں، شرافت میں، مثالی زندگی میں۔
یہ جب ہی ممکن ہے جب دنیا کی حکومتی طاقتیں مذہبی اور قومی تعصب سے ہٹ کر آنے والی نسلوں کو اچھا رحمدل، دوسروں کی عزت کرنے والا انسان بھی بنانے کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرلیں۔
اور آج کے حالات بتا رہے ہیں کہ شاید انسان اب دوسرے کو انسان سمجھنے لگا ہے۔ وہ سب کو الگ الگ بیٹھنے اور رہنے کی عارضی بات شاید اسی لئے کی جارہی ہے کہ پھر جلدی ہی سب ایک دوسرے کے ساتھ رہنا پسند کرنے لگیں دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ دل سے، حقیقت میں، واقعیت میں وہ سمجھنے لگیں کہ مصیبت کی اس گھڑی میں سب کو دوسرے سے ہمدردی ہے تو یہ وقتی نہ رہے۔ مصیبت کے لمحات انشاء اللہ جلدی فنا ہوں اور محبت و احترام کی ہوائیں سب طرف چلنے لگیں مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی طرف۔ اور ہم اسی اُمید میں رہیں گے اس لئے کہ قرآنی ہدایت ہے۔
’لاتفتطوامن رحمۃ اللہ‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ کورونا کا رونا وقتی ہے۔ لیکن رحمت رب کی بارش یقینی ہے یہی ایمان ہے یہی مذہب ہے اور یہی قرآن کا پیغام ہے اور یہی انسان کے لئے اس کی انسانیت ہے نہ خود مایوس ہو نہ دوسرے کو مایوس ہونے دے۔
خخخ