ایک سچّی کہانی:لوسی

0
142

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

عارف نقوی

ِِّّّ ’’میرے خیال سے لوسی دم توڑ رہی ہے۔‘‘
میری اہلیہ نے نہایت ہی مردہ آواز میں کہا۔
میں کچھ نہ سمجھا۔ غسلخانہ میں جا کر دانت مانجھے۔ غرارہ کیا اورہاتھ مہنہ دھوکر بغیرشیوکئے باہر نکل آیا۔ انگرڈ پریشان لگ رہی تھی۔
آج سارے جرمنی میں کرسمس کا تیو ہارمنایاجارہا ہے۔لوگ گرجاگھروں میں جا کر عبادتیں کر رہے ہیں۔ گھروں میں روایت کے مطابق بطخیں اورخرگوش پکائے جا رہے ہیں۔ دوستوں یا رشتہ داروں کے گھروں پر جا کرمبارکبادیں دی جارہی ہیں۔میں عام طور سے سبھی کے تہواروں میں شرکت کرتا ہوں ، اس لئے کل شام کو اپنی اہلیہ، بیٹی اور نواسی کے ساتھ ایک گرجاگھر میں جا کر تقریب کو دیکھ چکا ہوں۔ جس میں صرف ایک پادری کا وعظ ہی نہیں ہوا،بلکہ کرسمس کے گیت گائے گئے اور چھوٹے چھوٹے بچّوںکی ایک ٹیم نے عیسی علیہ السلام کی پیدائش کی داستان کو ڈرامہ کے روپ میں پیش کیا ۔ بعد میںسب نے مل کر امن و امان اورانسانیت کی فلاح بہبود کیلئے دعائیں مانگیں اور گھر لوٹ کر تحفوں کا تبادلہ کیا ۔
ہم لوگ اپنی بیٹی کے گھر سے کافی رات گئے واپس لوٹے تھے۔ انگرڈنے فرج میں سے ایک بطخ نکال کرکچن میں رکھ دی تھی تاکہ دوسر ے دن اسے آسانی سے تلا جا سکے۔ ہم نے یہ بھی طے کیا تھا کہ صبح فون کر کے چند دوستوں کو دعوت دی جائے گی اور مل کر کھاناکھایا جائے گا۔لیکن اس وقت اسے اس بطخ کی فکر نہیں تھی۔
ّّ’’ لوسی زیادہ نہیں جئے گی۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا اور ڈرائنگ روم میں رکھے ہوئے ایک پنجڑے پر جھک گئی، جس میں ہمارے دو چھوٹے چھوٹے آسٹریلین طوطے پلے ہوئے تھے۔ ایک سفید چڑیا پنجڑے میںنیچے سینے کے بل لیٹی تھی۔ آنکھیں کھلی تھیں۔ قریب ہی ایک ڈھکن میں انگڑڈ نے پانی رکھ دیا تھا، کہ شاید پی سکے۔
’’ابھی اس نے ایک بار بڑی مشکل سے لڑکھڑاتے ہوئے جالی پر چڑھنے کی کوشش کی تھی۔ شاید ابھی کچھ سانس باقی ہے۔ مگر بچے گی نہیں۔‘‘ انگرڈ ایک سانس میں بہت کچھ کہہ گئی۔’’جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے چلیں۔‘‘ میں نے مشورہ دیا۔
مجھے یاد آیا ایک بار ایک چڑیا بیمار ہو گئی تھی تو اسکے علاج کے لئے میری بیٹی اسے لے کر ایک ڈاکٹر کے پاس گئی تھی اوراس نے ساٹھ مارک لے کر اس کے گلے کا آپریشن کیا تھا۔
’’اس وقت ڈاکٹر ملے گا کہاں۔‘‘ انگرڈ نے مایوسی کا اظہار کیا۔
’’ نرگس سے پوچھیں۔‘‘
مگر جب قریب جا کر دیکھا، تو لوسی ساکت تھی۔ آنکھیں کھلی تھیںجیسے کچھ کہنا چاہتی ہے۔ لگتا تھا زندہ ہے۔ میں نے اس کی پیٹھ کو سہلایا مگر کوئی حرکت نہ ہوئی۔ جسم میںابھی بھی کچھ گرمی باقی تھی۔سانس کے آثار نہیں تھے۔معلوم ہوتاتھا جیسے کسی فنکارنے ایک سفید بے داغ پروں کی خوبصورت ملائم گڑیا بنا کر پنجڑے میں لٹا دی ہے اور اس کے جسم سے ایک عجیب قسم کا تقدس اور نور جھلک رہا ہے اور آنکھوں سے معصوم پیغام پھوٹ رہے ہیں۔نیلی چونچ کے چاروںطرف ہلکی ہلکی زردی پھیل گئی ہے۔دوسری چڑیا جو زرد رنگ کی ہے اور ہم اسے یونی کہتے ہیں، پنجڑے میں لگے اپنے ڈنڈے پر بیٹھی پریشان نگاہوں سے نیچے گھور رہی تھی۔ اس کی زبان پر تالے پڑ گئے تھے۔ گیت خاموش تھے۔ چہچہاہٹ بند تھی۔
میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ یہ سب کیسے ہو گیا؟ کیوں ہو گیا؟ کتنی دیر میں ہو گیا؟ابھی کل تک دونوں چہک رہی تھیں۔ انگرڈ نے ان کے پنجڑے کو صاف کیا تھا۔ ان کے برتنوںمیں دانا بدلا تھا۔ ان کے چھوٹے سے حمام کا پانی بدلا تھا اوراس میں دونوں نے یکے بعد دیگرے غسل کیا تھا۔ پھر پنجڑے میں لگے آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر اس سے کھیلتی رہی تھیں۔ایک کونے میں لٹکے ہوئے جھنجھنے کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اس سے تفریح لیتی رہی تھیں۔اس کے بعد میں نے لوسی کو پنجڑے سے باہر نکال کر اپنی انگلی پر بٹھایا تھا اور وہ اسے اپنے پنجوںسے جن کے لمبے لمبے ناخنوں کی چبھن کو میں محسوس کر رہا تھاچھوڑنے کے لئے تیار نہیںتھی۔ تیسرے پہر کو جب میںاور انگرڈ اپنی بیٹی کے گھر جانے لگے تھے توہم نے ایک بار پھرپنجڑے کے قریب جا کر اور چمکار کر دونوں چڑیوںکو خدا حافظ کہا تھا اور انہوں نے سدا کی طرح چہک کر جواب دیا تھا۔رات کو جب ہم نرگس کے گھر سے واپس لوٹے تھے تو اس وقت بھی ہمیں سان و گمان نہیں ہوا تھا کہ پنجڑے کے اندرکوئی بیمار ہے۔
ہم دونوں نے ایک بار پھر لوسی پر نظر ڈالی ۔ اس کے سفیدنرم پروںکو ٹٹول کر دیکھا ، مگر اس میں کوئی جان نہیں تھی۔وہ بالکل ساکت تھی۔ اپنی کھلی ہوئی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نہ جانے کیوں مجھے ڈر لگ رہا تھا۔جیسے میرے دل میںچور ہو۔بار بار یہ خیال آتا تھاکہ کہیں اس کی دیکھ بھال میں ہم سے کوئی خطا تو نہیں ہو گئی۔ اسکی معصوم آنکھیں ہماری کوتاہی یا زیادتی کی شکایت تو نہیںکر رہی ہیں۔میرا دل اندرسے رو رہا تھا۔ انگرڈ بھی روہانسی لگ رہی تھی۔ وہی ان چڑیوں کی سب سے زیادہ دیکھ بھال کرتی تھی اور ان سے مانوس ہو گئی تھی۔ اس وقت نہ اسے اپنی بطخ کی فکر تھی نہ مجھے دوستوں کو گھر پر بلانے کی۔ہم صرف یہ چاہتے تھے کہ لوسی کچھ جنبش کرے، سانس لے ۔ لیکن یہ ہمارے بس میں نہ تھا۔
یہ دونوں چڑیاں میری نواسی یاسمین کی امانت تھیں۔ اسنے ہمارے پاس انہیں اس لئے رکھا تھا کہ ان کی اچھی طرح سے دیکھ بھال ہوگی ۔ اور اب وہ ہمارے گھر کا حصّہ بن گئی تھیں۔ زرد چڑیا ’’یونی‘‘ نر ہے ۔ وہ دن بھرکمرے میں اڑتی چہکتی اورگانے گایا کرتی ہے۔خصوصاً جب ریڈیو یا ٹی وی پر سنگیت بجتاہے تو اس کی آواز تیز ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی جب میں اس کے قریب انگلی لے جا کر کہتا ہوں :
’’الّو کی دم فاختہ‘‘ تو وہ اچک کر میری کلمہ کی انگلی پر بیٹھ جاتی ہے اور نہ جانے کیا کیا بولتی رہتی ہے اور پھر خود ہی اڑ کر میرے کندھے پر آجاتی ہے اور باتیں کرتی ہے اور اگر میں نے جواب نہ دیا تو گردن کے قریب پہنچ کر چپکے سے کاٹ لیتی ہے اور پھر اڑ کر چھت سے لٹکتے ہوئے جھاڑ پر بیٹھ کر گردن پھولا پھولا کرچہکنے لگتی ہے۔کئی باروہ دیوار پر لگے کاغذ کو کاٹ کاٹ کر خراب کرچکی ہے اور انگرڈ کی میٹھی ڈانٹیں کھا چکی ہے۔ جبکہ سفید فام لوسی، جوکہ مادہ تھی، نہایت ہی معصوم اور قابل ترس تھی۔ شاید اسی لئے ہماری توجہ کا سب سے زیادہ مرکزتھی۔ اس کے ایک بازو اور غالباً ایک آنکھ میں شروع سے کوئی خرابی تھی۔ وہ اونچا نہیں اڑ پاتی تھی۔ اڑنے کی کوشش کرتے ہوئے مشکل سے دوگز پر جا کر پتتا تے ہوئے گر پڑتی تھی۔ اور اس لئے ہملوگوں کو خاص احتیاط برتنا پڑتی تھی۔ میں اکثر کوشش کرتا تھا کہ اسے تھوڑا تھوڑا اڑنا سکھائوں۔اور اس لئے اسے پنجڑے سے نکال کر اپنی انگلی پر بٹھاتا اور اس طرح اڑاتا کہ وہ بس اپنے پنجڑے تک پہنچ جائے۔ میرے دوست احباب بھی جب ملنے آتے تو ان چڑیوں سے لطف اندوز ہوتے اور ان سے باتیں کرنے کی کوشش کرتے۔
لوسی اپنے پنجڑے میں صحیح معنوں میں ملکہ تھی۔ پنجڑہ کے اندر چونچ اور پنجوں سے سلاخوں کو پکڑ کر جہاں چاہتی چڑھتی، جس ڈنڈے پر چاہتی بیٹھتی، جب چاہتی اپنے ننھے سے جھولے پر یونی کو ہٹا کر بیٹھ جاتی۔ نہانے کے برتن میںسے یونی کو بھگا کر خود نہاتی اورپھر اپنی چھوٹی سی پنجڑے کی ڈال پر بیٹھ کرپروں کو سکھاتی اور یونی سے لاڈ پیار کرتی اوراسکے گیتوں کی داد دیتی۔ دونوں چونچیں ملا کر محبت کا اظہار کرتے پروں کو کھجاتے اور دیر تک نہ جانے کیا گفتگو کرتے اور ایک دوسرے کو اپنے معصوم گیت سناتے رہتے اور انگرڈ کہتی:
‘‘اب ان کے پر جھڑ رہے ہیں۔ مجھے روز ان کے پنجڑے کی صفائی کرنا پڑتی ہے۔ ان کے لئے ریت لے آئو۔ دانہ لے آئو۔ وٹامن والی دانے کی بالیاں لے آنا۔ سیب والی،کیوی والی۔۔۔اور۔۔۔‘‘
پھر وہ بڑی احتیاط اور چائو سے پنجڑے کو صاف کرتی، اس میں صاف ریت پھیلاتی، پینے کا پانی بدلتی، دانے کی کٹوریوںمیں نیا دانہ ڈالتی، پنجڑے کی جالی میں نئی وٹامن بھری بالیاں لٹکاتی اور پنجڑہ کودوبارہ اس کے مقام پر قرینے سے رکھ دیتی۔ اس وقت چڑیوں کی خوشی بھی بڑھ جاتی اور وہ نئے دانے پرٹوٹ پڑتیں۔
کبھی کبھی میںلوسی کو پنجڑے سے باہرنکال کرچھت سے لٹکے ہوئے لیمپ پر بٹھادیتا تھا اور وہ اس پر بڑا فخر محسوس کرتی تھی،کیونکہ اسی وقت یونی اڑتی ہوئی وہاں پر پہنچ جاتی تھی اور دونوںگردن پھولا پھولا کر زور زور سے گانا شروع کر دیتے تھے۔تھوڑی دیر کے بعد جب یونی دانہ کھانے کے لئے اپنے پنجڑے میںاڑتی ہوئی پہنچتی تو لوسی بھی چھلانگ مار کر اپنے پنجڑے کی چھت پر پہنچ جاتی تھی اور جلدی سے پنجڑے میں داخل ہو کر دانہ چگنے لگتی تھی۔ یونی اس کے احترام میں اپنی جگہ چھوڑکر پنجڑے میں لگی ہوئی ٹہنی پر جابیٹھتی تھی۔ کبھی کبھی لوسی پنجڑے تک پہنچنے کے بجائے فرش پر گرجاتی تھی اور الماری کے پیچھے چھپ جاتی تھی۔دیر تک کمرہ میں چوں چوں کی آوازیں گونجتی رہتی تھیں اورمجھے ڈر لگتا تھا کہ کہیں پیر کے نیچے نہ آجائے، کیونکہ وہ اڑنے سے معذور تھی۔پھر جب میںاحتیاط سے قریب پہنچ کر آواز دیتا تووہ مٹکتی ہوئی کپ بورڈ کے پیچھے سے باہر نکلتی اور تیزی سے قریب آکر میری انگلی پر بیٹھ جاتی، تاکہ میں اسے اسکے پنجڑے میں پہنچا دوں۔ اس وقت مجھے ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا۔ میری اہلیہ بھی اس منظر سے محظوظ ہوتی۔ میرے دوست احباب بھی ان چڑیوں سے مانوس ہو گئے تھے۔کبھی کبھی انہیںاپنے کندھے پر بٹھا کر فوٹو کھنچواتے، ان سے گفتگو کرتے اورفون پر ان کی خیریت پوچھتے تھے۔ رات کو جب ہم گھر آتے اور برآمدہ کی بتّی جلاتے تو بغل کے کمرہ میں چڑیوں کی چہچہاہٹ خاموشی کو توڑ دیتی۔ اور جب ہم ریڈیو یا ٹی وی کوآن کرتے تو انکی آوازوں کے اتار چڑھائو کے ساتھ ان چڑیوں کی آوازیں بھی گھٹتی بڑھتی رہتیں۔
لیکن آج ایک آواز خاموش ہے۔ دوسری آواز بھی سہمی سہمی سی لگ رہی ہے۔گھر میں سوگ چھایا ہوا ہے۔ لیکن کیوں؟ لوسی اتنی جلدی، اتنی اچانک کیوں چلی گئی ہے؟ میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ کیا ہم سے کوئی خطا ہوئیّ کوئی غلطی، کوئی لاپرواہی؟ کہیں ہم نے اسے کوئی تکلیف تونہیںپہنچا دی؟ اس کے درد، اس کی تکلیف، اس کے مرض کو نہ سمجھ سکے؟ شاید وہ کچھ کہنا چاہتی تھی، کچھ عرض کرنا، شکایتیں کرنا۔۔ ۔ لیکن ہم اس کی زبان نہ سمجھ سکے۔
بچپن میں مجھے چڑیوں اور جانوروں سے کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ میرے ناناکے گھر میں طرح طرح کی مرغیاں اور کبوترپلے ہوئے تھے۔ سفید بیداغ، ہرے،مُکھی جو دن دن بھر آسمان میں اڑتے رہتے تھے اور شام کو گھر واپس لوٹتے تھے۔ خوبصورت سفید لقّے اور کالے و کتھئی شیرازی جنہیں دور سے دیکھ کر دل خوش ہوجاتاتھا۔ وہ زیادہ اونچائی پر نہیں اڑ پاتے تھے مگر دن بھر آنگن میں شان سے غٹرغوںکرتے رہتے تھے۔کبھی کبھی ہم کبوتروں کے نیچے مرغی کا انڈا رکھ کربیس یا اکیس دنوں تک چوزہ نکلنے کا انتظارکرتے اور پھر مخمل کے زندہ کھلونے سے کھیلا کرتے تھے۔ مگر جب کوئی باز ہمارے کبوتروںپر جھپٹتا یا کوئی جنگلی بلّی گھر میںآجاتی تو ہمارا دل دھک سے ہو جاتاتھا۔ اور اپنے کبوتروں اور مرغیوں کی سلامتی کیلئے اللہ میاں سے دعائیں مانگنے لگتے اور انہیں بچانے کی کوششیں کرتے تھے ۔
میرے چچا کے گھر میں جہاں میں نے بچپن گزارا تھا طرح طرح کے جانور اورپرندے پلے تھے۔ گھوڑے، بکریاں، کتّے، بلیاں، خرگوش، مرغیاں، کبوتر، جوایک دوسرے بے نیاز پھرا کرتے، پہاڑی طوطا جسے میری دادی نے’’ اللہ اکبر‘‘ اور ’’نبی جی بھیجو ‘‘ سکھا دیا تھا اور کالی پہاڑی مینا جو اپنے پنجڑے میں دن بھر پکارتی رہتی تھی: ’’جمالو، کھانا لائو‘‘۔ کبھی کبھی موٹے موٹے بندر گولر کے پیڑ پر بیٹھ کر خوںخوںکرتے یا بلبل کی دلکش تانیں اورکوئل کی سریلی کوک اور کوئوں کی کائیں کائیںچمن میں ایک عجیب کورَس کا سماں پیداکر دیتی تھیں۔ جب ہم دیکھتے کہ کوئی نیولایا بلّی کسی چڑیا کو پکڑے ہوئے ہے تو ہمارا دل کانپنے لگتا تھا اور ہم اسے چھڑانے کیلئے پیچھے پیچھے دوڑتے تھے۔ لیکن پھر تھوڑی دیر کے بعد سب کچھ بھول کرخود ہی گرگٹانوں کو پکڑنے کیلئے گھوڑے کی دم کا بال اکھاڑکر اسکا پھندہ بنانے لگتے تھے ۔ ہمیں اس کی تکلیف کا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔ مگر اب اس چھوٹی سی چڑیا نے میری روح کوجھنجھوڑ دیا تھا۔
میں نے اپنی بیٹی کو فون پر اطلاع دی۔’’شاید ہم لوسی کی ٹھیک سے دیکھ بھال نہ کر سکے۔‘‘لیکن وہ مجھ تسلّی دے رہی تھی:
’’ایسا نہیں ہے۔ لوسی کی صحت پہلے سے ٹھیک نہیں تھی۔اس میں اندرونی جسمانی خرابی تھی۔اسی لئے ٹھیک
سے نہیں اڑ پاتی تھی۔ اس کی موت نیچرل ہے۔‘‘
لیکن نرگس کے الفاظ مجھے تسلی نہ دے سکے۔
’’یا اللہ ہم سے کون سی غلطی ہوئی ہے؟ وہ بے زبان تو کچھ بھی نہ کہہ سکی۔‘‘
آنسوئوں کی دو بوندیں پنجڑے پر ٹپک پڑیں۔ یونی اپنی ساتھی کو کھو دینے کے بعد ایک کونے میں ہراساں، خاموش بیٹھی تھی، ہم سب سے بے نیاز۔ شاید اسے معلوم ہوگاکہ لوسی آخری وقت میں کیا کہہ گئی ہے۔
’’اگر ہماری غلطی ہے تو معاف کرنا۔‘‘
لیکن چڑیا کا جواب میری سمجھ میں نہ آیا۔ میں نے پنجڑہ کا دروازہ کھول دیا۔ اسے کئی بار چمکارا۔ مگر وہ باہر نہیں نکلی۔ سہمی ہوئی آواز میں آہستہ آہستہ کچھ کہتی رہی۔ چوں چوںکرتی اورلوسی کو گھورتی رہی۔
انگرڈ نے بڑی احتیاط سے ایک خوبصورت رنگین کاغذ میں لوسی کو لپیٹا اور بالکونی میں لے جاکر ایک طرف رکھ دیا، تاکہ چڑیا سردی میں محفوظ رہے۔
’’اسے کہیں دفن کرنا ہوگا۔‘‘ انگرڈ نے رائے دی۔
’’کہاں؟ کس طرح؟‘‘
ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ نرگس کہہ رہی تھی کہ چڑیا کو مت پھینکنا۔ یاسمین اسے قبرستان لیجا کر اپنی نانی کی قبر کے پاس دفن کرنا چاہتی ہے۔
دو دن کے بعد جب ہم دونوں لوسی کو ایک خوبصورت جھولے میں لے کر نرگس کے گھر پہنچے اور یاسمین کے حوالے کیا تو اس سے نظریں ملاتے ہوئے مجھے جھجھک ہو رہی تھی۔ اس دن ہملوگ وہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرے ۔ یاسمین اور اس کی سہیلی یانین ؔنے ایک دفتی کے ڈبے سے ایک چھوٹا سا خوبصورت تابوت بنایا ، اس پررنگ پھیرا، تصویریں چپکائیں اوراس میں لوسی کو رکھ کر قبرستان کی طرف چل دیں۔ یاسمین کی آنکھیں نم تھیں ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اور اس کے ساتھ جائے۔
اگلے دن میں انگرڈ کو لیکر قبرستان پہنچا تو دیکھا کہ میری ساس کی قبر کے پاس لوسی ؔبھی دفن ہے۔ ایک سرخ گلاب کے پھول کی ٹہنی اور ایک چھوٹی سی ہری شاخ وہاںپر قرینے سے رکھی ہے۔ انگرڈ کبھی اپنی ماں کی قبر کو دیکھتی تھی کبھی لوسیؔ کی قبر کو اور اس پررکھے ہوئے گلاب کے پھول کو اور مٹّی کو برابر کرنے لگتی تھی۔
گھر لوٹنے کے بعد میں نے پنجڑے کے قریب پہنچ کر یونی ؔکو پکارا۔ جی چاہاکہ اس کے زرد ملائم پروں کو سہلائوں، گالوں سے لگا لوں مگر وہ ابھی بھی سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔جیوں ہی میں نے پنجڑے میں ہاتھ ڈال کر کہا:
’’الّو کی دُم فاختہ‘‘
وہ اچک کر میری انگلی پربیٹھ گئی مگر فوراً ہی اپنے ڈنڈے پر واپس چلی گئی اورآہستہ سے میری انگلی پر چونچ مار دی۔
پہلے دن کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ ایسا لگا جیسے کوئی بے داغ سفیدچڑیا پنجڑے کے فرش پر لیٹی ہے۔ جیسے کسی فنکار نے ایک مخملی سفید گڑیا بنا کر لٹا دی ہے۔اس کی کھلی آنکھیں گھور رہی ہیں۔ کچھ کہہ رہی ہیں۔ پھر وہ آوازیں بڑھتی گئیں، قریب آتی گئیں، چھت سے لٹکتے ہوئے جھاڑ سے، کپ بورڈ کے پیچھے سے، میرے شانے پرسے اور سارا کمرہ چوں چوں سے گونجنے لگا۔
آج پانچ دن کے بعد انگرڈ کے چہرہ پر ایک بار پھرزندگی اجاگر ہو گئی ہے۔ وہ کہہ رہی ہے:
’’دیکھو ، یونیؔ باہر آ گئی ہے۔ میرے ہاتھ پر بیٹھ گئی ہے۔دیکھو کس طرح بول رہی ہے۔‘‘
اور پھر جب میں نے قریب جا کر کہا:
’’الّو کی دم فاختہ‘‘
تو یونی ؔاڑ کر میرے شانے پر بیٹھ گئی اور نہ جانے کیاکچھ کہنے لگی۔ لیکن میں نے اسے چھونے کی ہمت نہیں کی۔ شاید پہلے، اس کی آواز، اسکی ادائوں اور نگاہوں کے پیغامات کو سمجھنا پڑے گا۔
۳۰ دسمبر ۲۰۰۴

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here