9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
پروفیسر صالحہ رشید
سن ۲۰۲۰ءکی شروعات ہوئی اور ایک وبا نے ساری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔اس وبا کو ہم نے کووِڈ ۔۱۹ یعنی کورونا وائیرس ڈِزیز۔ ۱۹ کے نام سے جانا۔چونکہ ۲۰۱۹ء میں اس کی شروعات ہو چکی تھی اس لئے اس کے ساتھ ۱۹ شامل ہے۔ اس وبا کی جانب عام لوگوں کی توجہ اس وقت اچانک مبذول ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے چائنا وائیرس قرار دیا اور جواب میں چین نے کہا کہ یہ وبا امریکی فوجی افسروں کے ذریعے چین کے شہر ووہان میں پھیلائی گئی ہے۔اس کے ساتھ ہی دنیا کے ہر کورونامتأ ثرہ ملک نے دوسرے ملک پر وبا پھیلانے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ اس دوران اس مہلک وبا نے اتنی تیزی سے اپنے ہاتھ پائوں پسارے کہ کسی کو کچھ سوچنے سمجھنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔اس بیماری سے دفاع کے لئے تمام متأ ثرہ ممالک نے ایک فوری قدم اٹھایا جسے لاک ڈائون کہا گیا۔ ہم سب آج کل اسی کے زیر اثر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ یوں تو لاک ڈائون عوامی مفاد میں نافذ کیا گیا مگر جب زمینی سطح پر اس کے اثرات رونما ہوئے تو وہ تباہ کن رہے۔ ساری دنیا کی معیشت اس قفل بندی سے بری طرح منفی سمت میں چلی گئی۔ہندوستان کی بات کریں تو اس تالا بندی کا فوری اثر ہمارے کامگار طبقے پر نظر آیا۔ یہ وہ کامگار طبقہ ہے جس کافقط دس فیصد ہی منظم شعبے سے وابستہ ہے باقی نوّے فیصد غیر منظّم شعبے میں کام کرتا ہے۔ اسے روز محنت مزدوری کرنی ہوتی ہے اور دو وقت کی روٹی جٹانی ہوتی ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو اپنا گھر بار گائوں دیہات چھوڑ کر شہر کے فٹ پاتھ پر گزر بسر کرتے ہیں۔لاک ڈائون ہو جانے پر ان کے سر پر آسمان تو رہا لیکن پیر رکھنے کوزمین نہ رہی۔غرضکہ ہندوستان کی ایک بڑی آبادی بے یار و مددگار خالی ہاتھ پھٹی پھٹی نگاہوں سے خلاء کو تکنے لگی جس میں اس کا وجود اسے محض ایک صفر نظر آیا۔ اس کس مپرسی کے عالم میں مصیبت کے ماروں کو اپنا گھر اپنے لوگ بری طرح یاد آئے اور وہ سب چل پڑے انجانی راہوں پر۔ہزارہا ہزار کوس دور اپنے کنبے سے جا ملنے۔ بڑی مشکل ڈگر تھی جس پر چل کر نا جانے کتنے بھوکے پیاسے لوگ جاں بحق ہو گئے۔انھیں وائیرس نے نہیں ڈسا تھا بلکہ وہ حلق کی خشکی اور شکم کی نا سیری کا شکار ہوئے تھے۔کچھ نے ان نا مساعد حالات سے مقابلہ نا کر سکنے پر خود ہی دارو رسن کی راہ اختیار کر لی۔کورونا وائیرس کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں کے ساری دنیا کے اعداد و شمار ہر دم ذرائع ابلاغ سے نشر کئے جا رہے ہیں مگر بھوک پیاس سے مرنے والوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔تاریخ ان کے اعداد و شمار سے خالی ہی رہ جائے گی۔حکومت کے اس قدم کو ناعاقبت اندیشانہ قدم قرار دیا جا رہا ہے۔جو بھی ہو جان و مال کا بری طرح خسارہ ہوا ہے۔ان حالات میں دور اندیشی اور پیش بندی جیسے الفاظ بے معنی ہو کر رہ گئے۔ دور اندیشی در اصل مستقبل کی محافظت کا حربہ ہے۔پیش بندی اسی کی مرہون منّت ہے۔ ان دونوں ہی عمل کا پس نظری سے گہرا تعلق ہے۔
جس وقت ہندوستانی عوام کا بڑا طبقہ لاک ڈائون اور سوشل ڈسٹینسنگ جیسی اصطلاحات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مختلف شہروں کی سرحدوں پر دیوانہ وار شہری انتظامیہ سے نبرد آزما تھا اسی وقت تاریخ کے کچھ اوراق میری نگاہوں کے سامنے دفعتاً پھڑ پھڑا نے لگے۔ایسا لگا ان پر اضطرابی کیفیت طاری ہے۔میں حیرت زدہ انھیں تک رہی تھی اور ان کے اضطراب کی وجہ جاننے کی کوشش کر رہی تھی ۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ ان اوراق کو قرار آنے لگا ۔لمحہ نہ گذرا کہ انھیں میں سے چند نے سرگوشی کی کہ ہمیں پڑھ تو لو تاکہ تمھارا اضطراب کچھ کم ہو۔میں نے نا جانے کیوں ایک طفل مکتب کی طرح ان کی یہ بات مان لی۔اگلے ہی پل تاریخ جہاں کشا کے چند اوراق میرے ہاتھ میں تھے۔میں نے انھیں الٹ پلٹ کر دیکھا تو جو حقائق منکشف ہوئے وہ حیران کن تھے۔ملاحظہ فرمائیں ؎
جن دنوں ایران پر سلطان محمد خوارزم شاہ (۱۲۰۰ء تا ۱۲۲۰ء)سریرآرائے تخت تھا، تمرجین نام کا ایک شخص صحرائے گوبی کے منگولیہ سے جو شمالی چین میں واقع ہے، اٹھا اور اس نے تمام منتشر تاتاری اور منگول قبیلوں کو یکجا کر ۱۲۰۶ء میں اپنی سلطنت قائم کر لی۔تمرجین کا مطلب ہے لوہے کا کام کرنے والا۔اس مرد آہن کی پیدائش ۱۶؍ اپریل ۱۱۶۲ء میں ہوئی ۔اس نے ۶۵؍برس عمر پائی تاتاریوں کے شورای ملی کے ایک بڑے مجمع یعنی قوریلتایCOURILTAYنے اسی وقت تمرجین کو چنگیز خان کا لقب دے دیا جس کا معنی فرماں روائے جہان ہوتا ہے۔یہ وہی چنگیز خان ہے جس نے منگول سلطنت کو ایک مضبوط سلطنت کے طور پر متعارف کرایا۔ اس نے فوج کی تنظیم از سر نو کی اور دیگر اداروں کو بھی مضبوط کیا۔چین کو دو مرتبہ تاراج کر اس کے بڑے علاقے پر قابض ہو گیا۔۱۸؍اگست۱۲۲۷ء میں جب اس کی وفات ہوئی تو وہ شمالی چین، وسطی ایشیااور مشرقی فارس کے علاقے فتح کر چکا تھا۔آگے چل کر منگول حکومت مشرقی یوروپ سے مغربی ایشیا تک پھیل گئی۔حتیٰ کہ ۱۳۶۸ء میں اس سلطنت کا زوال ہو گیاجسے ایلخانی سلطنت کے نام سے جانا جاتا تھا۔
ایلخانی سلطنت کا دوسرا بڑا بادشاہ ہلاکو خان ہے جو چنگیز خان کا پوتا ہے ۔اس کی پیدائش ۱۵؍ اکتوبر ۱۲۱۸ء اور وفات ۸ ؍ فروری ۱۲۶۵ء کو ہوئی ۔اس کے زمانے میں ایران میں ایک اسماعیلی گروہ حشاشین نے خونریزی برپا کر رکھی تھی۔ ۱۲۵۶ء میں ہلاکو خان ایران کا حاکم بن کر آیا اور اسماعیلیوں کے آخری بادشاہ خور شاہ کو قتل کر قلعۂ الموت پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد اس نے بغداد کا رخ کیا جو اس وقت شیعہ سنّی فساد میں مبتلا تھا۔اس نے خلیفہ المستعصم باللہ کا قتل کر ۱۲۵۸ء میں خلافت عباسیہ کا خاتمہ کر دیا۔بغداد کو بری طرح تاراج کیا ۔ قتل و غارت کے ساتھ ہی سارے کتب خانے اور بیت الحکمت کو نذر آتش کر دیا باقی کتابوں کو دریا بر د کردیا۔یہاں سے وہ (۱۲۶۰ء)فلسطین کے شہر نابلوس کی جانب بڑھ گیا جہاں اسے شکست ہوئی۔ہلاکو کے بعد اس کا بیٹا اباقا آن تخت نشین ہوا۔ وہ بھی اپنے باپ کی مانند اسلام دشمن تھا۔وہ پوپ اور یوروپ کے حکمرانوں سے قریبی تعلقات رکھتا تھا۔اسی نے عیسائیوں کو بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لئے اکسایا۔اس نے آرمینیوں اور غرجستانیوں کی مدد سے حمص پر حملہ بھی کیا مگر اسے شکست ہوئی۔
تاریخ جہاں کشا چنگیز خاں کی موت کے صرف ۳۳؍ برس بعد یعنی ۱۲۶۲ء میں لکھی گئی۔اس کا مؤلف علاء الدین عطا ملک جوینی بن بہاء الدین محمد (۱۲۲۶ء تا ۱۲۸۳ء) ہے۔ یہ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان (وفات ۱۲۶۵ء ) اور اباقاآن کا درباری ملازم تھا۔یہ ان کی جانب سے عراق عرب اور دوسرے صوبوں کی حکومت پر مقرر تھا۔تاریخ جہاں کشا تین جلدوں پر مشتمل ہے جس میں مغلوں کے اخلاق و عادات ، ان کی فتوحات ، ان کے بادشاہوں بالخصوص چنگیز خان کی زندگی کی تفصیلات درج ہیں۔یہ وہی چنگیز خاں ہے جسے ہم قتل و غارت کا استعارہ جانتے ہیں۔
تاریخ جہاں کشا کا ایک چھوٹا سا باب ’’ذکر قواعدی کہ چنگیز خان بعد از خروج نہاد و یاساہا کہ فرمود‘‘ عنوان سے ہے۔یعنی چنگیز خان جب مہم پر نکلا تو کون سے قاعدے قانون اپنائے اور اس کے ذریعے جاری کئے گئے احکامات کا ذکر۔اس عنوان میں ایک لفظ یاساہا آیا ہے جو چنگیز خان سے منسوب کیا جاتا ہے جیسے یاسای چنگیزی۔ اسے طرز و طریقہ ، قاعدے قانون یا حکم و قرار داد کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔یہ لفظ پہلوی قدیم ، اوستائی، سنسکرت اور چینی زبانوں میں بھی موجود ہے۔اس وقت تاتاری قوم کے پاس لکھنے کا ذریعہ یعنی خط scriptنہیں تھا۔ اس لئے چنگیز خان نے حکم دیا کہ تاتاری لوگ ایغوریوں سے خط سیکھیں۔اس نے اپنی عقل و فہم کے مطابق قانون اور مصلحت طے کی ۔ ہر گناہ کی ایک حد مقرر کی ۔سرقہ اور زنا اس نے بڑے گناہ قرار دئے ۔اس نے اپنے تمام احکام اور قوانین ایغوری خط میں ایک رجسٹر میں درج کروائے ۔ اس رجسٹر کو یاسانامۂ بزرگ کہا جاتا تھا۔ یاسانامہ معتبر شاہزادوں کی نگرانی میں رکھا جاتا تھا۔جب کبھی کوئی خان تخت نشین ہوتا یا کوئی مہم در پیش ہوتی اور بڑا لشکر تیار کرنا ہوتا یا مملکت کے کسی معاملے پر غور و فکر کرنا ہوتا تو اس وقت سارے شاہزادے جمع ہوتے اور یاسانامۂ بزرگ سامنے رکھا جاتا۔اس میں درج قوانین کی روشنی میں معاملات حل کئے جاتے یادشمن پر حملے کے منصوبے اور لشکر کشی کا خاکہ تیار کیا جاتا۔شروعاتی دور میں تمام مغل قبیلے اسی یاسانامے کی بدولت منظم ہوئے۔ چنگیز خان نے ان تمام قبیلوں کی بری رسموں کو ترک کر اچھی رسموں کو اپنا لیا۔
تاریخ جہان کشا محض ایک سیاسی تاریخ نہیں بلکہ جوینی نے اس میں اس وقت کے اجتماعی اور اقتصادی حالات ، شہری معاملات ، ان کے قدیم نام اور جغرافیہ ، وہاں کے لوگوں کی شناخت، مغلوں کی روحیات کی رسم، لشکر سازی، ہتھیاروں کی تقسیم، جنگ کے طریقے ،شکار، ارتباط اداری جیسے یام کا نظام، مالیات، فتوحات، وراثت ،عائلی نظام اور رعایا پر گرفت مضبوط رکھنے کے طریقوں پر روشنی ڈالی ہے۔جوینی چنگیز خاں کی مہمات کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس نے دشمن کو شکست دینے کے لئے جو ترکیبیں وضع کیں وہ اس کے اپنے دماغ کی اختراع تھیں۔اس نے اس معاملے میں کسی کی پیروی نہیں کی تھی۔ ان تراکیب میں سب سے اہم دشمنوں کی شان و شوکت کو توڑنا اور دوستوں کے مرتبے کو بلند کرنا ہے۔ اس کے دشمنوں کی تعداد کثیر تھی مگر اپنی شجاعت و حکمت عملی کے بل بوتے پر اس نے نا جانے کتنے سورمائوں کو نیست و نابود کر دیا تھابالخصوص ترکستان سے لے کر ملک شام تک کی حدود میں آنے والے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ایسا قتل و غارت اور تباہی مچائی کہ جن بستیوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بستے تھے وہاں دس بھی نہ رہے۔
اپنی فتوحات کو یقینی بنانے کے لئے چنگیز خان نے ایک ایسا نظام وضع کیا جس کے تحت پوری رعایا لشکر ہوتی۔دوسری حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس نے ایک ایسا طریقۂ کار اپنایا جس سے اس رعایا یا لشکر کونہ کسی حاضری کے رجسٹر کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی کسی حاضری لینے والے افسر کی۔ بلکہ اس نے یہ عہدہ ہی ختم کر دیا تھا۔ تیسرے یہ کہ دوران جنگ سارے لوگ جنگجو ہوتے اور فراغت کے دنوں میں شکار اور جانوروں سے نفع بخش تجارت کرتے۔اس کی حکمت عملی اس طرح تھی کہ اس نے پوری رعایا کو دس ۔دس کے گروہ میں تقسیم کر دیا ۔ان دس میں سے نو پر ایک سردار مقرر کر دیا۔دس۔ دس کے دس گروہ ملا کر امیر صد اور سو کے دس گروہ ملا کر اس پر امیر ہزار اور دس ہزار کا امیر تومان مقرر کیا۔سب سے چھوٹی اکائی دس والے گروہ کے نو لوگ امیر دہ کے زیر فرمان ہوتے اور اسی طرح بتدریج اوپر پہنچتے ہوئے امیر تومان کے زیر فرمان ہو جاتے۔ کسی شخص کو کوئی ضرورت ہوتی تو وہ امیر دہ کو رجوع کرتا اور اس کی ضرورت کو متذکرہ ترتیب سے آگے پہنچا دیا جاتا۔ پھر وہ اسی ترتیب سے نیچے آتے ہوئے آخری شخص تک پہنچتی۔ اس طرح کسی بھی حاجت کو اوپر سے نیچے تک راست طریقے سے پورا کیا جاتا۔ ہر شخص دوسرے کو زحمت دیتا مگر کسی کو بڑائی کے اظہار کی اجازت نہیں تھی۔سب کو صرف اپنی ذمہ داری نبھانی تھی۔ کوئی بھی شخص اپنا شمار دوسرے گروہ میں نہیں کرا سکتا تھا۔جو جہاں درج ہوا وہیں سے اس کی شناخت ہوتی تھی۔اگر کسی نے انحراف کی کوشش کی تو اسے مجمع میں قتل کر دیا جاتا تھا تاکہ دوسرے عبرت لیں اور نظم و نسق قائم رہے۔ چونکہ تمام رعایا لشکر تھی اس لئے ہر شخص آداب حرب سے واقف ہوتا تھا ۔چھوٹے بڑے شریف وضیع سب شمشیر زن ، تیر انداز اور نیزہ گذار ہوتے ۔جس دم بادشاہ کو لشکر کشی کی ضرورت پڑتی ،بس وہ ایک حکم نافذ کرتا کہ اتنے ہزار لشکر فلاں وقت اور فلاں جگہ اورسب لبیک کہتے۔ آن کی آن میں لشکر حاضر ہو جاتا۔دفاع کا سارا سامان اسلحے ، جانور ، کھانا پینا اور دیگر ضروریات دس سو اور ہزار کے گروہ کی مناسبت سے ترتیب دے دی جاتیں ۔انھیں میں سے ایک لشکر رعایا کی خدمت کے لئے جیسے تنخواہیں وقت پر پہنچانا، ٹیکس وصولنا، کھانے پینے کا انتظام ، یام، جانور اور دیگر اخراجات کے لئے مامور کیا جاتا۔جنگ کے دوران عورتیں ، ضعیف یا بیمار جو گھر پر رہ جاتے وہ ضرورت پڑنے پر اپنا خیال خود رکھتے یا عورتیں باہر نکل کر انتظام کرتیں۔یہ سب ایسی صورت میں انجام پاتا جب بادشاہ اور صد ہزار لشکر کے امیر کے درمیان مشرق اور مغرب کا فاصلہ ہوتا۔اس دورا ن خان ایک سوار الگ سے بھیجتا جو سارے انتظامات کا معائنہ کرتاکہ سب کچھ بموجب حکم خان درست ہے یا نہیں۔ کسی طرح کی کمی ملنے پر سزا بھی دی جاتی۔اس طرح کی ترتیب لشکر جو چنگیز خان کی اولاد میں دیکھنے کو ملی وہ کہیں اور نظر نہ آئی۔ایسا لشکر جو شدت پر صابر اور فراخی پر شاکر رہتا۔لشکر کا امیر حاضر ہو یا غائب ، سب اس کے تابع ہوتے۔نہ کسی کو زمین جائیداد کا لالچ اورنہ ترقی کی خواہش ہوتی۔یہی لشکر ایام جنگ میں پھاڑ کھانے والا چوپایہ ہوتا اور فراغت کے دنوں میں بھیڑوں اور بکریوں سے منافع کماتا۔ سب بے خوف اور آپسی اختلاف سے دور رہتے۔
جس طرح رعایا جنگ کی تربیت حاصل کرتی اسی طرح اسے شکار کے طور طریقے بھی سیکھنے پڑتے۔ جب کوئی مہم درپیش نہ ہوتی تو سب شکار میں مشغول ہوتے ۔یہ از راہ تفنن نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد رعایا کو تیر و خنجر کی مشق کروانا تھا۔ شکار کی جزئیات پر بھی اتنی ہی شدت سے توجہ دی جاتی جتنی جنگی مشق پر۔ خان خود اس میں حصہ لیتا۔ شکار کے لئے جانوروں کی تلاش سے لے کر انھیں گھیر کر لانے کا فن ، دست راست و چپ اور قلب کا تعین ، نرکہ ، خان کے لئے اونچائی پر تخت کا انتظام جہاں سے وہ اور دیگر شہزادے شکار کرتے ،ان سب کا پورا انتظام و اہتمام ہوتا۔ غلطی ہونے پر مثلاً صف سے پائوں باہر نکل گیا یا دائرے سے شکار کا جانور کود کر نکل گیا تو امیر ہزار ، صد اور دہ کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔یہاں بھی سارے اصول و ضوابط جنگی مشق کی طرح ہی نافذ ہوتے تھے۔
جب ان کی سلطنت وسیع ہوئی اور شرق سے غرب تک خبر گیری میں دشواری پیدا ہوئی تو انھوں نے یام قائم کئے۔ہر دو تومان پر ایک یام بنایا گیا ۔یام کا طریقۂ کار اور اس کے اخراجات طے کئے گئے۔اس میں قاصدوں اور جانوروں کے ٹھہرنے کا معقول انتظام کیا گیا ۔یہاں سے سامان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور خبر رسانی کا کام انجام دیا جاتا تھا۔یام کا ہر سال معاینہ ہوتا ۔جو بھی کمی یا خرابی پائی جاتی وہ رعایا کی جانب سے پوری کی جاتی۔ جتنا علاقہ ایک یام کے تحت ہوتا وہاں کے لوگوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی بھی گنتی بالکل اسی طرح کی جاتی جس طرح لشکر کی ہوتی۔
یاسائے چنگیزی میں یہ بھی شامل ہے کہ تمام قبیلے ایک نظر سے دیکھے جائیں۔ایک دوسرے میں فرق نہ کیا جائے اور نہ ایک دوسرے کی مخالفت کی جائے۔چنگیز خاں کسی خاص مذہب و ملت کا تابع نہیں تھا اس لئے ایک کو دوسرے پر فوقیت بھی نہیں دیتا تھا۔بلکہ وہ ہر گروہ کے علماء اور اہل تقویٰ کی تحریم کرتا تھا۔جتنی عزت مسلمانوں کی کرتا اتنی ہی عیسائیوں اور بت پرستوں کی بھی توقیر کرتا تھا۔سرقہ اور زنا کو سخت نا پسند کرتا تھا۔کوئی مر جاتا تو اس کے مال سے کسی کو کوئی تعلق نہ ہوتا۔وہ مال اس کے وارث ، شاگرد یا غلام کو چلا جاتا۔اسے کار نیک سمجھا جاتا۔ایک مرتبہ چنگیز خاں کو دو لڑکوں نے شب خون کی اطلاع دے کر ہلاک ہونے سے بچا لیا تھا۔اس نے ان دونوں کی نو پشت کے لئے مراعات کا اعلان کر دیا۔اس نے شاہی خاندان کے ساتھ لگنے والے طویل القاب و آداب کے سلسلے کو ختم کر دیا۔صرف قاآن یا خان لفظ کا اضافہ شاہی خاندان کے نام کے ساتھ ہوتا تھا۔آگے چل کر ان قبیلوں نے اپنی خواہش کے مطابق مذہب اختیار کر لئے۔ کچھ اپنی قدیم روش پر ہی قائم رہے۔چنگیز خاں نے بعد کے دنوں میں آس پاس کے حکمرانوں کو اپنے پرچم تلے آنے کی دعوت دی ۔ان لوگوں نے قبول کیا تو ٹھیک ورنہ یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اس معاملے کو اللہ سمجھے ۔
یاسائے چنگیزی کی ہلکی سی جھلک میں حکومت سازی ، مردم شماری، جانور شماری، فوجی نظام، مالیات ،رعایا کی ہر ضرورت کا خیال، غلطی کی سزابڑے امیر سے شروع ہو کر چھوٹے تک آنا، اچھی رسومات کا ماننا اور بری کو ترک کر دینا، دیگر مذاہب کا احترام، دکھاوے سے اجتناب، چوری اور زنا گناہ، جائیداد اور مرتبے کی خواہش نہ ہونا، قوانین کا تحریری شکل میں ہونا ، معاملات کو یاسائے بزرگ کی مدد سے حل کرناوغیرہ چند نکتے سامنے آئے جنھوں نے ہمیں آئینہ دکھایا ہے۔لاشعوری طور پر تاریخ جہاں کشا کے ان چند اوراق نے مجھے بحیثیت قاری ساڑھے سات سو برس قبل کے اس خطے میں پہنچا دیا جو اس وقت کا چین تھا اور وہیں سے ایک انجان سے قبیلے کا شخص آندھی کا بگولہ بن کر اٹھا اور کسی کے روکے نہ رکا ، کسی کے تھامے نہ تھما۔اس نے جو چاہا وہ حاصل کیا۔فتح اس کا مقدر بنتی چلی گئی۔ہاں اس کی حکمت عملی ایسی ہی تھی جس نے اسے غضب کی خود اعتمادی بخش دی تھی۔کیا تاریخ آج خود کو دہرانے پر آمادہ ہے؟
(صدر شعبۂ عربی و فارسی ،الہ آباد یونیورسٹی)