شرم تم کو مگر نہیں آتی

0
92

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

نور الدین احمد

کہتے ہیں کہ میڈیا کسی بھی جمہوریت کا چوتھا ستون ہوتا ہے، اس کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اگر عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اپنے فرائض میں کوتاہی کریں تو میڈیا اس کی نقاب کشائی کرے، اور جمہوری تقاضوں کو برتے جانے کی اپیل کرے۔اسی طرح سماجی تانے بانے کو یکساں اور متحد رکھنے کی بھی سعی کرے۔ مذہبی، لسانی اور تہذیبی تنوعات کے با وجود معاشرتی ہم آہنگی، اور قومی مسائل میں یکساں تعمیری نقطہ نظر سے جمہوریت کو توازن اور وقار ملتا ہے۔اس کے برعکس فرقہ واریت، مذہبی اور لسانی عصبیت سے ملک کمزور ہوتا ہے ۔اس کے ترقیاتی امکانات متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی طاقتیں انتشار اور خلجان کا شکار ہوجاتی ہیں،اس عصبیت کی شکار جماعتوں کا یقین جمہوری اداروں سے اٹھنے لگتا ہے ۔اور انہیں ملک سے انتساب کا جو افتخار ہوتا ہے اس کا احساس کمزور پڑنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک کی واقعیت اور عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہاں اقلیتوں کے ساتھ اقتدار اعلی اور اکثریتی طبقہ کا سلوک کیسا ہے۔اقلیتوں کے حقوق اور مراعات کے ساتھ میڈیا کا نقطہ نظر کیا ہے۔
آج جب کہ پوری دنیا کی جہموریتیں پورے اتحاد و اتفاق کے ساتھ کرونا جیسی عالمی وبا سے نپٹنے کے لئے کوشاں اور فکر مند ہیں اور پوری انسانی ذہن و فکر اس کے اسباب و عوامل کو جاننے اور تدابیر و نجات پانے کی فکر میں غلطاں ہے وہیں انڈین میڈیا حسب دستور فرقہ پرستی کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے اور کرونا کا اسلامی رشتہ ڈھونڈنے کی پوری کوشش کررہا ہے ،ظاہر سی بات ہے ایک سو تیس کروڑ کے ملک میں جہاں مختلف الحیثیات لوگ رہتے وہاں اچانک لاک ڈاؤن اور پبلک ٹرانسپورٹ کے تعطل سے پریشانیاں تو ہوں گی غفلتوں کا بھی امکان ہے اور کوتاہیوں کا بھی بسا اوقات ہدایات پر عمل ممکن بھی نہیں رہے گا ایسے حالات میں اگر خلاف ہدایت کوئی حادثہ سرزد ہوتا ہے تو سرکار کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلا تفریق مذہب و ملت اسباب کا معروضیت کے ساتھ تجزیہ کرے اور ساتھ ہی ایسے متبادل وسائل فراہم کرے جس ہدایات پر عمل کرنا ممکن ہو،یہ نا ہو کہ ان کے مذہبی تشخصات کو جرم ٹہراکر کرونا کی جڑیں ان کے مذہبی وجود میں تلاش کی جانے لگیں۔ہندوستان کا میڈیا یہی کر رہا ہے ،ہندو مسلم مذاکرات کا وہ اس قدر رسیا ہوچکا ہےکہ کرونا جہاد جیسی نفرت انگیز ہیڈنگ لگا کر اپنے مسلم مخالف ذہنیت کا کھلا ثبوت پیش کر رہا ہے۔ایسے ہوش ربا ماحول میں بھی وہ ایک مخصوص فرقہ کے متعلق مفروضات کی تبلیغ و اشاعت میں لگا ہوا ہے اس کی ذمہ داری تو یہ تھی کہ وہ سرکار کی قصیدہ خوانی اور مسلمانوں کے خلاف بدزبانی کرنے کے بجائے سرکار تیاروں کا معروضی جائزہ لیتا اور یہ جاننے اور بتانے کی کوشش کرتا کہ سرکاری تیاریاں کس حد تک عالمی معیار اور تقاضوں کو پورا کرتی ہیں ،مطلوبہ وینٹیلیٹر کی دستیابی ہے بھی یا نہیں،خدا نخواستہ کرونا کے کمیونٹی ٹرانسمیشن میں داخل ہونے کی صورت میں سرکار کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟؟عارضی اضافی اسپتالوں کی کیا تیاری ہے ،قابل ڈاکٹروں کی فراہمی کا کیا عالم ہے،لیکن یہ سب کرنے کے بجائے سارا زور اور شور اس بات پر ہے مولانا سعد ہیں کہاں انکی پراپرٹی کتنی ہے فارم ہاؤس کیسا ہے گاڑیاں کتنی ہیں اور اس جماعت کے قومی اور بین الاقوامی رشتے کیسے ہیں غرض کہ میڈیا کی پوری توجہات کا مرکز تبلیغی جماعت کا مرکز ہے صرف اس لئے کہ اس کا انتساب نام نہاد ہی سی اسلام اور مسلمانوں سے ہے اور اس مسئلے پر ہفوات و بکواس کے ذریعے عوامی اذہان کو سرکار کی نا اہلی اور نکمہ پن سے ہٹایا جاسکتا ہے۔

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here