9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد فیروز عالم علائی
ظاہری حسن اور خوبصورتی نہیں،دیدہ زیب خدوخال نہیں بلکہ وہ خوبیاں جو انسان کے عمل سے ظاہر ہوتی ہیں شخصیت کی اصل خوبصورتی ہے، حسن سلوک اور حسن عمل جو دوسرے انسانوں کو متاثر کرتا ہے شخصیت کا حقیقی حصہ ہوتا ہے ۔آسان الفاظ میں تعاون۔زندگی میں ہم آہنگی پیدا کرنا شخصیت کا حقیقی روپ ہے۔یہ وصف حضور امام العلماء کے زندگی کی میں بدرجہ اتم موجود تھا۔امام العلماء کا شمار سرزمین بنگال (اسلام پور) کے قادرالکلام اور مستند علماء کرام میں ہوتا ہے،آپ ایک کامل الفن استاد ،اعلٰی پایہ کے خطیب،طبیب حازق وعامل ،مفکر قوم و ملت تھے،ان بلند وبالا اوصاف کے باوجود نام و نمود ،کبر و نخوت، غرور و گھمنڈ کا کہیں نام و نشان تک نہیں بلکہ کہ علم دوستی ،غرباپروری، علماء نوازی، مہمان نوازی،خلوص وللہیت اخلاق و کریکٹر کے زبردست دھنی تھے ،الغرض امام العلماء کی شخصیت کا ہر پہلو روشن اور تابناک تھا۔بالکل تراشے ہوئے ہیرے کی طرح آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔
نام والقاب
اسم گرامی، احمد حسین نوری، القاب۔طوطیٔ بنگال(یہ لقب استاذ العلماء حضور مفتی نصیرالدین علیہ الرحمہ نے دیا تھا)امام العلماء (یہ لقب حضرت علامہ ڈاکٹر سید جلال الدین اشرف الاشرفی الجیلانی نے دیا تھا) اسکے علاوہ اپنے دیار میںاستاذ العلماء اوربڑے مولانا سے آپکی ذات متعارف تھی، آپ زمانہ میںبڑے مولاناکے لقب سے مشہور تھے۔
تاریخ ولادت
امام العلماء کی پیدائش یکم /جنوری ١٩٣٨ء کو اپنے وقت کی نہایت عبقری شخصیت حکیم ،صوفی ،منشی محمد تعظیم الدین کے گھر بمقام لکھی پور، اسلام پور بنگال میں ہوئی۔ آپ کا گھرانہ صرف متمول ہی نہیں بلکہ علم و ادب کا گہوارہ بھی تھا، اور اسی علمی ادبی ماحول میں آپ کی پرورش ہوئی۔
تحصیل علم
امام العلماء کا تعلیمی سفر ابتداء ہی سے نہایت درخشندہ و تابندہ رہا، آپ کے والدین نےآپ کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی چنانچہ آپ کی ابتدائی تعلیم کی تکمیل دار العلوم گلشن حبیب دیگھل گاؤں ،اور دارالعلوم اسلامیہ عارفیہ میں ہوئی، اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں داخلہ لیا، اور درمیانی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف کی جانب روانہ ہوئے اور وہاں اپنا درس پوری محنت ولگن کے ساتھ جاری رکھا ۔قرآن و حدیث، تفسیر و فقہ میں مہارت وممارست پیدا کرنے کے لئے دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف کی طرف متوجہ ہوئے درس نظامیہ اور فقہ و اصول فقہ کی تعلیم کی تکمیل کی اور سن ١٩٦٧ء میں دستارفضیلت اور سند فراغت سے نوازے گئے، زمانہ طالب علمی میں آپ اپنے اساتذہ کے لئےایک اعلیٰ نمونہ مثال تھے، اورہمیشہ امتیازی پوزیشن کےساتھ کامیاب ہوئے ، استاذ العلماء علامہ نصیرالدین ۔۔۔۔فرماتے ہیں “مولانا احمد حسین نوری میرے بڑے لائق وفائق، مطیع و فرمانبردار شاگرد ہیں “(امام العلماء نمبر) **امام العلماء پر مفتی اعظم ہند کا فیض***
امام العلماء نے مفتی اعظم ہند کی بارگاہ میں ایک لمبا زمانہ گزارا،ان کی صبح و شام دیکھا، عبادت و ریاضت، تقویٰ و طہارت،علم و فن، فضل وکمال دیکھا اور بے مثال پایا۔سچ کہا کسی نے ۔۔
متقی بن کر دکھائے اس زمانے میں کوئی
اک میرے مفتی اعظم کا تقوی چھوڑ کر
خود مفتی اعظم ہند بایں کمال وجلال حضور امام العلماء سے ہہت محبت و کرم فرماتے تھے۔ایسی بارگاہ کی چند ساعت جسے نصیب ہو جائے وہ زندگی بھر ناز کرے، امام العلماء نے چند ساعت وگھنٹہ نہیں بلکہ سر چشمۂ علم و عرفان کی بارگاہ قدس میں جاکر ٤/سال گزارا اور “فیض نوری ” کا تمغہ حاصل کیا تو امام العلماء کامقام و مرتبہ اگر امتیازی شان کا ہو تو اس میں تعجب کیا ہے ؟
اہل معرفتِ فرماتے ہیں:
ایک زمانہ صحبت بااولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
امام العلماء بارگاہ مفتی اعظم ہند کی کرم و نوازش کو یوں اجاگر کر تے ہیں۔۔۔ “بندۂ ناچیز نے بڑے بڑے علم وفضل ،شریعت و طریقت کے تاجور دیکھے ہیں اور استفادہ کیے ہیں مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی ،خواجہ مظفرحسین رضوی ،مفتی اعظم ہند، بحرالعلوم مفتی افضل حسین علیہم الرحمۃ والرضوان حتیٰ کہ سرکار مفتی اعظم ہند جن کے علم و فضل کا اعتراف عرب و عجم کو تھا وہ عالم نہیں علم، متقی نہیں تقویٰ ، مفسر نہیں تفسیر تھے، اور حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اعلیٰ حضرت کے علوم و فنون کے امین ونقیب اور ترجمان تھے ۔ان کی بارگاہ میں ایک عرصہ سے رہا کتابیں پڑھیں اور بحیثیت ناقل فتویٰ بھی نقل کرتا رہا میں کاتب ہونے پر فخر کر سکتا ہوں کہ حضور مجھ سے بہت محبت و کرم فرماتے تھے ۔( ماخوذ دوہمہ جہت شخصیتیں ۔۔۔از مفتی خالد کمال مصباحی)
شرف بیعت
آپ کو نبیر اعلیٰ حضرت اشرفی میاں حضور اشرف الاولیاء حضرت علامہ مولانا سید شاہ محمد مجتبٰی اشرف الاشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل تھا، اور بارگاہ مفتی اعظم ہند سے “نوری “کا انعام۔۔
درس وتدریس
فراغت کے بعد جب اپنے شعور کی آنکھوں سے اپنے اطراف و اکناف کا جائزہ لیا توآپ کے سامنے ایک معاشرہ تھا جو اسلامی تعلیمی ماحول سے کوسوں دور اور انگریزی رہن سہن سے قریب ، جو اسلامی تعلیمی ماحول کو ختم کرنے پر تُلا تھا ،آپ نے ان مساںٔل کو دیکھتے ہوئے علاقے کے دارالعلوم اشرف العلوم لکھی پوربازار میں بحثیت صدر کا عہدہ قبول کیا اور ٤٥/سال تک اس ادارہ میں خدمات انجام دیکر ایک سے بڑھ کر ایک چراغ کو روشن کئے اور تعلیمی میدان میں ایک انقلاب پیدا کردیا، آپ کی درسگاہ کے خوشہ چیں،فیض یافتہ حضرات جماعت اہلسنت کی عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں ،یہاں صرف چند مخصوص تلامذہ کا ذکر کرتے ہیں۔ شہزادہ امام العلماء حضرت علامہ مفتی خالد کمال مصباحی ( ناظم اعلیٰ دارالعلوم اشرف العلوم لکھی پوربازار، و سابق مدرس مخدوم اشرف مشن پندوہ شریف ) حضرت مولانا آزاد حسین نوری ( خطیب وامام ناسک مہاراشٹر) حضرت مولانا حصیر الدین (خطیب وامام دہلی ) حضرت مولانا خادم الاسلام ( خطیب و امام گجرات) آپکی تدریسی و تبلیغی خدمات کو دیکھتے ہوئے مفتی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی زین الحق اشرفی فرماتے ہیں۔۔۔۔”مولانا نوری قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے نہ صرف ہماری کمی پوری کردی بلکہ امید سے زیادہ خدمات انجام دی” ۔
دینی خدمات
نگاہ فطرت میں درحقیقت وہ زندگی زندگی نہیں ہے
جو دوسروں کے کام نہ آسکے، وہ آدمی آدمی نہیں ہے (ایوب ذوقی)
آپ کی حیات طیبہ اس شعر کے مصداق بنی رہی-
آپ نے پوری زندگی علاقے کے عوام کے لئے صرف کردی۔
آپ کا مشن صوفیاءکے طرزعمل پر اشاعت دینِ حق،اور اہلسنت کو فروغ دینا تھا ۔اس مشن کے لئےآپ نے ملک بیرونِ ملک کے دورے کئے ۔بطور خاص۔ بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، ملک کے اندر مختلف خطے میں۔ دہلی ،پورنیہ، کشنگنج ،کٹیہار، کولکاتا ،سلی گوڑی، جلپائی گوڑی،دارجلنگ وغیرہ میں کامیاب تقریر و تبلیغ کی ۔جن مبلغین اسلام وپیران طریقت کے ساتھ دورہ رہا ان میں سے چند اسماۓ گرامی یہ ہیں۔ حضرت علامہ مولانا مشتاق احمد نظامی، مجاہد دوراں ، حضرت علامہ مظفرحسین اشرفی حضور اشرف الاولیاء حضرت علامہ مولانا سید شاہ محمد مجتبٰی اشرف الاشرفی الجیلانی علیہم الرحمۃ والرضوان ،شیخ السلام حضور مدنی میاں، غازی ملت حضرت علامہ ہاشمی میاں زیادہ تر حضور اشرف الاولیاء کے ساتھ رہے ۔
ملی خدمات
تنظیم اصلاح المسلمین رام گنج بازار کے صدر ،رویت ہلال کمیٹی کے محرک تھے ،تحریک اصلاح معاشرہ کے سرپرست اعلیٰ آپ ہی کی ذات ستودہ صفات تھی ،ان کے علاوہ درجنوں مدرسوں و مساجد ،انجمنوں کی بنیاد حضور اشرف الاولیاءو حضور تاج الاولیاء کے ہاتھوں عمل میں آئی مگر خون جگر جلا کر برف پگھلانے اور مٹی نم کرنے میں آپ کا کردار نمایاں تھا۔
امامت و قیادت
فراغت کے بعد سے مکمل 45سال جمعہ و عیدین کی امامت کے ساتھ سماج کے ہر سیاسی ،سماجی مسائل میں قیادت فرمائیں ۔بلامبالغہ چوپڑا بلاک کے اندر سب سے بڑی جماعت آپ ہی کی تھی۔اسی وجہ سے سماج کے اندر سے باہر تک آپ کا زبردست اثرورسوخ تھا،اور اہل سنت کو بہت زیادہ فروغ ملا ۔
تقوی و طہارت
بارگاہ مفتی اعظم ہند کی چار سالہ تربیت نے آپ کے ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم کو بھی پاکیزہ کردیا یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اسوۂ حسنہ پر تھا۔
امام العلماء:جہان علم و دانش کی نظر میں
•حضور اشرف الاولیاسید شاہ محمد مجتبٰی اشرف الاشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ:ایک دفعہ امام العلماء کی دل پذیر خطابت کے بعد آپ مجمع سے یوں مخاطب ہوئے: “مولانا نوری کی جادو بیانی کا کوئی جواب نہیں ۔انہیں کوئی بھی ا کھڑی ہوئی محفل دے دو وہ ازسرنو قائم ہوجاتی ہے۔
•حضور علامہ مفتی نصیرالدین علیہ الرحمہ: “مولانا نوری میرے لائق وفائق مطیع و فرماں بردار شاگرد ہیں جب بھی بنگال کا تذکرہ فرماتے تو آپ کو طوطیٔ بنگال کہہ کر یاد فرماتے-
•بحرالعلوم مفتی عبدالمنان علیہ الرحمہ:امام العلماء کی نماز جنازہ حضور بحرالعلوم نے پڑھائی تھی ،نمازِ جنازہ میں خلقت کا ہجوم دیکھ کر کافی متاثر ہوئے تھے،دمِ رخصت شہزادہ امام العلماءسے فرمایا ؛جناب والا! ٓپ کے والد تو بڑے مرجع خلائق عالم دین تھے۔
•تاج الاولیاء الحاج حضرت علامہ ڈاکٹرسید شاہ محمد جلال الدین اشرف الاشرفی الجیلانی نے فرمایا : “مولانا نوری کی شخصیت تبلیغی خدمات کے اعتبار سے مسلم تھی،تبلیغی راستوں کی سہولتیں نہ ہونے کے باوجود انہوں نے قابل قدر کارنامے انجام دیے ۔مولانا نوری کی وفات دین و سنیت کی خدمات کے حوالے سے ایک عظیم خسارہ ہے اور ایک ایسا خلا ہے جو مشکل سے پر ہوگا۔
•حضرت علامہ مولانا مفتی عبدالقدوس صاحب مصباحی( شیخ الحدیث دارالعلوم شیخ احمد کٹھو،گجرات) نے کہا کہ :” امام العلماء سے کبھی بالمشافہ میری ملاقات نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی میں نے ان کی حیات و خدمات کا مطالعہ کیامگر جنازے میں اولاد آدم کا ہجوم دیکھا تو بخاری شریف کی “قبول فی الارض “حدیث پر ایمان تازہ ہوگیاکہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حدیث پاک میں نشاندہی کی گئی ہے” ۔
•فقیہ عصر حضرت مفتی آل مصطفیٰ مصباحی (صدر افتاء جامعہ امجدیہ گھوسی، یوپی )نے کہا : “مولانا موصوف علیہ الرحمہ ایک باصلاحیت عالم دین تھے انہوں نے تقریبا 45 /سال تک تدریسی فرائض انجام دیئے اور سیکڑوں علماء پیدا کیٔے ،وہ ایک بہترین داعی و مبلغ تھے، جنہوں نے بنگال کے اس کوردہ علاقے میں اسلام و سنیت کا پیغام پہونچا یا اس خلوص سے کہ ۔۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ، وہ ایک متواضع اور مخلص عالم دین تھےجن کی زندگی کا مقصد اشاعت علم واشاعت سنیت تھا۔
• ماہر علم و فن حضرت علامہ مفتی رفیق الاسلام صاحب کانپوری ( شیخ الحدیث الجامعۃ العربیہ غوثیہ کانپور، یوپی)نے کہا :”صف علماء میں تو آپ کی شخصیت نمایاں تھی ہی لیکن سیاسی زعماء بھی آپ کے سامنے لب کشائی کی جرات نہیں کر سکتے تھے۔یہ آپ کی مقبولیت کا ہی اثر تھا۔
•حضرت علامہ مفتی محسن رضا (خادم درس وتدریس وافتاء دارالعلوم انور مصطفے رضا ،دھرول ، گجرات ):
“پیکر صدق و صفا،خطیب ذیشان،واعظ شیرین بیان، طوطیٔ بنگال گوناگوں صلاحیتوں کے مالک اور متعدد خوبیوں کے حامل تھے،وہ اپنے دور کے ایک بہترین عالم باعمل بھی تھے ،فاضل جلیل بھی، کامیاب مدرس بھی تھے ،اورقوم و ملت کے ہمدرد و مصلح ،اسلام و مسلمین کے روشن دماغ مبلغ ومفکر بھی تھے ،اہلسنت کے بیباک ترجمان و قاںٔد بھی اور اکابر ومشائخ کرام کے مقبول ومنتخب نظر بھی”.
•حضرت علامہ مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی(پرنسپل مدرسہ عربیہ یہ اہل سنت منظراسلام،التفات گنج ، امبیڈکر نگر، یوپی):
امام العلماء کی حیات وخدمات، مقبولیت ومرجعیت کا میں نے قریب سے مشاہدہ کیا، جس کی بنا پر میں یہ کہنے پر حق بجانب ہوں کہ موصوف اپنے دیارکے”شیخ اعظم” تھے آپ کا قول، قول فیصل،آپ کا فرمان، فرمان شاہی ہوتا تھا۔
•حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کمال الدین مصباحی (صدر شعبۂ افتاء ادارہ شرعیہ ، راۓ بریلی ،اتر پردیش ):”آپ کی تدریسی ،تقریری، تبلیغی، مسلم خدمات تقریبا نصف صدی پر محیط ہے۔ جن خدمات سے متاثر ہو کر آپ کو خواص و عوام نے “امام العلماء” “طوطیٔ بنگال” “استاذالعلماء” “بڑے مولانا “کے القاب و خطابات سے نوازا” ۔
(مآخذ امام العلماء نمبر ،ص ٦٩/٧٠)
**زیارت حرمین شریفین **
٢٧/نومبر سن٢٠٠٧ ء میں حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے..
وصال پرملال
ہارڈکے مرض میں دہلی ایمس میں ایڈمیٹ ہوئے حیات مستعار کے ایام پورے چکے تھے، بروز جمعرات صبح ٧بجے بلبل ہزار داستاں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیۓ !! اناللہ وانا الیہ راجعون!
نماز جنازہ
بروج سنیچر بعد نماز عصر بحرالعلوم و فنون مفتی عبدالمنان علیہ الرحمہ نے نماز جنازہ پڑھائی ،سرکاری رپورٹ کے مطابق نماز جنازہ میں تیس ہزار کا مجمع تھا جن میں ارباب حل و عقد سیاست و صحافت کی تعداد بھی خاص تھی۔
عرس امام العلماء
ہر سال 29/اپریل کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ عرس امام العلماء منایا جاتا ہے، زائرین و معتقدین بارگاہ امام العلماء کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے ہیں۔۔۔
(مآخذ:امام العلماء نمبر)
( شبعۂ اردو،کلکتہ یونیورسٹی)
Mob.8910465097
Email. [email protected]