9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر بنو عباس رضوی وفاؔ لکھنوی
دل میں اُمید ابھی باقی ہے
قید ہستی کے اندھیروں کو مٹائوں کیسے
آندھیوں سے میں چراغوں کو بچائوں کیسے
ہر طرف صرف اندھیرے ہی نظر آتے ہیں
گردشِ وقت کا پہرا ہے جدھر جاتے ہیں
ملک کا حال یہ دیکھا نہیں جاتا ہم سے
دور تک دیکھو تو سناٹے ہی سناٹے ہیں
گھر جو آباد تھے وہ آج سب ویرانے ہیں
ہر طرف دیکھئے بس موت کے افسانے ہیں
زندگی جو کبھی ہم لوگوں سے ہی زندہ تھی
آج ہم سب بس اُسی زندگی کے مارے ہیں
مشکلیں سر پر عجب شان سے ٹوٹیں ہم پر
کوئی تیار نہیں ہاتھ پکڑنے کے لئے
خوف کی ایسی زمانے میں چلی ہیں ہوائیں
کچھ سمجھ آتا نہیں ہے کہ اب کدھر جائیں
ہاں… مگر دل میں ایک اُمید ابھی باقی ہے
رات گذرے گی تو پھر صبح ضرور آئے گی
اِن اندھیروں سے ہی سورج بھی کبھی نکلے گا
سہمے سہمے ہوئے ہونٹوں پہ ہنسی آئے گی
چاندنی چاند بچھائے گا ہر ایک آنگن میں
جتنی بگڑی ہوئی حالت ہے سنور جائے گی
پھر ایک بار گلے ملنے لگیں گے سب لوگ
پھر وفاؔ ملک میں پہلی سی بہار آئے گی
ٹیکس تعین افسر،نگرنگم
7395059699