جالال حیدر اعظمی
ملت کا آسمان تھا باقی نہیں رہا
سب کے دلوں کی جان تھا باقی نہیں رہا
بن کر وہ آفتاب زمانے پہ چھا گیا
خود میں وہ اک جہان تھا باقی نہیں رہا
جن کی ضیاء کی عکس سے روشن تھا ماہتاب
وہ فخر خاندان تھا باقی نہیں رہا
صحن چمن کا ایک حسین تر گلاب تھا
گلشن کی آن بان تھا باقی نہیں رہا
مداح اہل بیت تھا شیدا حسین ؑ کا
ماہ عزا کی شان تھا باقی نہیں رہا
مومن کا دم نکلتا ہے خوشبو کی طرح سے
خود اس کا ہی بیان تھا باقی نہیں رہا
علم و ہنر کا راگ سناتا تھا قوم کو
پیش نظر قرآن تھا باقی نہیں رہا
اخبار اودھ نامہ کو پہچان دے گیا
علم و ادب کی شان تھا باقی نہیں رہا
ہر ایک نیک کام میں رہتا تھا راہبر
ہر بزم کی وہ جان تھا باقی نہیں رہا
ہونٹوں پہ اپنے حرف شکایت نہ لاتا تھا
وہ کتنا بے زبان تھا باقی نہیں رہا
بیٹے تری جدائی سے مرجھا کے رہ گئے
تو سب کا باغبان تھا باقی نہیں رہا
درد چراغ بن کے نکلتی ہے دل سے آہ
وہ لولو و مرجان تھا باقی نہیں رہا
کس کو ثواب ملتا ہے فانی جہان میں
مرسل کا خاندان تھا باقی نہیں رہا
زوجہ نے صبر کرلیا مرضی جو رب کی تھی
یہ سخت امتحان تھا باقی نہیں رہا
صبر جمیل ہو عطا ذکر حسین ؑ نے
جو کبریا کی شان تھا باقی نہیں رہا
سب بیٹیوں کا دل ہے جدائی سے بے قرار
سارے عزیز و اقربا کرتے ہیں شور و شین
ہم سب کا میزبان تھا باقی نہیں رہا
وہ سب کا سائبان تھا باقی نہیں رہا
بھائی بھتیجے بھانجے سب دل ملول ہیں
وہ کتنا مہربان تھا باقی نہیں رہا
خدمت میں خلق کے ہی گذاری تھی زندگی
اب رب کا مہمان تھا باقی نہیں رہا
رکھتا جلالؔ مجھ کو وہ دل سے عزیز تھا
مجھ کو بھی اطمینان تھا باقی نہیں رہا