غزل

0
128

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


انیس اشفاق

جس کو بھی دیکھئے اسے مرنے کا خوف ہے

کیا قہر ہے کہ جاں کے گذرنے کا خوف ہے
جس کو بھی دیکھئے اسے مرنے کا خوف ہے
کچھ خوف ہے ہمیں تو پس پردۂ وجود
خورشید مرگ تیرے ابھرنے کا خوف ہے
اس زندگی کے آئینہ خانے میں صبح و شام
رقاصۂ اجل کے سنورنےکا خوف ہے
صحن چمن میں برگ کا چہرہ ہوا ہے زرد
ہر شاخ ِگل پہ گل کو بکھرنے کا خوف ہے
پہلے گلہ یہ تھا کہ بہت کم شراب ہے
اب میکشوں کو جام کے بھرنے کا خوف ہے
گرمی وہ ہے کہ خشک ہوا جارہا ہے آب
چڑھتی ہوئی ندی کو اترنے کا خوف ہے
اب تک تو خوب جلتی رہی شمعِ زندگی
لیکن اب اس کی لو کو کترنے کا خوف ہے
یوں ہی بڑھا تو پھر نہ رکے گا فنا کا سیل
دریائے نیستی کے بپھرنے کا خوف ہے
ہوتی ہے جس نفس سے شب و روز گفتگو
اب اس نفس سے بات نہ کرنے کا خوف ہے
جس جا ہیں نصب موت کے خیمے وہیں انیسؔ
سارے مسافروں کے ٹھہرنے کاخوف ہے
گومتی نگر،لکھنؤ
9451310098

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here