نقوش دل کا تجزیاتی مطالعہ

0
81

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

صالحہ صدیقی

’نقوش دل ‘دل تاج محلی کی تحریروں کا ایسا مجموعہ ہیں جس میں فکشن ،افسانے ،کہانیاں ،مقالے اور قطعات شامل ہیں ۔یعنی یہ ان کی تحریروں کا ایک ایسا گلدستہ ہیں جس میں ہر رنگ کو دیکھا جا سکتا ہیں ۔اس کتاب میں شامل تمام تحریریں مختلف عنوانات اور موضوعات پر مشتمل ہیں ،کچھ ہنساتی ہے تو کچھ رلاتی ہے تو کچھ غور و فکر کرنے پر مجبور کرتی ہیں ۔اس کتاب میں کل 26نثری تخلیقات و قطعات شامل ہیں اس کے علاوہ دل تاج محلی کا سوانحی کوائف،ان کے خیالات اور چشمہ فاروقی صاحبہ کا ایک دلچسپ معلوماتی انٹر ویو بھی شامل ہے۔یہ انٹر ویوں دل تاج محلی کی زندگی کا ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں ان کی رنگ برنگی تصویر دیکھی جا سکتی ہے ۔
ان کی شعری و نثری تخلیقات کی دنیا کا جائزہ لینے سے قبل ان کی سوانح پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔کیونکہ کسی بھی مصنف یا تخلیق کا ر کو عام انسان سے تخلیق کار بننے میں اس کی ذاتی زندگی،عہد و ماحول ،اس کے معاشرے کے حالات و واقعات کے اثرات اہم رول ادا کرتے ہیں۔یہ جاننا دلچسپ بھی ہوتا ہے کہ وہ کون سے وجوہات رہے ہونگے جس کے باعث ایک عام انسان سے تخلیق کار بننے تک کے مراحل کوئی مصنف طے کرتا ہیں۔ان کا اصل نام مرزا وسیم بیگ چغتائی اور تخلص دلؔ تاج محلی ہے،والد کا نام حافظ مرزا بند و بیگ چغتائی ۔دل تاج محلی ڈویژنل مینیجر اسٹیٹ لیدر کارپوریشن حکومت ارتپردیش سے وابستہ ہونے کے باوجود ادبی سرگرمیوں میں لگے رہے اور اپنی ادبی خدمات بحیثیت شاعری و نثر انجام دیتے رہے ۔ان کی پہلی غزل 1954ء میں ’’خاتون مشرق ‘‘ میں شائع ہوئی ۔جس کے بعد ان کے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ رواں دواں ہو گیا جو آج تک بدستور جاری و ساری ہے۔ان کی شعری تصنیف میں شامل ہیں’’ زخم دل‘‘ (1990) اس کے علاوہ افسانوں کا مجمو’’عہ احساسات ‘‘نقوش دل (2010)انگریزی مضامین و افسانے کا مجموعہ ’’فال آف ورچو‘‘(2005)۔ان کے اعزازات و انعامات ،خطابات کی بھی طویل فہرست ہیں جن میںشامل ہیںملک و بیرون ممالک بھی شامل ہیں مثلا:
1955’’شاعر محبت ‘‘ بدست ڈویژن کمشنر ،آگرہ۔
1987’ادبی خدمات ‘‘ بزم سخن ،کویت۔
1998نقد انعام 2500 حکومت اتر پردیش۔
2004فراق ایوارڈ ،آگرہ۔
2008انوار ادب علی گڑہ نمائش آذرا اکاڈمی۔
2008مولانا محمد علی جوہر ایوارڈ ،برائے ادبی خدمات ،لکھنؤ۔
2009آذررتن ایوارڈ ،علی گڑھ ،ہ نمائش آذرا اکاڈمی۔
2011شہر یار ادب ایوارڈ ،شیدائے ادب متھرا۔
2011شان غالب ایوارڈ ،مرزا غالب ریسرچ اکیڈمی ،آگرہ۔
2012کیف مراد آبادی ایوارڈ ،مراد آباد۔
2017انجمن ترقی اردو،شاخ رامپور۔
2017گوشۂ ماہنامہ ’’بیباک ‘‘ مالیگاؤں ۔
اگر بات کرے ان کے افسانوں کی تو اس مجموعہ کے تمام افسانے اس روانگی اور بط کے ساتھ تحریر کیا گیاہے کہ مرکزی کردار سے لے کر ذیلی کردار تک ایک دوسرے سے مربوط دکھائی دیتے ہیں ۔ساتھ ہی ان کرداروں میںکشمکش و تصادم کی کیفیت کو بھی قائم رکھا گیا ہے تاکہ قاری تجسس کے ساتھ ہر افسانہ پڑھتا چلا جائے ۔ان افسانوںمیں حقیقت پسندی پر زور دیا گیا ہے اور تمام افسانے عصر حاضر کے مسائل پر مبنی ہے ۔دل تاج محلی نے ملک میں گرتی ہوئی اخلاقی ،تہذیبی اور تمدنی اقدارکے ساتھ رشتوں کی اہمیت کو ان افسانوں میں درشایا ہیں ۔دقیانوسی خیالات پر ضرب لگانے کی کوشش کی گئی ہیں۔قدیم زمانے میں لوگ لا علم تھے لیکن افسوس کہ سماج کی کچھ برائیاں آج تک دیمک کی طرح ہمارے سماج کو کھو کھلا کرتی آرہی ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے ۔ان کا افسانہ ’’سنامی لہر یا خدا کا قہر‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’آج کاروبار دیکھو تو اس میں بے ایمانی ،بات بات میں دھوکا اور فریب عا م ہیں ۔گھی ،تیل و دیگر اشیاء خوردنی میں ملاوٹ ۔انتہا یہ ہے کہ انسانی حمیت اس حد تک مردہ ہو چکی ہے کہ دوائیں بھی نقلی ملتی ہیں۔چوری،ڈکیتی،راہزنی،ذخیرہ اندوزی،رشوت،قتل وغارت گری ،زنا اور حرام کاری کو آج کے لوگ برا نہیں سمجھتے ۔بس پیسہ ہو………..‘‘ (بحوالہ :نقوش دل ،ص ،۳۳)
دل تاج محلی کے افسانوں کے تعلق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے یہاں عصر نو میں پنپنے والی وباؤں، سماج کی لائی پیدا کردہ لعنتوں، مشینی تہذیب کی یلغار اوراس کے مضر اثرات ،مغربی تمدن کی پیروی، مشرقی اقدار و روایات کا زوال، نئی پرانی تہذیب کا باہمی تصادم ،مذہبی رسوم سے اشتراک و افتراق ،معاشی الجھنیں غرض کہ عصری زندگی کے گونا گوں مسائل کی ترجمانی ملتی ہے۔ہر فنکار کسی نہ کسی مخصوص ویژن ،تخلیقی صلاحیت اورشخصیت کا حامل ہوتا ہے ۔جو اس کی تخلیقات سے نمایاں ہوتا ہے۔ مجموعہ ’نقوش دل ‘کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دل تاج محلی کے افسانے قاری کو متوجہ کرتے ہیں۔ان کے یہاں شہری تمدن اور اس کی میکانکیت نیز ہر آن متغیر ہوتی زندگی سانس لیتی نظر آتی ہے۔تہذیبی منطقہ ، مذہبی شدت و منافرت ،سیاسی ہنگامہ آرائی ،اقلیتوں کا استحصال،فرقہ ورانہ فسادات وغیرہ ایسے عناصر یا یوں کہہ لے کہ ایسے حربے ہیں جن کو استعمال کرکے عرصے سے متحد فرقوں کے مابین تفرقہ پیدا کر دیا جاتا ہے۔
چونکہ انسان اپنی فکر ، نفسیات، اطوار،اقوال اورافعال و اعمال میں ہمہ رخی ہوتا ہے۔انسان کی گہرائی و گیرائی یا اس کا تھرڈ ڈائمنشن اس کے لاشعور میں پنہاں ہوتا ہے ۔اس لیے فنکارنے اپنے کرداروں کے وسیلے سے انسان کی لاشعوری کائنات اور اس میں پوشیدہ خواہشات کی باز آوری کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے افسانے میں مرکزی کردار کے ان داخلی عوامل کے اظہار کے لیے فرائڈکے نظریۂ نفسیات کو وسیلہ بنایا گیاہے۔فرائڈی نفسیات میں تحلیل نفسی کو ایک مکتب فکر کی حیثیت حاصل ہے ۔ اس نے انسانی ذہن کی تین سطحیں بتائی ہیں ۔شعور، تحت شعوراور لا شعور۔ذہن کا ایک حصہ ایسا ہے جو خارجی دنیا سے متعلق ہے ، وہ انسان کا شعور ہے۔زندگی میں انسان جناحساسات، تجربات اورواقعات و حادثات سے دوچار ہوتا ہے وہ اس کے تحت شعور میں جمع ہوتے رہتے ہیں۔معرض التوا میں ڈالے گئے جذبات، دبی کچلی نا مکمل آرزوئیں اور انسانی جبلت سب اس کے لاشعور کا حصہ قرار دی جا سکتی ہیں۔فرائڈ کے ان تینوں نکات کا مجموعی ماحصل دو بنیادی مقدمات کو سامنے لاتا ہے۔بمطابق خورشید احمد:تمام انسانی اطوار کا محرک جنس ہے ۔دوسرا انسانی اعمال ،افعال میں لاشعور کی کارفرمائی غالب ہے۔اس مذکورہ نظریہ کے تناظر میں دیکھیں تو دل تاج محلی کے چند ایک کردار کسی نہ کسی سطح پر اس کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں ۔
اس طرح اس مجموعہ میں بے شمار ایسے گوشو کو منور کیا گیا ہے جو برسوں سے ہمارے سماج میں پنپ رہا ہے ،ان میں سے چند کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ،ان کے علاوہ اور وہ گوشے کون کون سے ہیں جن کو دل تاج محلی نے اپنے اس مجموعہ میں موضوع بنایا ہیں یہ جاننے کے لیے اس مجموعہ کا مطالعہ انتہائی اہم ہے۔یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دل تاج محلی نے اپنے تمام افسانوی ادب کو اپنے تجربات و احساسات کی روشنی میں قلم بند کیا ۔
ایسا نہیں ہے کہ دل تاج محلی واحد افسانہ نگار ہیں جن کے یہاں علاقائی زبان ،علاقائی حوالے اورنسبتیں پائی جاتی ہیں۔اس ضمن میں متعدد افسانہ نگاروں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن دل تاج محلی کے مجموعے ’نقو ش دل‘ کے تعلق سے کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے تاریخ ،تہذیب ،مشترکہ میراث ،مسلم اقلیتی طبقے کے انحطاط کے آمیزے سے جو کہانیاں تراشی ہیں، وہ ایک حساس طبع اور فعال ذہن کی غمازی کرتی ہیں۔یہی وصف ان کی کہانیوں کو تازگی اور انفرادیت عطا کرتا ہے۔
اس مضموعہ میں دل تاج محلی نے قطعات کا انتخاب بھی شامل کیا ہیں ۔دل تاج محلی کی شعری علوم و فنون کے مطالعہ سے کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بہت کم وقت میں اپنی قابلیت اور فنی بصیرت ،اپنے انوکھے انداز ،تکنیک ،ہیئت اور موضوعات و تلازمات اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنا پر اردوشاعری کی دنیا میں اپنامنفرد مقام پیدا کیا ۔وہ ایک حساس اور دردمند دل شاعر ہیں ،ایک بڑے کینوس کے شاعر۔ان کے یہاں جہاں ایک طرف گھر آنگن اور رومانی جذبوں کی فراوانی ہے وہیں دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے تغیرات کا منظر نامہ بھی ان کی شاعری کا اہم حصہ ہے۔ انھوںنے عہد حاضرکے تغیرات کو اپنی شاعری میں سمیٹا۔ انکی شاعری فطری ہے اور اسے کسی ازم کے خانے میں رکھنا مناسب نہیں ،سیدھے سچے جذبوں کی شاعری ، نہ کوئی پیچیدہ علامت نگاری اور نہ ہی لفظوں کی شعبدہ بازی کیفی اعظمی کی غزلیں ان کے جذبات ،احساسات اور مشاہدات کے تخلیقی اظہار پر قادر ہے،عصری مسائل و مصائب کے ساتھ ساتھ رومانی جذبات بھی انکی تخلیقات میں جا بہ جا محسوس کئے جا سکتے ہیں اور شاید اسی لئے وہ اپنے عہد کے بعض تخلیق کاروں کے مقابلے نمایاںنظر آتے ہے اور ایوان ادب میں اپنی موجودگی درج کرانے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔شاعری کا فن بڑی نزاکت و لطافت کا فن ہے اور شاعری کابنیادی تعلق شاعر کی شخصیت اس کے فکر و خیال اور طبیعت و مزاج کی افتاد سے ہوتا ہے ۔جیسا کہ خلیل الرحمن اعظمی نے ایک مقام پر لکھا ہے ۔
’’ شعر و ادب کا تعلق بنیادی طور پر شاعر و ادیب کی شخصیت ،اس کے مزاج ،اس کی افتاد طبع اور اس کے تجربات و محسوسات کی نوعیت سے ہے ۔یہ تجر بات و محسوسات جس قدر حقیقی ہوں گے ـ،ان کی جڑیں زندگی میں جتنی گہری ہوں گی اور اس کا رشتہ شاعر و ادیب کی اصل شخصیت اور اس کی افتاد طبع سے جتنا فطری اور حقیقی ہوگا۔اسی اعتبار سے وہ فن پارے کی تخلیقی صلاحیت کو پورا کرنے کے قابل ہوگا اور اس کی تحریر وں میں وہ آب و رنگ پیدا ہوسکے گا جن کی بدولت ان کی تاثیر دیر پا اور مستقل حیثیت کی حامل ہوگی ۔‘‘
مذکورہ اقتباس کے تناظر میںدل تاج محلی کے کلام کے مطالعہ کی روشنی میں بلا تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری اور شخصیت میں بڑی ہم آہنگی ہے۔ان کے محسوسات و تجر بات میں بھی حقیقت پسندی اور ان کی شاعری کا رشتہ زندگی کی افتاد طبع سے بھی مستحکم اور مضبوط ہے ۔دل تاج محلی کی شاعری اپنے منفرد لب و لہجے کے سبب اپنا الگ مقام رکھتی ہیں ۔ان کی شاعری سوچتے ہوئے ذہن کے مقصد ابلاغ سے آشنا کراتی ہیں،جس سے قدم قدم پر فِکر و نظر کی شمعیں فروزاں نظر آتی ہیں۔ وہ دروں بینی سے کام لیتے ہُوئے زندگی کی حقیقتوں اور عصری مسائِل کو سمجھنے میںغور و فِکر سے کام لیتے تھے جس سے ان کی شاعری فِکر و آگہی کی ہدایتیں نقطۂ نگاہ کو جامعیت عطا کرتی ہیں،نازُک بیانی کو بھی سادہ طریقہ سے اپنی شاعری میں بیان کرتے ہے دل تاج محلی نے بہترین الفاظوں کو بہترین ترتیب کے ساتھ اپنی شاعری کو ایک مالا میں اس طرح گوندھا ہے کہ قاری بنا رکے پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔وہ زبان صاف ستھری اور سہل استعمال کرتے ہے۔خیال ،فکر ،اور پیغام بالکل عیاں ہوتے ہے ۔ جس سے انھوں نے شاعری کی دنیا میں اپنا الگ مقام پیدا کیا ۔ان کی شاعری میں انسانی فطرت کی عکاسی کی گئی ہے زندگی کی کڑوی سچائیوں کو پیش کیا ہے۔ ان کے چند قطعات جو اس مجموعہ میں شامل ہیں ملاحظہ فرمائیں کہ:
شکست جام ہو کر رہ گئی ہے
نظر بدنام ہو کر رہ گئی ہے
محبت جیسی پاکیزہ نوازش
رواج عام ہو کر رہ گئی ہے
٭٭٭
جذبہ ٔ شعلۂ منصور کہاں سے لاؤں
وقت کے رخ پہ نیا نور کہاں سے لاؤں
اور کچھ مانگ لے اے گیسو ئے دوراں مجھ سے
میں تیری مانگ کا سندور کہاں سے لاؤں
٭٭٭
ایک قطرہ یہاں نصیب نہیں
آنکھ آلام سے گلابی ہے
واعظ محترم کو کیا کہئے
پھر بھی کہتا ہے تو شرابی ہے
٭٭٭
تم عمل کر کے بھی دکھلاؤ تو کچھ بات بنے
صرف پرچار کو پرچار سمجھ کر نہ کرو
اب بھی بن سکتا ہے ماحول مساوات مگر
قوم کے کام کو بیوپار سمجھ کر نہ کرو
اس طرح کہہ سکتے ہے کہ دل تاج محلی ایک کثیر الجہات شخصیت کی مالک انسان ہے۔ اردو کی نثری اصناف میں، افسانہ ،ڈرامائی افسانہ ،تنقیدی و تحقیقی مضامین اور شاعری سے بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔جس سے اردو داں طبقہ ہمیشہ مستفیض ہوتا رہے گا ۔دل تاج محلی کے طویل ادبی سفراور اس مجموعہ کی تمام کہانیوں ،مضامین ،تحقیقی و تنقیدی مضامین پر تفصیلی گفتگو کرنا یا اس کو چند صفحات میں سمیٹنا ممکن نہیں ،ان کی خدمات یقینا اردو ادب کے سرمایے میں اہم اضافہ ہے جس سے اردو ادب کا دامن ہمیشہ گر انبار رہے گا ۔
(جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی)
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here