تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگار: فاروق ارگلی
آج کے تیزرفتار مادّی و صارفی عہد میں بھی بحمداللہ ملت اسلامیہ ہند میں اہل علم و دانش کی کوئی کمی نہیں ہے۔ زبان و ادب، تہذیب و ثقافت کے لامحدود خزانے میں ایسے گرانقدر لعل و گہر موجود ہیں جو نہ صرف ملّی سطح پر باعث فخر ہیں بلکہ قومی اُفق پر آفتاب و ماہتاب کی طرح درخشاں ہیں۔ برصغیر ہندوپاک کے لسانی، تہذیبی، مذہبی، سیاسی و ثقافتی پس منظر اور پیش منظر پر نگاہ ڈالیں تو اہل علم کی وسیع و عریض کہکشاں میں ایک ایسی درخشاں شخصیت بھی سامنے آتی ہے جسے دیکھ کر موجودہ زمانے کی گھٹن بھری فضاؤں میں شفاف اور حیات بخش ہوا کے جھونکے کا احساس ذہن کو بالیدہ کردیتا ہے۔ یہ عالمگیر شہرت کے حامل ہمہ جہت دانشور پروفیسر اخترالواسع صاحب ہیں، جن کی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے ساری دُنیا میں، جہاں جہاں اُردو ہے اُن کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، مستزاد یہ کہ پروفیسر اخترالواسع کو نہ صرف عالمی اُردو برادری میں محبوبیت و مقبولیت حاصل ہے بلکہ وہ صلح کل، احترامِ آدمیت اور اقدارِ انسانیت کے اپنے واثق نظریات کی وجہ سے غیرمسلم سماج کے باشعور حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
پروفیسر اخترالواسع ملک کی مقتدر درسگاہ جامعہ ملیہ میں تیس سے زائد برسوں تک شعبۂ اسلامک اسٹڈیز سے وابستہ رہے، اسلامی تعلیمات اور اقدارِ حیات رُوح کی طرح ان کے وجود میں جاری و ساری ہیں۔ زندگی کا سب سے بڑا حصہ اسلامیات کے مطالعے، مشاہدے اور درس و تدریس میں گزرا ہے، جس نے انھیں ایسا عالم دین، مصلح اور مدبر بنا دیا ہے جس کا ہر قول و عمل اسلامی قدروں کی آواز بن کر امن و آشتی، رواداری، انسانی اتحاد اور حب الوطنی کا پیغام دے رہا ہے۔
مہتم بالشان مادرِ علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی علمی و فکری دولت سے مالامال ہوکر وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ پہنچے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم اُن کی انقلابی شخصیت نے بطور اسٹوڈنٹ لیڈر جوناموری حاصل کی اورجس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامیات کے استاذ کی صورت میں انھوں نے لاتعداد فرزندانِ ملت کو زیورِ علم سے سنوارا اور ایک لائق پروفیسر کی حیثیت سے انھوں نے جو جامعہ کی شاندار تدریسی و انتظامی خدمات انجام دیں، جامعہ ملیہ میں صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے منصب پر رہتے ہوئے بطور وائس چیئرمین اُردو اکادمی دہلی، اور بطور چیئرمین محکمہ لسانی اقلیات حکومت ہند اور جامعہ سے سبکدوش ہونے کے بعد بطور وائس چانسلر مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور میں جو قابل قدر کارنامے انجام دیئے ان سے ساری دُنیا واقف ہے۔ ان کی شخصی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے جس کی تفصیل ایک مکمل کتاب کی متقاضی ہے۔ اپنے اس مختصر مضمون میں، میں ان کی علمی خدمات کا اجمالاًذکر کروں گا جنھوں نے پروفیسر اخترالواسع کو شہرت و قبولیت عامہ و خاصہ کی اُن بلندیوں تک پہنچا دیا ہے جہاں پہنچنا انسانی کوششوں سے نہیں بلکہ ربّ العزت کی بے پناہ رحمت و مہربانی سے ہی ممکن ہے۔ اللہ کریم نے انھیں بہترین دماغ، خوبصورت اور کشادہ ذہن و دُوررس نگاہ عطا کرکے ایسی شخصیت میں ڈھال دیا ہے کہ وہ بیک وقت ایک بالغ نظر مفکر و معلم، صاحب طرزِ ادیب و سحربیان خطیب، صحافی، ناقد، مورخ، مبصر، ماہر تہذیب و ثقافت دانشور کی حیثیت سے مشہورِ زمانہ ہیں۔
ایک صاحب اسلوب قلمکار کی حیثیت سے پروفیسر اخترالواسع کا فکری اُفق لامحدود ہے۔ درس و تدریس اور جامعاتی مصروفیات کی طویل مدت میں بھی ان کا قلم گوناگوں دینی و دُنیوی موضوعات پر رواںدواں رہا ہے، ان کی بے نظیر خطابت سماعتوں اور ذہنوں کو روشن کرتی رہی ہے۔ یہ خوبی عصرحاضر کے علماء و عظماء میں شاذ ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اللہ کریم نے انھیں ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ وہ اسلامی شریعت ہو، عالمی مذاہب کے رموز و نکات ہوں، اسلامی تصوف کے موضوعات ہوں یا ویدانت کا فلسفہ، تاریخ عالم ہو یا ماضی و حال کی بین الاقوامی سیاسیات، ہند اسلامی تہذیب و ثقافت ہو یا اُردو ہندی ہی نہیں عالمی لسانیات اور شعروادب کے حوالے سے اظہارِ خیال، ملک کے قیاسی، اقتصادی اور تکثیری معاشرے کے مسائل، ہر موضوع پر ان کی تقاریر ایسی جامع، دلپذیر اور اثرانگیز ہوتی ہیں کہ سامعین مبہوت ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اُردو ادب کی قدیم و عصری صورتِ حال کے تو وہ ماہر مبصر و ناقد ہیں ہی، لیکن وہ اس میدان میں بھی اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے لیکچرس اور مضامین میں ایسا تنقیدی و تجزیاتی اسلوب اپناتے ہیں جس میں فنکار اور فنکاروں کی تنقیص کے بجائے اصلاح و مشاورت کا پہلو واضح ہوتا ہے۔
راقم نے اُن کی بہت سی تحریریں پڑھی ہیں۔ سالہاسال سے انھیں ملکی و بین الاقوامی ادبی، سیاسی، دینی و روحانی پلیٹ فارم پر بولتے دیکھا اور سنا ہے۔ گزشتہ تین عشروں کے دورانیے میں حالاتِ حاضرہ اور دیگر وقتی موضوعات پر اُن کے اخباری کالم، بیانات اور مضامین پر نظر رہی ہے۔ وہ بڑی سے بڑی بات کو لفظوں کی حلاوت اور خوبصورت دروبست کے ساتھ اس طرح بیان کردیتے ہیں کہ جس پر تنقید بھی کررہے ہوتے ہیں تو اس کو احساس ہوجائے کہ وہ غلط ہے، لیکن یہ نہ لگے کہ کوئی اسے براہِ راست برا اور غلط کہہ رہاہے۔ دراصل پروفیسر صاحب ایک متقی اور پرہیزگار مسلمان ہیں۔ شعائر اسلام اُن کی شخصیت کا جزوِ لاینفک ہیں۔ وہ انہی صلح کل اقدارِ انسانی کا جیتاجاگتا مجسمہ ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ، اہل بیت اطہارؑ اور بزرگانِ دینؒ کی تعلیمات کا بنیادی عنصر ہے، جس نے ان کے ذہن کو روحانیت و معرفت سے منور کردیا ہے۔ ایک سچے مسلمان ہونے کے ناطے ان کا یقین ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا راستہ ہے، اسی عنوان سے ان کی مشہور کتاب ’اسلام: امن وسلامتی کا راستہ‘ منظرعام پر آچکی ہے۔ اپنی اس شاہکار تالیف میں انھوں نے کم سے کم الفاظ میں عبارت آرائی کے بغیر شعائراسلام کو اس طرح روشن کیا ہے کہ صرف ڈیڑھ سو صفحات میں گویا سمندر کو کوزے میں سمیٹ دیا ہے۔ اس کتاب کے ساتھ وہ ایک ایسے مبلغ اسلام کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جس کے بیان و استدلال سے اسلام مخالف اذہان بھی اُس کی صداقتوں کے قائل ہوسکتے ہیں۔
پروفیسر اخترالواسع مزاجاً صوفی ہیں اور احترامِ کل مذاہب کے اُس اصول کے پیرو ہیں جو ہندوستان میں حضرت خواجہ غریب نوازؓ اور ان کے بعد بزرگانِ چشتیہ و دیگر روحانی سلاسل کے صوفیائے کرام کے وسیلے سے ہندوستان میں مشترکہ تہذیب، رواداری اور سماجی یکجہتی کے فروغ کا ذریعہ، اور ہندوستان کو تعمیروترقی کی نئی روشنی حاصل ہوئی۔ شریعت و طریقت، روحانیت و معرفت الٰہی کے موضوعات پر ان کے افکار دُنیائے اُردو میں مشہور و مقبول ہیں۔ ان کے خطبات اور مقالات کے دو مجموعوں ’اُجالوں کا سفر‘ اور ’روشنی کا سفر‘ میں یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آتے ہیں۔ ’روشنی کا سفر‘، ’اسلامی تصوف کے بنیادی سنگ میل‘ اس کتاب میں پروفیسر صاحب نے جس طرح بزرگانِ دین اور ان کی تعلیمات و ملفوظات کو بیان کیا ہے وہ پڑھنے والوں کے دلوں کو نورِ معرفت سے جگمگا دیتا ہے۔ اس خوبصورت کتاب کے پیش لفظ میں فخردہلی حضرت خواجہ حسن ثانی نظامیؒ، سجادہ نشین بارگاہ حضرت محبوبِ الٰہیؒ رقم طراز ہیں:
’’ناچیز راقم الحروف حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے دسترخوان کا صدیوں سے نمک خوار، بزرگوں کے کرم سے ایک سے زیادہ سلسلوں کا فیض یافتہ، اتنا ضرور عرض کرسکتا ہے کہ پروفیسر احترالواسع صاحب نے اپنا بھی بھلا کیا ہے۔ ان کا فراہم کردہ عطر بیک وقت مجموعہ بھی ہے اور مفرد بھی۔ اگر صاحب کتاب کو مصور کہوں تو ان کے کینوس کی وسعت بیان کرتے کرتے عاجز ہوجاؤں۔ جو کچھ ان کے انتخاب میں آیا ہے، وہ چاہے صوفی بزرگوں کے اسمائے گرامی ہوں یا رنگارنگ تعلیمات لکھنے والے کی خوش مذاقی کا ثبوت تو فراہم کرتے ہی ہیںپڑھنے والوں کو بھی ایک نئی لذت سے آشنا کریں گے، ایسی لذت جو ایک گھونٹ کے بعد دوسرے گھونٹ کا تقاضا کرے۔ کاش کہ اس کو نصابِ تعلیم میں شریک کیا جائے، یہ نئی نسل کے لیے بڑے کام کی چیز بطور خاص ہے:
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
(دعاگو: حسن ثانی نظامی)
آج کی سیاسی صورتحال اگرچہ بیحد تشویشناک ہے لیکن پروفیسر اخترالواسع کے اندر کا صوفی منش ہندوستانی اس سے مایوس نہیں ہے۔ ان کا ایقان ہے کہ ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ وقتی سیاست اور فرقہ واریت کی آندھیاں اس سے ٹکراکر بالآخر پسپا ہوجائیں گی۔ مشترکہ تہذیب کی جو بنیاد بزرگانِ دین بالخصوص طوطیٔ ہند امیرخسروؒ نے رکھی تھی وہ بیحد مستحکم ہے۔ آج ساڑھے سات سو سال بعد بھی اُسی تعلیم خسروی کی ضرورت ہے۔ نفرت و عصبیت کے ان حالات کا مقابلہ پروفیسر اخترالواسع دشمنی اور عداوت کے بجائے مدبرانہ انداز میں کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کا قول ہے کہ یہ وقت مجادلے کا نہیں مکالمے کا ہے۔ قومی یکجہتی، ہندو مسلم اتحاد اور ملک کی تعمیر و ترقی کے عظیم مقاصد کے تحت انھوں نے اپنے ہم خیال ساتھیوں جناب سراج الدین قریشی، چیئرمین انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، جناب روہت کھیڑا اور رنجن مکھرجی کے ساتھ مل کر ’خسروفاؤنڈیشن‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جو ملک میں امن و آشتی کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔
تجزیاتی تذکرہ نگاری میں پروفیسر اخترالواسع کی اثرانگیز تحریروں سے ساری اُردو دُنیا واقف ہے۔ ’فکروفن کے چند اساطین‘ کے عنوان سے ان کی کتاب ہر طالب علم اور باشعور قاری کی معلومات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ذہن کو تازگی عطا کرتی ہے۔ ’اُردو میںسیرت نگاری‘ نبی اکرمؐ کے حوالے سے‘، ’غالب بارگاہِ رسالت میں‘، ’میرکی آفاقی بصیرت‘، ’اُردو شاعری کے کلاسیکی دریچے: میر،غالب، اقبال‘، ’مولانا الطاف حسین حالیؔ اور علم و ادب‘، ’تخلیقیت کے نشان: منٹو، کرشن چندر، عصمت،بیدی، فیض احمد فیض کے تخلیقی اوصاف‘ ایسے پرمغز تجزیاتی مضامین ہیں جو اُردو ادبیات کے نصاب میں نشانِ راہ کا پتہ دیتے ہیں۔ تجزیاتی تذکرہ نگاری کا اعلیٰ ترین نمونہ ان کی کتاب ’دیدہ و شنیدہ‘ ہے۔ یہ شاندار کتاب ہندوستان کی قدیم لائبریری رام پور رضا لائبریری نے شائع کی ہے۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ ڈاکٹر وقار الحسن مرحوم (سربراہ رامپور رضا لائبریری) کی اس تحریر سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے:
’’زیر نظر مجموعے میں ’شنیدہ و دیدہ‘ شخصیات پر مضامین پروفیسر اخترالواسع کے اپنے مزاج اور طبیعت کے بھی آئینہ دار ہیں۔ سرسیّد، شبلی نعمانی، بی امّاں، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد پر لکھے گئے مضامین اُن بزرگوں سے نہ صرف ان کی عقیدت کے نمونے ہیں بلکہ ایسا جامع اور بھرپور تعارف بھی ہیں جن سے نئی نسل بہت کچھ واقفیت حاصل کرسکتی ہے۔ پروفیسر اخترالواسع جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ رہے ہیں، ذاکر صاحب، مجیب صاحب اور سیّدین صاحب پر ان کے مضامین ان معمارانِ جامعہ کو ایک بہترین خراجِ عقیدت ہیں۔ ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی، حکیم عبدالحمید اور مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی، آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی تین اہم نمائندہ شخصیتیں نہیں بلکہ علامتوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان پر مضامین اس اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں کہ نئی پیڑھی ان سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ پروفیسر علی احمد خسرو، پروفیسر مشیرالحق، ظفرپیامی، پروفیسر رشیدالظفر، پروفیسر خلیق احمد نظامی اور قاضی مجاہد الاسلامی قاسمی بیسویں صدی کے نصف آخر کے ہندوستان میں اپنے میدانوں میں انتہائی ممتاز اور نمائندہ حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ پروفیسر اخترالواسع کو ان سے ذاتی تعلق رہا لیکن انھوں نے ان سب کو بھی اپنی ذات کے حوالے سے نہیں بلکہ ان کی خدمات اور خوبیوں کے حوالے سے پیش کیا ہے۔‘‘(پیش لفظ ’دیدہ و شنیدہ)
پروفیسر اخترالواسع کی تصانیف میں ’کچھ اور چاہیے وسعت‘ کا عنوان بھی معنی خیز ہے۔ وہ اپنے احساسات، مشاہدات اور افکار کے اظہار کے لیے تنگنائے تحریر و تقریر میں مزید وسعت کے خواہاں ہیں۔ اپنے اس مجموعہ مضامین کو انھوں نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے: اوّل بابِ ’بابِ عقیدت‘ ہے جس میں نامور شاعر اور صحافی چندربھان خیال کی منظوم سیرتِ پاکؐ ’لولاک‘ پر سیرحاصل تبصرہ ہے۔ انھوں نے چندربھان خیالؔ کی کاوش کو تحسین و توصیف کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس باب میں ’عشق رسولؐ کی سلسبیل اور عشق رسولؐ کا خوش آہنگ نغمہ‘ کے عنوانات کے تحت ان کی تحریروں سے رسولِ اکرمؐ سے ان کی والہانہ محبت اور عقیدت کا نور مترشح ہوتا محسوس ہوتاہے۔ کتاب کا دوسرا باب ’بابِ تعلق‘ہے، اس میں انھوں نے مشہور ادیب و صحافی دیوان بریندر ناتھ ظفرؔ پیامی کے ناول ’فراز‘ کا بھرپور تنقیدی جائزہ تین وقیع مضامین میں پیش کیا ہے۔ ظفرپیامی کا یہ ناول تقسیم کے المیے پر مبنی ہے۔ اس جائزے میں پروفیسر اخترالواسع ایک صاحب نظر ناقد کی حیثیت سے نمایاں ہوتے ہیں، لیکن ان کی ادبی وسعت فکر ونگاہ کا صحیح اندازہ تیسرے باب ’بابِ فکر‘ کے مطالعہ سے ہوتاہے۔ اس باب میں شامل مضامین کے عنوانات واضح کرتے ہیں کہ اُردو زبان و ادب کے مختلف پہلوؤں پر وہ کیسی گرفت و دسترس رکھتے ہیں۔ ’اُردو اور خوداحتسابی کا آئینہ‘، ’اردو رسم الخط کا مسئلہ: ترجیہات اور مضمرات‘، ’اُردو زندگی اور زمانے کی زبان‘، ذرائع ابلاغ اور اُردو‘، ’اُردو تہذیبی تنوع کا رواں دواں آئینہ‘، ’اُردو ہندی ایک فرضی تقسیم‘، ’تحریک آزادی اور قومی یکجہتی میں اُردو کا حصہ‘، ’مدارس میں اُردو زبان کا رول‘ جیسے کئی فکرانگیز مقالات میں مصنف نے اُردو زبان و ادب کے مختلف گوشوں کو اُجاگر کیا ہے۔ کتاب کا آخری باب ’بابِ ذوق‘ ہے، جس میں ولی دکنی، میرتقی میر، پریم چند،علی سردار جعفری جیسی عہد ساز ہستیوں پر تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس گرانقدر کتاب پر جسٹس سہیل اعجاز صدیقی کی رائے سے کتاب کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے:
’’آزادی کے بعد سے اُردو ہندوستان میں جن مراحل سے گزر رہی ہے پروفیسر اخترالواسع اُن کا ادراک ہی نہیں رکھتے بلکہ ایسے شاہد اور گواہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس نے اپنی بساط سے زیادہ اُردو کی لڑائی لڑی ہے۔‘‘ (ثانی سرورق ’کچھ اور چاہیے وسعت‘)
اسی کتاب کے فلیپ پر نامور مزاح نگار مجتبیٰ حسین مرحوم کا یہ حقیقت افروز بیان درج ہے:
’’پروفیسر اخترالواسع کثیرالجہاد عالم ہیں، اُن کی نظر صرف زبان و ادب پر نہیں ہے بلکہ وہ سماجی، سیاسی،تہذیبی اور معاشی سطح پر ایک فعال زندگی جینے کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ زمین سے جڑے رہنے کے باعث انھیں زمینی حقیقتوں کا بھرپور ادراک ہے۔ دوسری طرف اُن کا ذہنی افق نہایت وسیع اور بسیط ہے، جس کی مدد سے جب وہ اپنے موضوع کا جائزہ لیتے ہیں تو کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار ہوئے بغیر موضوع کے ہر گوشے کو پوری دیانت داری کے ساتھ نمایاں اور منور کردیتے ہیں۔‘‘
پروفیسر اخترالواسع صاحب کو ان کی علمی، ملّی اور ساجی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ ہند نے پدم شری اعزاز سے سرفراز کیا، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے انھیں پروفیسر ایمیرٹس بنایا، اس سے قبل ہندوستان میں اسلامک اسٹڈیز کے کسی پروفیسر کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا۔
راقم السطور پروفیسر اخترالواسع صاحب کو اُردو زبان، تہذیب اور قومی یکجہتی کا انتھک سپاہی اور صدی کا ’مجاہد العلوم‘ کہا کرتا ہے۔ ملک و بیرون ملک علمی ادبی اور ثقافتی اجتماعات میں شرکت،ریڈیو، ٹی وی، اخبارات و جرائد میں حالاتِ حاضرہ اور دیگر موضوعات پر ان کی تحریریں اور تقریریں مسلسل یہ احساس کراتی رہتی ہیں کہ گلستانِ سرسیّد کے اس گلِ سرسبد اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے روشن چراغ نے عہدحاضر کی علمی اور فکری فضاؤںکو معطر و منور کیا ہے۔ خدا ان کو اسی طرح سرگرمِ عمل رکھے، آمین!
Email: [email protected]