زین شمسی
سہارا نے لکھا 41 انقلاب نے لکھا 44 کسی اور نے لکھا 40 اور کسی نے لکھا 51۔ حقیقت میں کتنے مسلم طلبا نے یو پی ایس سی میں کامیابی حاصل کی , اس کا پتہ یو پی ایس سی کے ویب سائٹ پر جاکر جاننے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جا سکی۔
بڑی تعداد کو ہی سچ مان لیتے ہیں یعنی 51 , تو خوشی کی بات ہے کہ تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور سلام ان تمام طلبا کو جو مولوی اور سنگھی کے درمیان نہ پھنس کر اپنے راستے پر پورے استقلال کے ساتھ چلے اور ملک کے سب سے پروقار مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب ہوئے۔
قلق اس بات کا ضرور ہے کہ ٹاپ ٹوئینٹی میں کوئی مسلم طالب علم اپنی جگہ نہیں بنا سکا۔ اب اس بات کو قطع نظر کرتے ہوئے کچھ باتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جو یو پی ایس سی کی شفافیت پر سوال کھڑا کرتا ہے۔
یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ہر سال ٹاپر یا ٹاپ فائیو میں ایس سی ایس ٹی یا دیگر پسماندہ زمرے کے امیدوار ہوتے ہیں کبھی مسلم امیدوار بھی اپنی موجودگی درج کراتا ہے،اس کے بعد اعلی ذات کے امیدواروں کی بہتات ہوتی ہے۔ کیا ایسا صرف پردہ پوشی کے لئے ہے یا پھر اتفاقات ہیں۔ اگر یہ اتفاق یا ٹیلنٹ کا معاملہ ہے تو اس سچائی سے کیسے درگزر کیا جا سکتا ہے کہ سنگھ کے ذریعہ چلائے جا رہے ایک کوچنگ سینٹر کے نصف سے زائد طلبا اس مقابلہ جاتی امتحان میں ہر سال کامیاب ہو رہے ہیں ۔ کیا یو پی ایس سی کے منتظمین اور کوچنگ سسینٹر کے ساتھ کوئی ربط ضبط ہے۔ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بھی وہی ہوا جو گزشتہ تین سال سے ہوتا آیا ہے۔ یہ مو ضوع اس لیے اہم ہے کہ انتظامیہ ہی سرکار یعنی مقننہ کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ کیا یو پی ایس سی کے ذریعہ سنگھ انتظامیہ میں اپنا مستقبل مضبوط اور محفوظ کر رہا ہے۔ اس پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔ سنکلپ کوچنگ سینٹر کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔
کیا اس موضوع کو ٹی وی ڈسکشن کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ کم از کم تعلیم اور بے روزگاری کے مسائل کو طشت از بام کرنے والے رویش کمار کو اس طرف دھیان دینا چاہیے۔باقی گودی میڈیا تو ایک فالتو آدمی کے اس بیان پر کہ اے ایم یو میں سنگھ کی شاکھا ہونی چایئے کو ڈسکشن ٹیبل پر لا کر مودی بھکتوں کو رام کرنے کی کوشش میں مصروف ہے , جس میں ہزار دو ہزار کے لالچی مولوی نما لوگ بھی اپنی کم فہمیوں کے ساتھ اس غرور کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں کہ انہیں پوچھا جا رہا ہے , جبکہ ان کا سہارا لے کر وہ سماجی اور تعلیمی نظام کو پراگندہ کرنے میں کامیاب ہیں۔