کیا واقعی یہ من کی بات ہے ؟

0
901

ڈاکٹرزین شمسی

کہتے ہیں کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر کرتی ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ دماغ کی نہیں دل کی سنو۔ ایک بہتر آدمی ، ایک اصلاح پسند آدمی ، ایک ناصح ، ایک زاہد ، ایک عالم ، ایک فلاسفر ، ایک دانشور ، جو بھی بات کرتا ہے وہ اگر لوگوں کے من میں بیٹھ جاتی ہے تو سمجھئے کہ اس نے اپنی بات دل سے کہی ہے اور کہنے سے پہلے اس پر عمل بھی کیا ہے۔ کسی کی زبان سے کوئی بات تبھی بھلی لگتی ہے جب کہنے والا بھی اس بات پر عمل کرتا ہو، ورنہ کہی ہوئی بات یا تو سیاسی نقظہ نظر سے کہی جارہی ہوتی ہے یا پھر کاروباری نقطہ نظر سے ، وہ من کی بات نہیں ہوتی بلکہ من کوبہلانے والی بات ہوتی ہے۔
تمہید کا مقصد کچھ بھی نہیں ، بس ہمارے مودی جی کی اس ’من کی بات ‘ کو سن کر کچھ کہنے کی خواہش ہوئی ، یکبارگی لگا کہ وہ کچھ دل کی کہہ گئے ہیں ، لیکن
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیر
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
پردھان ، سیوک ، چوکیدار یا پردھان منتری جو بھی کہہ لیجئے ، سارے نام ہمارے دامودر داس نریندر بھائی مودی کے ہی ہیں اور اسے پورا دیش جانتا ہے۔ مودی صاحب یوں تو بہت کچھ کہتے ہیں ، بلکہ کہتے ہی رہتے ہیں ، کیونکہ انہوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ کسی کی نہیں سنیں گے ، یہاں تک کہ اپنی بھی ، نہیں ، اس لیے کبھی کبھی اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کو بھی وہ بھول جاتے ہیں اور جو کہتے ہیں اس کے برعکس کر دیتے ہیں ، اس لیے مورخ جب ان کی تاریخ لکھے گا تو اس کے لیے یہ بھی لکھنا ضروری ہو جائے گا کہ نریندر مودی ہندوستان کے ایسے پہلے وزیر اعظم ہوا کرتے تھے جن کے قول و فعل میں بے انتہا فرق تھا ۔ تازہ مثال تو یہ ہے کہ جس جگہ پر کھڑے ہو کر انہوں نے تاریخی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں دیش کو بکنے نہیں دوں گا ، اسی جگہ یعنی لال قلعہ کو بیچ دیا اور انہیں یاد ہی نہیں کہ یہ جملہ انہوں نے کب پھینکا تھا ۔
خیر ہزاروں خامیوں کے باوجود ان کی ہنرمندی پر کبھی کبھی پیار بھی خوب آتا ہے ، جیسے اذان کے وقت وہ اپنی تقریر روک دیتے ہیں ، اور پھر شروع ہوتے ہی کہہ دیتے ہیں کہ ہر مذہب کی تعظیم کرنی چاہیے ، اس وقت وہ بہت پیارے لگتے ہیں کہ کم از کم وہ ا یسے وزیر اعظم تو ہیں کہ جنہیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اذان کی عزت کی جانی چاہیے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اسی اذان کے خلاف جب ان کے ہی مداح غلط بیانی سے کام لیتے ہیں تو وہ خاموش رہتے ہیں ، اور اپنا ردعمل دینا بھول جاتے ہیں کہ کبھی انہوں نے خود بھی اذان کی تکریم میں خاموشی اختیار کی تھی۔
اب آیئے ریڈیو پر نشر کئے جانے والے ان کے من پسند پروگرام ’ من کی بات‘ کی طرف ۔ یہ پروگرام ان کے مقلد نابینا کے درمیان بھی کافی مقبول ہے ،ان کے ایک مداح سے جب میں نے پوچھا کہ آج آپ نے دکان نہیں کھولی ، کیا بیمار ہیں ، تب انہوں نے مجھے جھٹکتے ہوئے کہا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آج مودی جی ریڈیو پر من کی بات کرنے والے ہیں ، میں ان کی ہر من کی بات سنتا ہوں ، اور اس پر عمل بھی کرتا ہوں ، ایک صاحب علی گڑھ میں ہیں ، وہ مودی جی پر کتاب بھی لے کر آئے ہیں اور اب ’من کی بات ‘ کو مرتب کر رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ اس سے اچھی بات انہوں نے کبھی نہیں سنی ہے ، مسلمان ہیں اور مودی کے آس پاس رہنے کے متلاشی ہیں ، اس لیے انہیں حدیث و قرآن سے زیادہ من کی بات بھلی لگتی ہے اور ریڈیو کے کئی اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ اگر مودی جی نے ریڈیو پر یہ پروگرام شروع نہیں کیا ہوتا تو زمانہ قدیم سے لوگوں کے درمیان خبر و تفریح ارسال کرانے والا یہ سرکاری شعبہ بند ہو جاتا ، گویا ’من کی بات ‘ کی شروعات نے ریڈیو کو نئی توانائی بخشی ہے اور اس کے ٹی آر پی میں اضافہ کیا ہے ۔ مودی جی اپنی ہزاروں حصولیابیوں میں سے اس حصولیابی پر بھی فخر کر سکتے ہیں۔ بہر حال جمعہ کو نشر کئے گئے ’ من کی بات ‘ میں نریندر داس مودی علامہ مودی کے رنگ میں تھے ، انہوں نے رمضان کی برکتیں ، رمضان کی اہمیت و افادیت ، رمضان کے اثرات اور نبی صلی علیہ وسلم کے ارشادات سے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ یوں تو انہوں نے رمضان کے حوالہ سے کوئی نئی بات نہیں کہی ، مگر نئی اس لیے ضرور لگی کہ اپنے خطاب میں ہمیشہ 125کروڑ لوگوں کی بات کرنے والے پی ایم صاحب کبھی کبھار ہی ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے بارے میں کہتے سنے جا تے ہیں ۔ اسی لیے جب انہوں نے 15-17دن قبل ہی رمضان کی آمد کی اطلاع دی تو خوشی بھی ہوئی اورالجھن بھی اور یقیناً حیرت بھی۔
انہوں نے کہا کہ روزے کا اجتماعی پہلو یہ ہے کہ جب انسان خود بھوکا ہوتا ہے تو اس کو دوسروں کی بھوک کا بھی احساس ہوتا ہے ، جب وہ خود پیاسا ہوتا ہے تو دوسروں کی پیاس کا احساس بھی اسے ہوتا ہے ۔ انہوں نے پیارے نبی صلی علیہ وسلم کے عادات و اطوار اور پیغام کا ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ ایک بار کسی نے ان سے پوچھا کہ اسلام میں کون سا کام سب سے اچھا ہے؟ تب پیغمبر صلی اللہ علی وسلم نے کہا کسی غریب اور ضرورتمند کوکھانا کھلانا اور سبھی کے ساتھ محبت سے پیش آنا ، خواہ آپ انہیں جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔ انہوں نے پیغمبر اسلام کے اس قول کو بھی نقل کیا کہ ’ تکبر ہی علم کو شکست دیتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے رمضان میں زکوٰۃ اور خیرات کی اہمیت کی بھی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص مقدس روح سے امیر ہوتا ہے نہ کہ دھن دولت سے، اور آخر میں انہوں نے اہل وطن کو رمضان کی مبارکباد کرتے ہوئے کہا کہ یہ موقع پر لوگوں کو امن و بھائی چارگی کی راہ پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔
یہ تھی ان کے من کی بات کی تلخیص جو ملک کے عوام نے ان کی زبانی سنی۔ رمضان کی آمد اور اس کی اہمیت و افادیت سے تمام مسلمان آگاہ ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ مبارک موقع نہ صرف مذہبی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے ، بلکہ جسمانی اعتبار سے بھی رمضان کی اہمیت کچھ یوں ہے کہ اس سے پورے جسم کی اوور ہالنگ ہوتی ہے اور کئی طرح کی بیماریوں سے بھی نجات ملتی ہے ۔ اللہ رب العزت نے اس پاک ماہ کو مسلمانوں کے لیے ایک نایاب تحفہ کے طور پر دیا ہے ۔ پردھان سیوک نے جو سب سے اہم بات کہی وہ یہ کہ جو شخص خود بھوکا رہتا ہے اسے دوسروں کی بھوک کا احساس ہوتا ہے ، تو پردھان سیوک جی کو شاید اسی لیے ان لاکھوں لوگوں کے بھوک کا احساس نہیں ہے کہ انہیں خود یہ کبھی پتہ ہی نہیں چل پایا کہ بھوک کسے کہتے ہیں ، ابھی چند دنوں پہلے انہوں نے اپواس بھی رکھا تھا ، لیکن اس سے پہلے مقوی غزا کا استعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ ہاں یہاں پر یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ مسلمانوں کو بھی اس ماہ کے مذہبی پہلو کے ساتھ ساتھ اسی سماجی پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ رمضان اس بھوک کا احساس دلاتا ہے جس بھوک کی وجہ سے ہزاروں لوگ مر جایا کرتے ہیں ، اس لیے اس متبرک ماہ کا یہ پیغام مسلمانوں کو بھی گرہ میں باندھ لینا چاہیے تاکہ کوئی بھی انسان بھوک سے نہ مر سکے۔ رہی بات اپنے وزیر اعظم کی کہ جب ان کے من سے محمد صلی اللہ علی وسلم کے یہ ارشاد نکلے تو کیا وہ غریبوں اور بے روزگاروں کے لیے کسی بھی طرح کی اسکیم لے کر آئے۔ کیا امن و بھائی چارگی کے اسلام کے پیغام کو وہ ہندوستان میں بر قرار رکھ سکے۔ کیا ان کا تکبر انہیں ایک بہترین حکمراں بننے سے نہیں روک رہا ہے۔ کیا انہوں نے اپنے کابینی وزرا ، مداح اور مقلد نابینا کو کبھی یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ بھارت میں یکجہتی اور امن و بھائی چارگی کو فروغ دیں ، بلکہ یہ دیکھنے کو ضرور ملا کہ جب ملک کو بانٹنے کی بات کی گئی ، جب ملک میں رہ رہے اقلیتوں اور دلتوں پر ظلم ہوا تو پی ایم کی مشکوک خاموشی نے نفرت کو فروغ دیا ، اور آج جس طرح قتل کو عام کر دیا گیا اور جس طرح بچیوں اور لڑکیوں کی عصمت دری کو درست مانتے ہوئے جلسے اور جلوس نکالنے کی بھرے سماج میں کچھ لوگوں کی ہمت ہو رہی ہے کیا مسٹر پرائم منسٹر نے ایسے ماحول کو سختی سے روکنے کی کبھی کوشش کی۔
اسی لئے ان کے ’من کی بات ‘ کو من کی بات ماننے سے میں قاصر ہوں ، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ ان کے دماغ کی باتیں ہیں جو گاہے بگاہے ایک سیاسی تناظر میں وہ کہتے رہتے ہیں۔ من کی بات وہی ہوتی ہے جو اثر رکھتی ہے ، ورنہ ….
نفرت بھی اسی سے ہے ، پرستش بھی اسی کی
اس دل سا کوئی ہم نے تو کافرنہیں دیکھا
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here