کہانی۔۔۔اپریل فول بنایا !

0
71

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

رئیس صِدّیقی

ابھی آدھی رات گزری تھی کہ نہ جانے کیوں اور کیسے میری آنکھ کھل گئی۔
میں نے بہت کوشش کی کہ سو جائوں، مگر نیند تھی کہ کسی طرح آنے کو راضی نہیں تھی۔
میں نے لائٹ آن کی اور گھڑی دیکھی تو وہ صبح کے چار بجا رہی تھی۔ اچانک لیٹے لیٹے میں اُٹھ بیٹھا اور نئی نئی شرارتیں ذہن میں جنم لینے لگیں۔ بہت غو و فکرکرنے کے بعد میں نے یہ طے کیا کہ اس شرارت پر عمل کرنا چاہئے۔ بس پھر کیا تھا۔
’’چور چور … چور‘‘ چلّاتے ہوئے میں اپنی امی کے پلنگ پر منہ کے بل دھڑام سے گِر پڑا۔ آواز اتنی تیز تھی کہ ان کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ بہن بھائی بھی جاگ اٹھے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ چونکہ گھر پر والد صاحب نہیں تھے اس لئے ذرا امی بھی ڈریں اور فوراً دونوں کمروں کی لائٹ روشن کی اور میرے کمرے کا جائزہ لیا۔ میرے کمرے میں چور تو چور ایک چوہا بھی نظر نہ آیا۔
’’کہا ں چور ہے ؟۔ جو چور چور چلّا رہے ہو!‘‘ ۔ امی بڑ بڑائیں۔
وہ سوالات پہ سوالات کئے جارہی تھیں اور میں بالکل خاموش اور گُم سُم بیٹھا ہوا تھا۔
اس طرح چند لمحے گزر گئے۔ اچانک میں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ اب تو سب لوگ اور ڈر گئے۔
’کیا بات ہے رئیس ؟‘‘ ۔ ا می نے مجھے جھنجھوڑا۔
’’ارے واہ بھئی واہ ۔۔۔ آپ لوگ اس قدر ڈرپوک ہیں۔ میں نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’بھیا ڈرنے کی تو بات ہے۔‘‘ ۔ میری چھوٹی بہن ناہید بولی۔
’’ارے پگلی آج پہلی اپریل ہے۔‘‘ میں نے اپنی معلومات کا اظہار کیا۔
’’اچھا تو آج آپ نے فرسٹ اپریل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سب کو فول (بیوقوف) بنایا ہے۔ ‘‘ میری بہن فردوس بولی۔
’’جی ہاں ، بہت دیر کے بعد آپ سمجھیں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میں اپنے کمرے کی طرف لپکا تاکہ امی میری خاطر تواضع سے باز رہیں۔
ابھی صبح ہوئی تھی کہ میں نے اپنی شرارتوں کا نشانہ بنانے کے لئے چند دوستوں کو منتخب کیا۔ میں نے اپنے دوست عاصم کے ذریعے اپنے محلے کے ہوٹل کے مالک قمر کو یہ اطلاع دی کہ ممبئی سے ٹرنک کال آیا ہے ۔جلدی آجائو۔
قمر صاحب اپنی سبزی پوری وغیرہ چھوڑ کر میرے پاس بھاگے ہوئے آئے۔
قمر بھائی وقت ختم ہورہا تھا اس لئے آپ کے بھائی صاحب نے آپ کے نام ایک پیغام لکھوانے کے بعد فون رکھدیا۔
میں نے ایک کاغذ قمر صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
انھوں نے جلدی سے پرچہ کھولا۔ ایں فرسٹ ۔۔ اپریل ۔۔۔ فول‘‘ انھوں نے پڑھتے ہوئے میری طرف دیکھا۔
’’قمر بھائی ، گستاخی معاف۔ آج فرسٹ اپریل ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھر میں نے سوچا کہ بھئی کیوں نہ آج کسی رشتہ دار کو فول بنایا جائے۔ چنانچہ میں دوڑا دوڑا اپنی ممانی کے یہاں پہنچا۔ ’’ممانی! ممانی! میری امی کی طبیعت بہت خراب ہے ۔جلدی چلئے۔ آپ کو بلایا ہے۔‘‘
گھبراہٹ اور پریشانی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے میں نے کہا۔
ممانی ہائے اللہ کرتے ہوئے پان و ڈلی وغیرہ کا بٹوہ سنبھالنے لگیں۔ میں موقع پاکر اسی بیچ امی کے پاس آیا اور ہانپتے ہوئے بولا۔
’’امی ۔ امی ۔ممانی کو دورہ پڑگیاہے ۔ جلدی چلئے۔ ماموں ڈاکٹر کو بلانے گئے ہیں۔
’’ارے! ۔۔۔ اچھا جلدی رکشہ بلائو۔ امی نے حکم دیا۔
میں رکشہ لے کر آیا۔ ابھی ہم رکشہ پر بیٹھ ہی رہے تھے کہ ممانی کا رکشہ آگیا۔ دونوں ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے اور میں ’’اپریل فول‘‘ بنایا کہہ کر بھاگگ نکلا۔
پھر میں سامنے ٹیلر ماسٹر صاحب کے پاس گیا اور بولا۔
بھائی نے آپ کو یاد فرمایا ہے۔ شیروانی کی ناپ لینی ہے۔
ماسٹر صاحب نے اپناسامان سنبھالا اور رشید بھائی کے پاس آگئے۔
’’بھئی جلدی کرو، ہمیں ایک کام سے جانا ہے۔‘‘ چونکہ دونوں گہرے دوست ہیں، اس لئے وہ بلا تکلف بولے۔
’’کیا مطلب ماسٹر صاحب؟‘‘ رشید بھائی ذرا فکر مند ہوکے بولے۔
’’بھئی شیروانی کی ناپ دوگے یا نہیں؟‘۔ ماسٹر صاحب بیزار ہوتے ہوئے بولے۔
رشید بھائی نے میری طرف دیکھا۔ میں ہنسی نہ روک سکا۔ رشید بھائی سمجھ گئے۔
’’بھائی جائیے… آج فرسٹ اپریل ہے۔ رئیس نے آپ کو فول بنایا ہے۔
ماسٹر صاحب کھسیاگئے مگر بے چارے اپنی جھینپ مٹانے کے لئے قہقہہ لگانے لگے۔
قریب دوبج رہے ہوں گے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب کسی کو بیوقوف نہ بنایا جائے… آج لوگ بہت فول بن چکے۔ چنانچہ میں پڑھنے بیٹھ گیا۔
کچھ دیر کے بعد دروازے کی گھنٹی بجی ۔میں باہر آیا تو شکیل کو کھڑا پایا۔
ارے بھئی خیرت تو ہے؟ کہئے ،کیسے آنا ہوا؟ میں نے پوچھا۔
’’تمہارے رشید بھائی نے رام بابو کانپور والوں کے پیسے پوچھے ہیں۔ اس پرچے پر ان کا حساب نوٹ کردو۔
شکیل نے کاغذ بڑھاتے ہوئے کہا۔
میں نے پرچہ لیا اور اس کو کھولتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
’’تمہارا چچا …!‘‘
اچھا تو میاں شکیل نے مجھے فول بنایا ہے۔ صبح سے میں لوگوں کو بنا رہا ہوں۔ یہ میاں مجھ کو بنا گئے۔ خیر کوئی بات نہیں ۔۔۔ میرا نام بھی رئیس ہے۔‘‘
میں کچھ سوچتے ہوئے باہر آیا تاکہ کسی طرح سے شکیل کو فو ل بنا سکوں ۔مگر شکیل وہاں سے جاچکا تھا۔
اس روز میں دن پھر افسردہ او ر دکھی رہا کہ صبح سے تو میں لوگوں کو اپریل فول بنا رہا تھا اور وہ نامراد مجھے فول بنایا گیا !
rais.siddiqui.ibs @gmail.com

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here