9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
شباب فاطمہ
کسی بھی درسگاہ کے قیام کا اصل ھدف اور مقصد معاشرہ کی اصلاح ہوا کرتا ہے۔اسی لئے کربلا اور اصلاح معاشرہ میں وہ گہرا تعلق ہے جسے قلم اور قرطاس کے ذریعہ بیان کرنا ناممکن ہے کربلا ایک ابدی حقیقت ہے جسے چند گھنٹوں کی جنگ نہیں کہا جاسکتابلکہ یہ حق و باطل کا وہ معرکہ ہے جو ایک ایسی درسگاہ کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا جس میں اصلاح معاشرہ کے تمام تر اصول موجود ہوں۔
امام عالی مقام نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس وقت قیام کیا جب ہر طرف ظلم و ستم کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں، انسانیت ظلم و بربریت کا شکار تھی ، عدالت سسکیاں لے رہی تھی زبانوں پر تالے پڑے تھے ، آواز حق بلند کرنا سب سے بڑاجرم تھا ،آمریت کی زنجیریں انسانیت کو جکڑے ہوئیں تھیں ، انسانی اقدار کی بے حرمتی کی جارہی تھی ، کتاب خدا کو پسِ پشت ڈال کر سنت رسول کو برباد کیا جا رہا تھا۔ایسے عالم میں امام حق عشق و وفا کے پیکر اور دکھی انسانیت کے مسیحا درد انسانیت کا اپنے خون سے مداوا کرنے کے لئے اٹھے اور اس انداز میں دین محمدی کا تحفظ فرمایا کہ آپ کا قیام اسلام کی حیات کا ضامن بن گیا۔
بیشک آج کے انسان کی ضرورت تفہیم قیام حسین علیہ السلام ہےاگر واقعہ کربلا کا دقیق مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سفر عشق ہر گام پر اپنے اندر حکمت کے ہزاروں باب سمائے ہوئے ہے۔ کربلا کا واقعہ صرف رونے اور رلانے والی داستان نہیں اور نہ کربلا صرف ایک میدان کارزار ہے بلکہ یہ وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں حریت و فکر و عمل کا درس ملتا ہے کربلا کے آفاقی پیغام کسی خاص دین و مذہب سے محدود نہیں بلکہ یہ ایک ایسا قلعہ ہے جس میں تمام عالم بشریت کے لئے امن و امان کا سامان فراہم ہے۔
اگرچہ واقعہ کربلا سن ۶۱ھ میں پیش آیا اور طلوع آفتاب سے لے کر عصر عاشورہ کا سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے سب کچھ ختم ہوگیا لیکن عاشور کا یہ دن زمانے پر محیط ہوگیا اور آج تک ایک مشعل فروزاں کی صورت تاریخ میں درخشان اور تابندہ ہے اور کوئے حق تلاش کرنے والوں کے لئے آج تک نور افشانی کر رہا ہے۔
اس بات میں شک نہیں کہ شہید قلب تاریخ ہوتا ہے اور تاریخ بغیر دل یعنی بغیر شھادت کے مردہ ہے کیوں کہ بغیر شھادت کے تاریخ تاریک ہے ۔ شہید وہ نور ہے جو ظلمت کدہ میں چمکتا ہے تو ظلمت کدے ویران ہوجاتے ہیں یہ وہ فریاد ہے جو سکون اور جمود میں بلند ہوتی ہے تو جمود کے پہاڑ پانی پانی ہوجاتے ہیں اور ہر طرف حرکت ہی حرکت ہوتی ہے۔ اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے میدان کربلا میں اپنی اور اپنے خاندان کی شہادت پیش کرکے واقعہ کربلا کو شرف انسانیت کی مکمل اور سچی داستان بنا دیا اور کربلا کے ریگزاروں میں حسینی شعور کا وہ پودا لگایا جو قیامت تک پوری انسانیت کو دائمی امن و سلامتی ، جمھوریت اور انصاف کی چھاوں دیتا رہیگا ۔ کربلا کی شھادت اور قربانی نے وہ شعور عطا کیا جو حق کا استعارہ بن کے تا قیامت انسانیت کا سر فخر سے بلند رکھیگا۔
کربلا ایک ایسی عظیم درسگاہ ہے جس نے بشریت کو زندگی کے ہر گوشے میں درس انسانیت دیا اور ہر صاحب فکرونظر کو اپنی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا۔
روز عاشورہ کی تعلیمات ہر انسان کے لئے ابدی زندگی کا سرمایہ ہے۔
عاشورہ کی ثقافت ،امام عالی مقام کی زندگی اور ان کی تعلیمات ہی انسان کے لئے گمراہی اور تباھی سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے ذریعہ جو بنیادی درس دیے ہیں ان میں سب سے پہلا اور بنیادی درس حریت پسندی ہے ۔دنیا میں حریت پسندی کی ہر تحریک تحریک کربلا کی مرہون منت نظر آتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے ذریعہ ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے ،جبر وستم کے مقابلے میں ڈت جانے اور سینہ سپر ہوجانے کا درس دیا۔ امام علیہ السلام نے ظلم و ستم کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے سارے کنبے کو قربان کرکے عالم انسانیت کو سر اٹھاکر جینے کا سلیقہ سکھادیا اور ظالم و جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرؐات عطا کی ۔
حریت پسندی کربلا کا ایسا درس ہے جو حقیقی تصور حیات سے آشنا کرکے ہمیں کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارنے سے علیحدہ کرتے ہوئے ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ مظلوم کی حمایت میں اٹھنے والی پہلی آواز ہماری ہونی چاہئیے اور رخسار ظلم پر پڑنے والا پہلا طمانچہ بھی ہمارا ہی ہونا چاہئیے۔اسی لئے باطل پرست طاقتیں آج بھی کربلا سے ڈرتی ہیں کیونکہ کربلا نے ان کے چہرے سے نقاب الٹ کر حقیقت کو سب کے لئے عیاں کردیا ہے۔
کربلا سے حاصل ہونے والا دوسرا درس بصیرت اور فکر کی گہرائی ہے ۔بصیرت اور گہرائی کربلا کی وہ بنیاد ہے جو اس تحریک کو دوسری تحیکوں سے ممتاز بناتی ہے ۔ کربلا ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ دین کے دفاع اور تحفظ کے لئے سب سے زیادہ ضرورت ’’ بصیرت ‘‘ کی ہے بے بصیرت لوگ اکثر دھوکہ کھا جاتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے باطل کی حمایت اور طرفداری کرنے لگتے ہیں جیسا کہ ابن زیاد کے ساتھ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو فاسق اور فاجر تو نہیں تھے لیکن بے بصیرت تھے اور اپنی بے بصیرتی کی وجہ سے صف باطل میں آکھڑے ہوئے۔مگر کربلا والوں نے جس عمق و بصیرت کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر کہیں اور نظر نہیں آتی۔اور یہی بصیرت اس بات کا سبب بنی کہ یہ واقعہ گزر زمان کے ساتھ پرانا نہیں ہوتا بلکہ ہر طلوع ہونے والا سورج اس کی تازگی اور طراوت کا سبب بنتا ہے۔
کربلا سے حاصل ہونے والا تیسرا درس اخلاص ہے جس عمل میں جتنا خلوص ہوتا ہے اس عمل میں اتنی ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے تاریخ کے اوراق میں کربلا کی جو قدر و منزلت ہے اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ کتنی عظیم اور خالصانہ قربانی تھی جسے رہتی دنیا تک کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے اس لئے تاریخ انسانیت میں ابتدا سے لیکر آج تک جتنی بھی تحریکیں رونما ہوئیں اگر ہر تحریک کا کہیں کوئی نچوڑ نظر آتا ہے تو وہ کربلا ہے اور کربلا آج بھی اپنی بقا کے ذریعہ اخلاص و وفا کا درس دے رہی ہے۔
تاریخ کے اوراق آج بھی دعوت فکر دے رہے ہیں کہ حسین اور حسینیت محض ایک تاریخ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیرت اور طرز عمل کا نام ہے اور نہ ہی صرف ایک حادث اور واقعہ ہے بلکہ کربلا شعور ، حریت ، خودداری ، جرؐات ، شجاعت ، ایثار و قربانی اور انقلاب کا مکمل فلسفہ ہے۔اس کربلا میں ننھے مجاھدوں کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا جوان و اور پیر سالہ کا۔او اس کی بنیادی وجہ یہ کہ یہاں کا بچہ بچہ کربلا سے گہری شناسائی رکھتا ہے اور یہی شناسائی انہیں جذبہ شھادت اور قربانی عطا کرتی ہے۔
واقعہ کربلا پوری انسانیت کے لئے حق و باطل قوتوں کے درمیان سچائی کی دلیل ہے سید الشھداامام حسین علیہ السلام نے حق پرستوں کے باطل پرست طاقتوں سے تقابل کی ایسی حکمت عملی اپنے خون شھادت سے حیات انسانی کے لوح زرُین پر رقم کردی کہ رہتی دنیا تک حق پرستوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ اور تعداد میں کم ہوتے ہوئے بھی اکثرریت کو خون کے دھارے سے مات دینے کا عزم سکھاتی رہیگی ۔
خلاصہ یہ کہ کربلا اس الٰہی درسگاہ کا نام ہے جس نے سسکتی اور مرتی ہوئی انسانیت کو سر اٹھاکر جینے اور عزت سے مرنے کا سلیقہ سکھادیا کربلا اس آفاقی مکتب کا نام ہے جہاں آکر انسانیت اپنے عروج اور کمال تک پہونچتی ہے خدا سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اس عظیم درسگاہ سے درس حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ الھی آمین
مدرسہ جامعۃ الزہرا ، مفتی گنج، لکھنؤ