ٹافی

0
320

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔۔۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


زائرحسین ثالثی جعفرآباد

دہلی سے واپسی پر جیب میں ہاتھ ڈالا تو مجھے سخت چیز محسوس ہوئی ۔نکال کر دیکھا تو یاد آیا کہ اوہو! یہ تو وہی چیز ہے جو مجھے عظمیٰ نے دی تھی۔
دو دن پہلے ایک قافلہ کربلا کے لئے روانہ ہوا تھا ۔عظمیٰ اپنے بھائی کے ساتھ اسی قافلے کے ہمراہ کربلا جا رہی تھی میں اپنے عزیزوں کو دہلی تک پہنچانے کے لئے جا رہا تھا۔ عظمیٰ نے مجھ سے کہا بھائی آپ بھی کربلاچلو۔میں نے کہا کاش ایسا ممکن ہوتا ۔ لیکن ہاں جس دن اللہ کا کرم ہوا مولا ؑ نے بلا لیا تو پھر کوئی جانے سے روک بھی نہیں پائے گا۔وہاں جانے کے لئے جسم کی طہارت ہی نہیں روح کی بھی طہارت ضروری ہے۔انسان کربلا جاکے پھر واپس آئے اور اپنے کردار کو نہ سنوارے تو پھر جانے کا کیا فائدہ۔دعا کرنا انشا ٗ اللہ آئندہ سال جانے کا اراداہ کر رہا ہوں۔
بھائی لو ! اس نے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور ایک چھوٹی سی چمکیلی چیز میرے ہاتھے میں دے دی۔ میں نے کھولنا چاہا مگر اس چیز کو دیکھ کر میرا ذہن دوسری طرف بکھرنے لگا اور ایک بھولتی یادوں کی طرف واپس بڑھنے لگا۔میں نے اسے کھولنا بہتر نہ سمجھا اور جیب میں رکھ لیا۔باتوں ہی باتوں میں سفر کی منزلیں طے ہو چکی تھیں اور ہم سب دہلی پہنچ چکے تھے۔
سفر کیا ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ کچھ یادوں کو پیچھے چھوڑ کر کچھ یادوں کو بھلا کر نئی باتوں کی طرف بڑھنا۔کبھی کبھی سفر اپنے ہمسفروں کے ساتھ باتوں ہی باتوں میں گزر جاتا ہے کہ منزل کب آئی پتہ ہی نہیں چلتا مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ ایسی باتیں بھی ہو جاتی ہیں جو گزری ہوئی باتوں کی یادوں کو تازہ کر دیتی ہیں۔بیشک گزری ہوئی باتوں کی یاد کلیجے کا ناسور بن جاتی ہے اور اتنی اثر انگیز کہ انسان ڈاڑھیں مار کر رونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
کچھ ایسا ہی میرے ساتھ دہلی سے واپسی اس سفر میں ہوا تھا۔ زندگی توابھی مسکرا رہی تھی مگر جب دو مہینے پہلے لکھنؤ کے سفر سے واپسی ہوئی تھی زندگی بکھر چکی تھی۔ یادیں تازہ ہو ہو کر رات کو ڈسنے کے لئے بڑھنے لگی تھیں۔دہلی جاتے ہوئے عظمی نے مجھے یادوں کی دنیا سے نکالنے کی کوشش تو کی مگر اس میں وہ پوری طرح کامیاب نہ سکی۔باتوں ہی باتوں سے وہ میری اداسیوں کو خوشیوں میں بدلنے کی کوشش کرتی مگر میری یادوں کا جو زخم تھا اس کا مرھم اس کے پاس نہ تھا۔وہ اپنی ساری دولت لٹا کر بھی اسے نہیں لا سکتی تھی۔ہاں مگر جس جگہ جا رہی تھی وہاں دنیا کے سارے زخموں کا علاج تھا۔بس میں نے اس سے دعا کی خواہش کی کہ پیاری بہن دعاؤں میں یاد رکھنا۔
عظمیٰ قافلے کے ہمراہ کربلا کے لئے روانہ ہو چکی تھی۔دہلی ایرپورٹ سے ساتھ کئی اور لوگ درگاہ پنجہ شریف واپس ہوئے۔کل پورا ہال قافلے والوں سے بھرا ہوا تھا،کتنے لوگ تھے اور آج میں اکیلا ہوگیا تھا،سب کے ساتھ سب میں ہوتے ہوئے بھی اکیلا ،ایک دم اکیلا۔رات گہری ہوتی گئی ،تنہائی بڑھتی گئی اور یادیں تازہ ہوتی گئیں۔
صبح ہوئی دن گزرا اور شام کو دہلی سے گھر کی طرف واپس جا رہا تھا،میرے ہاتھ میںایک چھوٹی سی چیز مجھے کسی گزری ہوئی باتوں کی طرف واپس لے جا رہی تھی۔ میں نے اس کا کھول اتارا اور اسے منھ میں رکھ لیا۔تھوڑی دیر ٹھنڈی مٹھاس کا ذائقہ ملتا رہامگر علی گڑھ اسٹیشن آتے ہی اس کی مٹھاس یادوں کے لمحات میں گم ہوگئی۔
رات کو تقریباً ۱۰؍بجے علی گڑھ اسٹیشن پر ٹرین رکی میں پانی بھرنے کے لئے نیچے اترا ،ایک انجانی یاد جو کب سے میرے دل و دماغ سے ٹکرا رہی تھی اب تصویر مجسم بن کر میرے سامنے کھڑی تھی۔
سال بھر پہلے کی بات تھی میں بلند شہر امتحان دینے جا رہا تھا اسی اسٹیشن سے اتر کر مجھے اب بلند شہر تک کا سفر بس کے ذریعہ کرنا تھا۔بس پر بیٹھتے ہی میں نے بیگ سے ایک ٹفن نکالا جسمیں کاجو ،بادام، پستہ،چاکلیٹ،اور نہ جانے کئی طرح کی ٹافیاں تھیں…جو میرے گھر سے نکلنے سے پہلے اس نے اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھوں بھجوائی تھی ۔وہ جیسے ہی میرے پاس آکر رُکا میرا موبائل بجنے لگا اٹھا یا تو سلام علیکم کی آواز کا جواب پورا دے بھی نہ پایاتھا اس نے اپنی بات شروع کر دی کہ پہلے یہ بتائے کتنی دیر میں نکلنا ہے آپ کو ،ٹرین کتنے بجے کی ہے تیاری سب کر لئے نہ ،کچھ بھول مت جانا سارا سامان رکھ لیا کہ نہیں…بغیر سانس لئے بولتی چلی گئی …
ارے !۱رے ؛اتنی ھڑبھڑاہٹ کیوں ؟ ہمیشہ کے لئے تھوڑی جا رہا ہوں ، ہاںDear سب ہو گیا؛سب رکھ لیا ؛امی روٹی بنا رہی ہیں تم کو معلوم ہے نہ کہ میرا بغیر ماں کے ہاتھوں کی بنی روٹی کے کوئی سفر مکمل نہیں ہو سکتا ۔بس تھوڑی دیر میں نکلنے والے ہیںہم سب ۔
اور کون کون ہیں آپ کے ساتھ؟
میں ،بڑے ابوکے بیٹے ،اور چچا سب ساتھ میں ہی جائیں گے۔
اور باجی اور بھیا وہ سب کب اور کیسے جائیں گے تب ؟
وہ سب کل بس سے آئیں گے ۔
اچھا کہاں رکو گے ؟
چچا جان ساتھ میں جا رہے ہیں وہ کئی بار بلند شہر جا چکے ہیں ان کی بیٹی وہاں سے بی ٹی سی کرتی تھی ۔جن کے یہاں رہتی تھی انھیں کے یہاں جائیں گے ہم لوگ بھی ،شاید ماسٹر صاحب کہتے ہیں انھیں سب۔باقی ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں مجھے…
اچھا ؛ ہاں یاد آیاوہ میری بھابھی ہی تو ہیں ۔
تب کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہو؟
پتہ نہیں کیوں ؟ آپ جا رہے ہیں ۔شاید اسی لئے گھبراہٹ ہو رہی ہے ویسے یہ کوئی ٹینشن کی بات نہیں ؛آپ اپنا خیال رکھئے گا۔اور ہاں !آپ کو بس میں پلٹی ہوتی ہے نا اس لئے اس میں کھٹی میٹھی ٹافی رکھ دی ہے اسے چوستے رہنا انشا ء اللہ آپ کو پلٹی نہیں ہوگی خیال سے بھول مت جانا ۔میرے دل کا چین ،آرام ،سکون میرا سب کچھ ،میری جان اپنی خیریت بھیجتے رہنا۔
ہاں ،ہاںٹھیک ہے اور تم بھی اپنا خیال رکھنا۔
فون کٹ گیا مگر فوراً پھر گھنٹی بجنے لگی؛کال رسیو کی اس نے پھر بولنا شروع کیا ؛ ایسا نہ ہو کہ صرف امتحان کے چکّر میںکھانا پینا بھول جائیں۔آپ بہت لاپرواہ ہوتے جارہے ہیں دن بہ دن ،صحت کا بھی خیال نہیں رکھتے، بہت لاپرواہ ہیں ،ویسے چاہے جو ہوں مگر میری زندگی کے ہمسفر آپ ہی ہیں۔
اچھا چلو رہنے دو جھوٹ موٹ کی تعریف پسند نہیں مجھے ۔
ٹھیک ہے نہیں کروںگی کبھی اب ، فری کی تعریف کردو تو چچلانے لگتے ہیں ،
sorry dear ناراض مت ہو ۔یقیناً قابل رشک ہے میری بھی زندگی تم کو پا کے ، مگر ساتھ نبھانا ایسا نہ ہو کہ کہیں دھوکہ دے جاؤ ۔
میں اور لڑکیوں کی طرح نہیں جو کسی کے بہکاوے میں آجاؤں ،اب آپ جائے جلدی سے تیاری کرئے اور نکلئے گھر سے۔جب آپ کہیں دور جاتے ہیں تو آپ کی یاد بہت آتی ہے ۔ مجھے یاد کرتے رہنا میرے ہمسفر ،میری زندگی خدا حافظ!
اور میری زندگی میں اجالابکھیرنے والی میری روشنی…خدا حافظ!۔
بس روانہ ہو چکی تھی میںنے ٹفن سے ایک ٹافی لی اور اسے منھ میں رکھ لیا تھوڑی دیر بعد میں نیند کی آغوش میں جا چکا تھا۔
ایک جھٹکے کے ساتھ میری آنکھ کھلی ،بس رک چکی تھی ہم منزل پر پہنچ چکے تھے۔ ماسٹر صاحب کے گھر قیام تھا۔
فرصت کے بعد موبائل اُٹھایا کئی کال آ چکی تھی گھر سے امی سے گفتگو کرنے کے بعد روشنی کو کال کیا گھنٹی بجتی رہی دوسری طرف سے کوئی جواب نہ ملا؛ کچھ لمحوںبعد روشنی نے واپس مجھے کال کیا ،سلام و جواب کے بعد ایک خاموشی چھا گئی ۔میں نے کہا کیا ہوا اتنا سناٹا کیوں ہے ۔ناراضگی کے لہجے میں اس نے کہا کچھ نہیں۔
اوہو! تم اتنی سی بات پر نارض ہو گئی ۔Sorryروشنی ؛رات کو ٹرین پر بیٹھنے کے بعد نیند آگئی پھر صبح بس میں بیٹھنے کے بعد بھی ایسا ہی ہوااور…
اور وور کچھ نہیں آپ تو بولئے ہی مت ؛ایک لائن میسیج لکھ کے بھیج دیتے کہ ٹرین مل گئی بیٹھ گئے ،رات کو نہیں بتا پائے میسج ہی بھیج دیتے ۔مگر نہیں …قریب سے ہمدردی جتاتے ہیں اور دور جاکے بھول جاتے ہیں۔
نہیں روشنی ایسی بات نہیں ہے۔
چلئے رہنے دیجئے مجھے آپ سے نہیں بولنا۔
میں چپ ہوگیا۔
ہاں آپ کے لئے یہ اتنی سی بات ہوگی ۔رات سے کتنی بار کال کی ہوں ایک بار فون اٹھا کے جواب دے دیتے ،بھابھی سے کہا معلوم کرکے بتاؤ کہ پہنچے کہ نہیں سب لوگ ، ابھی تک انھوں نے بھی کوئی جواب نہ دیا رات کو کئی بار آنکھ کھلی ،بار بار موبائل اٹھا کے دیکھا ایک بھی نہ کال کا جواب نہ میسج،میں ادھر کتنا پریشان ہوں کہ نہ جانے کہاں ہیں کہاں پہنچے اور آپ ہیںکہ کوئی فکر ہی نہیں۔
اب صرف غصہ ہی کرو گی یا …
نہیں پوچھناخیریت…وہ چپ ہوگئی ۔
میں نے کہا روشنی اللہ کے کرم سے سفر بہت اچھا رہا ہم سب لوگ خیریت سے پہنچ گئے ، آپا کا فون آیا تھا صبح وہ سب بھی نکلے ہیں گھر سے ابھی لکھنؤ پہنچے ہیں ۔میں بولتا گیا وہ چپ چاپ سنتی رہی ؛پھر تھوڑی دیر بعد بولی… اچھا اب بس کرئے پہلے یہ بتائے کہ کھانا کھا یا کہ نہیں ۔
ہاں بس وہی تیاری ہو رہی ہے ۔
اچھا تو ٹھیک ہے پہلے کھانا کھائے سونے اور کھانے کے معاملے میںآپ سے زیادہ لاپرواہ ڈھونڈھے نہ ملے گا۔اچھا خدا حافظ میری زندگی !میرا سب کچھ…
خدا حافط میری روشنی…فون کٹ گیا ۔
روشنی ایسی ہی تھی کی وہ کبھی مجھ سے دن بھر کے لئے کیا زیادہ وقت کے لئے بھی غصہ نہ ہوتی،میرے بغیر وہ ایک دن نہ رہ سکتی،نہ جانے ایسا کیا ہوگیا کہ آج وہ میرے بغیر دن اور راتیں گزار رہی تھی نہ جانے کیسے اور کیوں کر………
گزشتہ کی یاد بھی کچھ مسرت نہیں پہنچاتی۔یادیں کیا ہیں اصلیت سے کتنی مختلف ہیں خوشی کا ایک موقع اور پھر تھوڑے دنوں بعد اس کی یاد دونوں بالکل الگ الگ چیزیں ہیں پھر بھی ایک ہیں۔ اکیلا ہونا بھی اس دنیا میں کتنا برا ہے کاش وہ اس وقت میرے ساتھ ہوتی آخر کیوں ہوگئی مجھ سے دورکیوں؟………
ٹرین ہارن دے چکی میں پانی بھرکر ٹرین میں چڑھ رہا تھا کہ میرے منھ سے ٹافی ترین کی پٹری پہ جا گری۔ٹرین آگے بڑھی اور میرے کتنی یادیں بھی اسی ٹافی کے ساتھ پہئے کے نیچے آکر بکھر گئیں۔
97951356

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here