نیر مسعود کی افسانوی کائنات :اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے

0
795

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

عریشہ تسنیم

نیر مسعود اعلا درجے کے محقق، مترجم اور نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی شہرت کی خاص وجہ ان کے وہ افسانے ہیں جو چار مجموعوں میںشائع ہوئے ہیں۔ یہ مجموعے ’’سیمیا‘‘، ’’عطر کافور‘‘، ’’طائوس چمن کی مینا‘‘اور ’’گنجفہ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ نیر مسعود کی تخلیقات کو بڑے ادب واحترام سے دیکھاجاتا ہے۔ انھوں نے 1971 سے باضابطہ افسانہ لکھنا شروع کیا اور ان کا پہلا افسانہ ’’نصرت‘‘ اسی سال شائع ہوا۔ نیر مسعود ناتوبسیار نویس ہیں اور نا ہی زودنویس، کیوںکہ وہ اپنے افسانوں پر بہت توجہ دیتے ہیں۔ اس لیے ان کے افسانے فن کے اعتبار سے بڑے معیاری ہوتے ہیں۔
نیرمسعود نے مغربی ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے اور جرمن ادیب کافکا سے خاصے متاثر ہیں۔ انھوں نے کافکا کے دستیاب افسانوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کے افسانوں میںکافکا کی طرز نگارش اور فن جابجا دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ان کے افسانے اتنے مبہم نہیں ہیں جتنے ’’کافکا‘‘ کے ہیں۔ نیر مسعود نے جب افسانہ لکھنا شروع کیا اس وقت اردو ادب میں جدیدیت کا بول بالا تھا اور تجریدی اور علامتی افسانے لکھے جارہے تھے۔ انھوںنے بھی اس کا اثر قبول کیالیکن اپنی پہچان الگ بنائی کیوںکہ ان کا ذہن کلاسیکیت سے بھی متاثر تھا جو ورثے میں انھیں ملی تھی۔ انھوںنے اپنے افسانوں میں بیانیے کی تکنیک کو مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ یہ تکنیک ان کے افسانوں کے چاروںمجموعوں میں دیکھی جاتی ہے۔
نیرمسعود کے افسانوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے افسانوں کے پلاٹ اکہرے نہیں ہوتے بلکہ اصلی پلاٹ سے ذیلی پلاٹ نکلتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی ذیلی پلاٹ ہی اصلی پلاٹ معلوم ہوتاہے۔ لیکن اختتام کے وقت اصلی پلاٹ ابھرکر سامنے آتاہے اور ذیلی پلاٹ دھندھلے ہوجاتے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ افسانوں میں بھول بھلیاں جیسی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ نیر مسعود کے افسانوں میںFunctional نثر کی خاصیت ہے۔ اس لیے وہ جذباتیت سے عاری ہوتی ہیں۔ پورا افسانہ واحد متکلم کے ذریعے ادا ہوتا ہے لیکن قاری کو اس کا گمان نہیں ہوتااور نہ ہی وہ بار محسوس کرتاہے۔ یہ ایک بڑی خوبی ہے۔ افسانوں کی زبان نہایت سادہ ہے اور جملے چھوٹے چھوٹے ہیں۔ نیر مسعود کی زبان دانی اور زبان کی صفائی کی تعریف بڑے بڑے نقادوں نے بھی کی ہے۔
ان کے افسانوں کا ماحول اکثر وبیشتر خواب ناک اور خوف کی چاشنی لیے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ افسانے کے پس منظر کو ابھارنے کی غرض سے ابہام کا سہارا لیا جاتا ہے جس سے قاری کا ذہن افسانے میں کھوجاتا ہے۔ افسانوں میں منظر نگاری کے بھی عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ مکالمے بالکل عام فہم زبان میں فطری ہوتے ہیں اور معنوی جہات رکھتے ہیں۔ نیر مسعود کے افسانوں میں ایک طرح کا خلا پایا جاتاہے جو قاری کو پرکرنے کے لیے چھوڑدیاجاتاہے یعنی کچھ باتوں کو نہ کہہ کر بھی کہہ دینا ہوتا ہے۔ سہیل وحید سے انٹرویو کے دوران نیرمسعود فرماتے ہیں:
’’میں زائد چیزوں کو نہیں رکھتاہوں بلکہ بہت سی چیزیں ان کہی چھوڑ دیتا ہوںکہ پڑھنے والا خود سمجھ لے گا۔ منٹو کے یہاں تو کمال تھا۔ بیدی کے یہاں بھی خصوصیت تھی زبان پر خاص محنت کرتے تھے کہتے بھلے نہ ہوں‘‘۔ ۱؎
نیرمسعود کے افسانوں میں اکثر باطنی بے چینی اور ذہنی کشمکش کی داستان ملتی ہے۔ لیکن خارجی دنیا کی تصویر بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ اس میں لکھنؤ کے متوسط طبقے اور مزدور طبقے کی معاشرتی اور تہذیبی پہلو کی بھی عکاسی ہے۔مثلاً افسانہ’’ رے خاندان کے آثار‘‘ عام انسانی زندگی پرمشتمل ہے، افسانہ ’’شیشہ گھاٹ‘‘ شیشہ گر کی زندگی پر مبنی کہانی ہے اور افسانہ ’’جانوس‘‘ اور ’’جرگہ‘‘ میں دیگر چیزوں کے علاوہ لکھنؤ کی معدوم ہوتی تہذیب وتمدن کی تصویر نظر آتی ہے۔ کرداروں کی شناخت ان کی گفتگو اور پیشے سے ہوتی ہے، ان کے لباس یا شکل وصورت سے نہیں ہوتی۔ افسانے چوںکہ واحد متکلم میں بیان ہوئے ہیں اس لیے افسانوں میں کرداروں کے لیے نام کا استعمال کم کم ہے۔ ان کو مخاطب کرنے کے واسطے علامات یا ’’وہ‘‘، ’’مقبرے کا نگراں‘‘، ’’ڈاکٹر صاحب‘‘، ’’باپ‘‘ وغیرہ کا استعمال ہوا ہے۔
ان کے افسانے خواب اور بیداری کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ ماحول میں ویرانی جیسے روحوں کی دنیا ہو یا صدیوں پرانے زمانے کاکوئی مقام، بستی یا شہر ہو اور ان میں پیش کی گئی ایک ایک چیز کی وضاحت کچھ اس طرح سے کی گئی ہے جیسے ہم ان کا مشاہدہ کر ر ہے ہوں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو ان میں ایسے رموز واشارات ہیں جو افسانوں میں نظام قدرت، انسان کی تخلیق، موت وحیات اور انسانی فطرت سے متعلق فلسفوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ دراصل نیر مسعود کے اکثرافسانے خواب سے تراشیدہ ہیں یا پھر انھیں تخیل کی بنیاد پر کہانی کی شکل دی گئی ہے۔ اسی لیے ان کے افسانے چار بنیادی اجزا پر مبنی ہیں۔ خواب میں حقیقت کا مشاہدہ، یا حقیقت میں خواب کا گمان اور واہمہ میں واقعہ کا مشاہدہ یا واقعہ میں واہمہ کا گمان۔ انھی خاص وجوہات سے نیر مسعود کے افسانے الگ قسم کے ہیں۔ان کے افسانوں میں کسی کسی مقام پر میجکل ریلزم کی جھلک بھی ملتی ہے جو ہلکے خوف کے ساتھ تحیر خیزی اور کشش پیدا کرتی ہے۔ اس کا مشاہدہ افسانہ مراسلہ، سلطان مظفر کا واقعہ نویس، جرگہ اور عطر کافور میں بخوبی کیا جاسکتا ہے۔یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اچانک مجھے محسوس ہوا کہ مٹی میں سے کافور کی ہلکی سی لپٹ شعلے کی طرح اوپر لپکی اور غائب ہوگئی۔ میںنے ہتھیلی کو اپنے نتھنوں کے قریب کرکے ایک سانس لی، لیکن مجھے کوری مٹی کی ٹھنڈی خوشبو کے سوا کچھ محسوس نہ ہوا۔‘‘۲
نیرمسعود کے افسانوں میںخوف واسرار کی فضا ملتی ہے جو طلسماتی ماحول تشکیل کرتی ہے اور اسے داستانوی رنگ دیتی ہے۔ ’’سلطان مظفر کا واقعہ نویس‘‘ اسی قسم کا افسانہ ہے، یہ اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’کچھ دیربعد یہ عمارت ایک بہت بڑے دھبے کی طرح رہ گئی اور دیکھنے والے کا تصور اسے کوئی شکل دے سکتا تھا۔ میرے تصور نے اسے قلعے کی شکل دے دی اور دیکھتے دیکھتے مجھے اس کا برج اور فصیل نظر آنے لگی۔‘‘ ۳؎
نیر مسعود کے افسانوں میں ماضی اور حال کے درمیان رنجش کا پہلو بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور ماضی حال پر حاوی رہتا ہے ۔ مصنف اپنے تحت الشعور میں پیوست ناقابل فراموش ماضی کی یادوں کو علامتوں کے ذریعے واپس لانے کی کوشش کرتے ہے اور یاد ماضی میں کھویا نظر آتا ہے۔ ’’مراسلہ‘‘،’’سلطان مظفر کا واقعہ نویس‘‘، ’’اوجھل‘‘، ’’وقفہ‘‘، ’’جانوس‘‘، ’’ساسان پنجم ‘‘ وغیرہ افسانے اسی نوعیت کے ہیں۔
جہاں تک نیرمسعود کے افسانوں کی فنی خصوصیات کا تعلق ہے تومطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے افسانوں میں لسانی اظہار کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور فنی تدابیر کے ذریعے ایک مرکب اور مربوط وصفی نظام کی تخلیق کی گئی ہے۔ نیر مسعود کی تحریروں میں جورگ لوئی بورخیس کا حوالہ ملتاہے ۔ نیر مسعود کے یہاں بھی بورخیس کے افسانوں کی طرح بیانیے میںممکنہ امکانات بیک وقت موجود رہتے ہیں۔ بیان کی یہ غیریقینی اور غیر قطعی کیفیت کسی امکان کو پوری طرح رد نہیں کرتی۔ لہٰذا امکانات کی موجودگی بیان میں جادوئی کیفیت اور کشش پیدا کردیتی ہے۔ اس کے متواتر استعمال سے اس بات کی تردید ہوتی ہے کہ افسانوی نثر محض مفہوم کی سطح پر سرگرم عمل ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس میں یہ خصوصیت دیکھنے کو ملتی ہے:
’’مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے کسی مبہم سے معمے کا حل دریافت کرلیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ یہ حل اصل معمے سے زیادہ مبہم ہے۔‘‘
نیر مسعود نے افسانوں میں قول محال کی تکنیک کو بھی ہنر مندی کے ساتھ استعمال کیاہے۔ قول محال مختلف اور متضاد کیفیات یا پہلوئوں کے بیک وقت لسانی اظہار کا موثر وسیلہ ہوتا ہے۔ قول محال سے پیدامعنوی انتشار معنوی تعبیر و تشریح کے نئے گوشوں کو سامنے لاتا ہے۔
ان کے افسانوں میں Improbable Narration کی تکنیک کا بھی استعمال ہوا ہے۔ یہ قول محال کی مماثل ہوتی ہے اور اس کامفہوم یہ ہے کہ بیان معروضی ہو لیکن بعید از قیاس نہ لگے اور اسے پوری طرح مسترد نہ کیا جاسکے۔ یہ مثال دیکھتے چلیں:
’’زمین کی پیمائش سے لے کر پتھر کی آخری سل کے رکھے جانے تک کا حال اس نے اس طرح بیان کیا جیسے وہ مجھ کو مقبرہ بنتے دکھا رہاہو۔ کہیں کہیں تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں اس کا کہا ہوا سن نہیں رہاہوں بلکہ اپنا لکھا ہوا پڑھ رہا ہوں۔‘‘۵؎
نیرمسعود نے افسانوی ادب کی ایک اور تکنیک سے بھی استفادہ کیاہے جسے Foreshadowing کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ فن پارے کے ابتدائی حصے میں واقعات کے نقوش اس طرح ترتیب دیے جائیں کہ اس سے انجام کااندازہ لگایاجاسکے۔ بہ الفاظ دیگر عنوان یا ابتدائی چند سطور سے کہانی کے اختتام کا اندازہ لگایاجاسکے۔ Foreshadowing سے افسانے میں وصفی اور موضوعی وحدت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ نیر مسعودنے فضا سازی اورعنوان قائم کرنے میں بھی اس تکنیک سے استفادہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر ’’وقفہ‘‘ کے اتبدائی جملے دیکھے جاسکتے ہیں:
’’ہمارے خاندان کی تاریخ بہت مربوط ہے اورقریب قریب مکمل ہے۔ اس لیے کہ میرے اجداد کواپنے حالات محفوظ کرنے اور اپنا شجرہ درست رکھنے کا بڑا شوق رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاندان کی تاریخ شروع ہونے کے وقت سے لے کر آج تک اس کا تسلسل ٹوٹا نہیں ہے۔ البتہ اس کی تاریخ میں کوئی کوئی وقفہ ایسا آتا ہے۔‘‘ ۶؎
اس ابتدائی پیراگراف کے فوراً بعد ایک جملہ آتا ہے۔
’’میراباپ ان پڑھ آدمی تھا۔‘‘
یعنی یہی وقفہ ہے اور افسانہ اسی بیان پر استوار ہے۔
انھوںنے اپنے افسانوں کے ذریعے یہ حقیقت بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ زندگی بیک وقت فیکٹ بھی ہے اور فکشن بھی۔ زندگی اپنے محور پر ایک خاص رفتار سے چلتی ہے۔ لیکن اس کے راستے میں عجوبے پن، بدنظمی، مافوق الفطری پن، حولناکی، اذیت دہی اور غیر مانوسیت جیسی رکاوٹیں اس کی رفتار کو متاثر کرتی رہتی ہیںاور تب زندگی ان عناصر کا ایک مرکب معلوم ہونے لگتی ہے۔ظاہر ہے یہ فکشن کی ہی دوسری شکل ہے۔
نیرمسعود کے افسانے اکثر کسی دوسرے افسانے کی توسیع یا اس کی اگلی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن افسانے اپنے آپ میں مکمل بھی ہوتے ہیں۔ قاری اگلی کڑی کی کمی نہیں محسوس کرتا۔ ان کے افسانے علالت، معالج، تیماردار وغیرہ کے ذکر سے بھی خالی نہیں رہتے اور کرداروں پر اکثر جذبہ انگیز حالات میں غنودگی طاری ہوجاتی ہے جو انسانی فطرت کے مترادف ہے مثلاً: ’’مراسلہ‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ان کو مطب سے فرصت ہی نہیں ہوتی۔‘‘ بیگم نے معذرت کے انداز میں کہا۔ وہ کچھ اور کہہ رہی تھیں،لیکن مجھ پر شاید کچھ دیر کی غنودگی سی طاری ہوگئی تھی، اس لیے کہ جب میں چونکا تو دالان میں صرف بیگم تھیں اور …میں بیگم کی طرف مڑا۔ ان پر بھی غنودگی طاری تھی۔‘‘ ۷؎
ان کے مختلف افسانوں میں ایک خاص کردار اور اس کا عمل اکثر یکساں رہتے ہیں مثلاً:’’نصرت‘‘ میں بوڑھے جراح کا ذکر ہے۔ ’’مارگیر‘‘میں ویسا ہی شخص سانپ کے کاٹے کا علاج کرتا ہے، ’’مسکن‘‘ میں باغبانی کرتا اور پتیوں سے علاج کرتا ہے، اور ’’وقفہ‘‘ میں معلمی کے فرائض انجام دیتا ہے۔ اس طرح یہ علامتی بوڑھا افسانوں میں ازلی دانش کے پیکر کے طور پر سامنے آتا ہے۔
اسی طرح افسانہ ’’اوجھل، ’’نصرت‘‘،’’مارگیر‘‘،’’مسکن‘‘ اور ’’عطر کافور‘‘ میں خوشبو کا تذکرہ ہے جسے راوی محسوس کرتا ہے۔ یہ غیب کا شہود میں مشاہدہ ہے۔
الغرض نیر مسعود کے افسانوں میں موجود امتیازی عناصر سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ ان کے افسانے نہ صرف واقعیت اور زماں ومکاں کے مروجہ تعریف کی نفی کرتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی احساس دلاتے ہیں کہ اردو فکشن میںپہلی بارادب کی مختلف فنی تکنیک کا شعوری طور پر استعمال ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ نیر مسعود کے افسانوں کی تہہ میں جاگزیں بیشتر نقوش واستعاروں کو عام قاری نہیںسمجھ پاتا۔پھر بھی ہم یہ جانتے ہیں کہ ارتقا نظام قدرت کابنیادی اصول ہے۔ اس لیے اردو کی تحقیق وتنقید بھی وقت کے ساتھ ارتقائی منازل طے کریں گی اور اس کے ساتھ انسانی فکر میںنئی نئی شاخیں نکلیںگی، مختلف نظریات سامنے آئیں گے اور نئے نئے رجحانات پیداہوںگے۔ تب عام قاری کے لیے ان نقوش واستعاروں کو سمجھنا زیادہ آسان ہوگا۔ رہی بات نیر مسعود کے اسلوب اور فن کی تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بہت اعلا درجے کے ہیں۔ ان کے افسانوں میں موقع ومحل کے مطابق الفاظ کی چیدگی، جملوں کا مختصر ہونا اور گہری معنویت رکھنا ، زبان کا عام فہم ہونا اور قواعد وساخت کے سلسلے میں مصنف کا حددرجہ محتاط ہونا ایسی چیزیں ہیں جن سے عام قاری بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
اخیر میں، میںیہی کہوںگی کہ نیر مسعود کے افسانے اردو ادب کا نہایت قیمتی سرمایہ ہیں اور اردو ادب سے تعلق رکھنے والوں خصوصاً نوجوان طبقوں کے لیے جو تخلیق، تنقید اور تحقیق سے دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ بہترین نمونہ ہیں۔
حوالہ جات
۱۔رسالہ ’’آجکل‘‘، جولائی، 2008،ص:7
۲۔افسانہ ’’مراسلہ‘‘، ص:14
۳۔افسانہ ’’سلطان مظفر کا واقعہ نویس‘‘،57
۴۔افسانہ ’’وقفہ‘‘ ص:128
۵۔افسانہ ’’سلطان مظفر کا واقعہ نویس‘‘،61
۶۔افسانہ ’’وقفہ‘‘، ص:89
۷۔۔افسانہ ’’مراسلہ‘‘،ص:22
٭٭٭
Mob:9100061575
پی ایچ ۔ڈی ریسرچ اسکالر
شعبۂ اردو، مولاناآزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، حیدر آباد

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here