نئی نسل کی ایک شاعرہ ہاجرہ

0
353

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر طارق منظور

ہاجرہ زریاب کی شاعری اس مقام پر ہے جہاں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں رہ گئی ہیں ۔ درس و تدریس کے پیشے سے تعلق رکھنے والی اس شاعرہ نے اپنی ذہانت و فکری اپج کی بدولت شہرت و عزت کی منزلوں کو اس قدر تیزی سے عبور کیا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہیں ۔ اپنے تعلیم و تعلم کے فرائض منصبی کی تکمیل کرنے کے ساتھ خانگی مصروفیات اور پھر ادبی و علمی سرگرمیوں میں بھر پور طریقے سے شراکت داری اپنے آپ میں حیران کن ہی تو ہے ۔ وہ شوشل میڈیا پر شائع ہونے والے کئی ادبی میگزین میں اپنی ادبی صحافت کا جوہر دکھا رہی ہیں ۔کاخِ ادب کی ایڈمین کی حیثیت سے وہ اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکی ہیں ۔ لعل و گہر میں معاون مدیرہ کا فریضہ انجام دے رہی ہیں اس کے علاوہ وہ اپنی شاعر ی کے ذریعہ فیس بک پر ہزاروں قارئین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں ۔ان کی شاعری کا دائرہ فکر وسیع تر ہے ۔زبان و بیان میں فنی رچاو اور پختگی ملتی ہے ۔وہ زندگی کے مسائل کو خوبصورت اسلوب میں پیش کرنے کا ہنر رکھتی ہیں ۔محبت جو دنیا کی لا فانی شئے ہے مختلف رنگوں اور الگ الگ کیفیات میں ان کی شاعری کا موضوع بنا ہے ۔
محبتوں کا بھرم اس طرح نبھاؤں گی میں
کہ ہجر میں بھی تجھے اپنے پاس پاؤں گی میں
اس موضوع پربے شمار اشعار کہے گئے ہیں ۔ مگر ہاجرہ نور زرؔیاب نے محبت کے حوالے سے مذکورہ شعر میں انفرادیت پیدا کی ہے انھوں نے ہجر کو مروجہ معانی میں نہ استعمال کر کے وصل کے معنی میں برتا ہے ۔ہجر میںدل کی تڑپ اور بے چینی کو زمانے سے چھپا لینا جہاں ضبط کی آخری سرحد عبور کرنے کے مترادف ہے وہیں محبت کی اس پاکیزہ تہذیب کو محفوظ رکھنے کی کامیاب کوشش بھی ہے جو محبت کا بھرم قائم رکھنے کا جواز بنتی ہے ۔ یہی وہ اسلوب اور انداز بیان ہے جو ہاجرہ نور زریاب کو موجودہ شاعرات سے ممتاز کرتا ہے
اچھے شعر کی پہچان کیا ہے اس بارے میں مختلف خیالات اور جدا جدا دلائل ہو سکتی ہیں مگر اچھے شعر کی تعریف اگر ہم بغیر کسی لفظی کرتب بازی کے بیان کرنا چاہیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اچھے اشعار کی پہچان یہی ہے کہ شعر سن کر یا پڑھ کر سامع یا قاری کے ذہن و دل میں ایک بجلی سی کوند جائے اور وہ اس شعر کے سحر میں کھو کر رہ جائے ۔یہ کیفیات اگر کسی شاعر کے شعر میں موجود ہے تو وہ بلا شبہ اچھا شعر کہلائے جانے کا حقدار ہے ۔ ہاجرہ نور زریاب کا یہ شعر دیکھیں :
اتنی آہستگی سے دل ٹوٹا
کہ مری کائنات گونج گئی
اس موقع پر مجھے کئی اشعار یاد آر ہے ہیں جو اس قبیل کے ہیں دیکھیں کہ کس طرح شاعر نے بغیر کسی لفظی تصنع کاری کے شعر کو ان اوصاف سے متصف کر دیا جو اچھے شعرکا شناخت نامہ ہیں
کتنی مشکل سے دل سنبھالا تھا
اس نے پھر مسکرا کے دیکھ لیا
ڈاکٹر ماجد جائسی
ترے بارے میں اکثر سوچتا ہوں
میں نا بینا ہوں منظر سوچتا ہوں
شاذ عارفی
حادثے جتنے ہیں سب سوچے ہوئے سمجھے ہوئے
کوئی حیرانی نہیں اب آنکھ اور منظر کے بیچ
ڈاکٹر قمر صدیقی
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہو تا
قابل اجمیری
مذکورہ بالا اس لئے درج کئے گئے ہیں تا کہ اس اسلوب فکرکو اجاگر کیا جا سکے جو شاعر کو منفرد اور ممتاز کرتا ہے ۔ اور یہ اسلوب بلا شبہ ہاجرہ زریاب کی شاعری میں جلوہ گر ہے۔
تو نے کاغذبھی کبھی نقش بنایا تھا مرا
کر گئی مجھ کو وہی نقش نگاری پاگل
زرؔیاب

موت اور زندگی کا معاملہ روز ازل سے ہی معمہ بنا ہوا ہے ۔زندگی اور موت اس گھتی کو سلجھانے اور اس کو سمجھنے کی انسان نے کتنی ہی کوششیں کر لیں مگر اس کے راز سے پردہ نہ اٹھ سکا ۔کس کی زندگی کتنی ہے ۔کب کس کی موت آئے گی اس کا علم صرف اسی کو ہے جس نے اس مخلوق یعنی انسان کو پیدا کیا ۔ ہاجرہ زریاب نے زندگی کو اپنے طور سمجھنے کی کوشش کی ہے :
سانس کی ڈور پہ زندہ ہیں جئیں گے کب تک
ہم ہیں کاغذ سے بنی ناو بہیں گے کب تک
ہا جرہ نور زریاب جہاں اپنی شاعری کو سلیس اور عام فہم زبان میں پیش کرنے پر یقین رکھتی ہیں وہیں کہیں کہیں وہ لفظیات کو نئے طریقے سے برت کر معنی و مفاہیم کو نیا زاویہ بھی عطا کرتی ہیں ۔اس سے ان کی تخلیقی صلاحیت اور فنی دسترس کا اظہار ہو تا ہے
اگر چہ مول میرا کچھ نہیں ، انمول ہوں پھر بھی
بہت نایاب لوگوں سے بنا رکھتی ہوں میں رشتے
مذکورہ بالاشعر میں ہاجرہ زریاب نے ’مول،‘ ’ انمول‘ اور ’نایاب‘ جیسے لفظیات سے جو شعری فضا بندی کی ہے وہ لائق ستائش ہے
ان کی شاعری میں ملک و ملت کے لئے ہمدردی کا جذبہ ہے وہ یہی چاہتی ہیں کہ ہم آپس میں میل و محبت کے ساتھ زندگی گزاریں ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہوں ۔ ہر طرف امن وامان قائم ہو :
جانے ہماری قوم ہی کیوں متحد نہیں
پنچھی بھی جب کہ اڑتے ہیں مل کر قطار میں
ہاجرہ زریاب کے کچھ اور اشعار نقل کر رہا ہوں جس میں تازگی اور زندگی کے مختلف مسائل کی ترجمانی ملتی ہے ۔
رہوں زمیں عزائم ہیں آسمانوں کے
میں چاہتی ہوں چراغوں کو ماہتاب کروں
طائرِ فکر تو اڑان میں ہے
ہر قدم راہِ امتحان میں ہے
اب تو ذوقِ جنوں مرا زریاب
نہ زمیں پہ نہ آسماں میں ہے
تری ہی لو سے تو روشن ہے زندگی میری
اجال دل کا ، تو آنکھوں کی روشنی میری
مین نے بھی شاد رہنے کی دنیا میں ٹھان لی
اب تو غمِ حیات بھی دے حوصلہ مجھے
ماں نے دی پھر کامیابی کی دعا
مجھ کو یہ حاصل یہ سعادت ہو گئی
صرف بے عیب ہے خدا کی ذات
چاند تو ویسے ماہتاب میں ہے
لکھنو
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here