حفیظ نعمانی
2014ء کے شری نریندر مودی نے وزیراعظم بننے کے بعد ملک میں فرقہ پرستی کی خلیج کو اپنی صلاحیتوں سے کم کرنے کے بجائے اپنا ہر دن ان کو چوڑا کرنے میں گذارا۔ اور وہ اس میں اتنا کامیاب ہوئے کہ ان کے چار سال پورے ہوتے ہوتے ان کی پارٹی کا ہر ورکر اب صرف یہ دیکھتا ہے کہ بھگوا ہندو کون ہے اور پھر آخری سانس تک اس کا ساتھ دیتا ہے؟ کٹھوعہ جموں میں جو کچھ ہوا وہ اتنا گھنائونا نمونہ ہے جس پر انسانیت برسوں سرپکڑکر روئے گی۔ آٹھ سالہ آصفہ کے ساتھ جو بھی برے سے برا ہوا وہ ایک مندر کے اندر ہوا اور منھ کالا کرنے والوں میں خبروں کی حد تک مندر کا پجاری بھی تھا اور اسے جتنے دن رکھا گیا اسی مندر میں رکھا گیا اور سب کچھ ہونے کے بعد اس کا گلا بھی وہیں گھونٹا گیا اور پتھروں سے سر بھی مندر میں ہی کچلا گیا۔ کیا اس کے بعد بھی یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں نے کیا وہ ہندو ہیں اور مندر میں بھگوان کی پوجا کرتے ہیں؟
کسی مندر میں ایسا کام کرنے والے شیطان کے پجاری تو ہوسکتے ہیں بھگوان کے نہیں۔ اب ان کو کیا کہیں گے جو اُن شیطان کے پجاریوں کو سزا سے بچانے کے لئے ترنگا لہراتے ہوئے اور بھارت ماتا کی جے اور وندے ماترم کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر اُتر آئے جن میں بی جے پی کے دو وزیر بھی تھے جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم سے پارٹی نے کہا تھا کہ سی بی آئی کی جانچ کا مطالبہ کرو۔ اب یہ مودی جی بتائیں گے کہ سی بی آئی کی انکوائری شیطان کے پجاریوں کو سزا دلانے کے لئے ہے یا انہیں حیدر آباد کے اسیمانند کی طرح بچانے کیلئے؟
ملک کے پچاس بہت بڑے چوٹی کے ریٹائرڈ افسروں نے وزیراعظم کو ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ آزادی کے بعد یہ ملک کا سب سے سیاہ دَور ہے۔ یہ سابق بڑے افس
Also read