9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں
محمد عباس دھالیوال۔
اردو ادب میں جب طنز و مزاح کے کالمز کا ذکر ہوتا ہے تو فکر تونسوی کے پیاز کے چھلکے کے بغیر یہ ذکر ادھورا نا مکمل ہے کیونکہ فکر تونسوی نے طنزو مزاح سے لبریز اپنے اس کالم پیاز کے چھلکے کے ذریعے جو منفرد پہچان بنائی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
فکر تونسوی جن کا اصل نام رام لال بھاٹیہ تھا اردو وہندی ادب کی دنیا کے ایک عظیم ادبی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔آپ کی پیدائش7 اکتوبر، 1918ء کو بستی منگروٹھہ تونسہ شریف میں ہوئی تھی۔ جبکہ بقول محمد اعظم فکر تونسوی صاحب کی پیدائش شجاع آباد، ضلع ملتان میں ہوئی ۔آپ کا اصل نام رام لال بھاٹیہ تھا۔ فکر کے والد دھنپت رائے ایک زمیندار چوہدری نارائن سنگھ کے یہاں منشی تھے ۔
فکر نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں سے حاصل کی جبکہ میٹرک کا امتحان ہائی اسکول تونسہ سے پاس کرنے بعد آپ ایمرسن کالج، ملتان میں داخلہ ہوئے۔ لیکن اسکے ایک سال بعد ہی آپ کے والد انتقال فرما گئے۔ جس کے صدمے نے آپ کو بے حال کر دیا۔ جس کے نتیجے میں آپ کو مجبورًا تعلیم درمیان میں ہی چھوڑنا پڑی اور روزی روٹی کی تلاش میں لگ گئے۔ اسی بیچ شروع شروع میں ہفتہ وار رسالے کسان میں کام کی ابتدا کی۔
فکر کے مطابق انکی ادبی زندگی کا آغاز زیگزین ‘ادبی دنیا’ میں نظم ‘تنہائی’ 1942 میں شائع ہونے سے ہوا حالانکہ اپنی ادبی زندگی کی شروعات کو سنجید ہ آغاز کہتے ہیں،اس سے پہلے بھی وہ غزلیں کہہ چکے تھے۔ اصل میں فکر تونسوی آٹھویں جماعت میں ہی شعر کہے لگے تھے ۔ فکر کے مطابق ان کی نظم تنہائی کو ادبی سنگھٹن حلقہ ارباب ذوق نے سال کی بہترین نظم قرار دیا تھا۔ اس کے بعد معروف فکشن نگارممتاز مفتی کے ساتھ مشترکہ ادارت میں دو ماہی میگزین “سویرا” کا آغاز کیا ۔اس کے علاوہ آپ نے “ادب لطیف” کی ادارت بھی کی ۔ 1947کے فرقہ وارانہ فسادات میں بطور رفیوجی ہندوستان آئے ۔ 1947میں ہی نظموں کا پہلا مجموعہ ہیولے کے نام سے شائع ہوا۔فسادات کے بعد شاعری ترک کردی ۔مزاح اور طنز میں نثر لکھنے لگے ۔ان کی پہلی نثریہ تصنیف ‘چھٹا دریا ‘فسادات پر ایک دردناک ڈائری کے فارم میں ہے۔ان کی کتاب ‘ساتواں شاستر ‘بھی فسادات کے موضوع پر ہے۔
لیکن کم معاوضہ کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان کے ایک پرائمری اسکول میں بطور معلم اپنے فرائض انجام دینا شروع کر دیے۔ جب وہاں بھی گردشِ ایام نے چین نہ لینے دیا ۔ تو لاہور چلے آئے اور کتب خانہ میں ملازم ہو گئے۔ جہاں آپ کو مختلف موضوعات پر کتابوں کے مطالعہ کرنے کا موقع ملا ۔
ا س کے بعد فکر ، سردار الله نواز خان چیف آف قبیلہ کھتران نواز درانی کی زیرِ ادارت ڈیرہ غازی خان سے نکلنے والے ہفت روزہ اصلاح میں مضامین لکھنے لگے۔ اس دوران فکر کو سردار صاحب کی مدیرانہ صلاحیت سے بے حد متاثر ہوئے اور سردار درانی کی سحر انگیز شخصیت اور ان کی شاعرانہ خوبیوں سے متاثر ہوکر ان کی شاگردی اختیار کرلی اوراپنے کلام پر اصلاح لینے لگے ۔
اس بات کا خلاصہ انہوں نے مختلف مواقع پر کیا ۔ اس کے بعد فکر صاحب نے من کی موج، رسالہ کی ادارت زمیداری سنبھالی۔
اس کے بعد 1942ء میں ادبِ لطیف سے وابستہ ہوئے جہاں کیلاش وتی کو اپنی شریک حیات بنایا۔
اسی بیچ ملک تقسیم ہوا تو مذہبی اور سیاسی تعصب کی آندھی نے پورے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
فکر بھی اس تعصب سے اچھوتے نہ رہ سکے ۔ کیوں کہ وہ ایک ادیب تھے اور وہ بھی بے حد جذباتی۔ اس لیے جب لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کے دلخراش مناظر دیکھے تو اپنے بیوی بچوں کے لیے بے حد فکر مند ہو ئے۔ اسی بیچ آپ کے ادبی و شاعر دوستوں ساحر لدھیانوی، قتیل شفائی اور احمد راہی وغیرہ تونسہ شریف لے آئے اور آپ کے بچوں کو اپنی زیر نگرانی میں لاہور لے آئے۔ان فرقہ وارانہ فسادات کے بعد فکر تونسوی بطور رفیوجی ہندوستان تشریف لے آئے ۔
ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ہیولے کے نام سے شائع ہوا۔ ملک کی تقسیم کے بیچ ہوئے فسادات کے بعد فکر تونسوی نے صمف شاعری کو خیر باد کہا اور اپنی پوری توجہ طنز و مزاح پر صرف کرنے لگے ۔ان کی پہلی نثریہ تصنیف ‘چھٹا دریا ‘فسادات پر ایک دردناک ڈائری کی شکل میں ہے۔اسی طرح سے آپ کتاب ساتواں شاستر ‘بھی فسادات کے درد ناک مناظر کی ایک دلخراش تصویر پیش کرتی ہے۔
آپ نے ہندوستان میں آنے کے بعد یہاں روزنامہ نیا زمانہ، میں طنزیہ کالم” آ ج کی خبر” کے عنوان تحت لکھنا شروع کر دیا۔اس کے بعد فکر صاحب 1955ء میں دہلی کے اردو روزنامہ “ملاپ” میں پیاز کے چھلکے کے عنوان کے تحت سیاسی و سماجی مسائل پر طنزیہ کالم لکھنے لگے اس وقت یہ کالم یعنی پیاز کے چھلکے اخبار کے قارئین میں اتنا زیادہ مقبول ہوا تھا کہ قارئین پیاز کے چھلکے کالم کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے اور جب یہ اخبار شائع ہو کر مارکیٹ میں آتا تو کیا مزدور،کیا دکاندار،کیا وکیل کیا ڈاکٹر کیا حکیم کیا پروفیسر کیا عام و خاص سبھی لوگ انکے پیاز کے چھلکے کے دلدادہ تھے یہی وجہ ہے کہ وہ پرچہ بازار میں آتے ہی ہاتھو ہاتھ بِک جاتا تھا اور پاٹھک اخبار لیتے ہی پہلے پیاز کے چھلکے والے کالم والا صفحہ نکالتے اور نہایت دلچسپی و شوق کے ساتھ اس کالم کو پڑھنے میں مصروف ہو جاتے۔آپ ملاپ اخبار سے25 سال تک وابستہ رہے یعنی اس اخبار کے ذریعے اپنے پیاز کے چھلکوں مسلسل قارئین کو ہنساتے اور رلاتے رہے۔
اس کے علاوہ ریڈیو اسٹیشن جالندھر اور دہلی پر سینکڑوں شاہکار ڈرامے ،فیچر اور تقریریں پیش کیں۔ٹیلی ویژن پر متعدد ڈرامے لکھے۔جنھیں سامعین و ناظرین نے خوب پسند فرمایا۔
فکر تونسوی واحد ایسے سیاسی طنز و مزاح کے مصنف تھے جن کا انداز بیان اپنے ہم عصر دوسرے مزاح نگار وں سے بالکل مختلف تھا ۔بقول کنہیا لال کپور فکر تونسوی نے اردو ادب میں ایک لفظ تونسہ کا اضافہ کیا ہے۔اپنی کتاب ‘وارنٹ گرفتاری’ میں انہوں نے اپنی جان پہچان کرواتے ہوئے ‘مصنف کا کچا چٹھا’ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ:” مصنف کا نقلی نام فکر تونسوی ہے (اصلی نام کافی واہیات تھا)پہلی جنگ عظیم میں پیدا ہوااور تیسری جنگ عظیم میں کوچ کر جائے گا۔والدین غریب تھے اس لیے والدین یعنی غریبوں کے حق میں لکھنے کی عادت پڑ گئی ۔اس کی خواہش ہے کہ غریب ہمیشہ قائم رہیں کہ کوئی ہمیشہ لکھتا رہے۔شروع شروع میں نظمیں لکھتا تھا جو اس کی اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتی تھیں ۔بڑی مشکل سے اس کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ گھٹیا شاعر اور بڑھیا نثر نگار ہے۔چنانچہ نثر میں مزاحیہ اور طنزیہ چیزیں لکھنے لگا۔پہلے ا سے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اچھا لکھتا ہے ۔لیکن جب قارئین نے شور مچادیا کہ وہ اعلیٰ ترین طنز نگار ہر ،تب اسے بھی اپنے اعلیٰ ترین ہونے کا یقین آگیا ۔جس دن یہ یقین ٹوٹ گیا وہ خود کشی کرلے گا۔
شکل بھونڈی ہے ،تحریر خوبصورت ہے اور یہ دونوں چیزیں خداداد ہیں ۔لوگ اس کی تحریر پڑھ کر اسے دیکھنا چاہتے ہیں ،جب دیکھ لیتے ہیں تو اس کی تحریریں پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ا س لیے مصنف دنیا سے منھ چھپاتا پھرتا ہے ۔عزت قائم رکھنے کے لیے انسان کو سب کچھ کرنا پڑتا ہے ۔
و ہ اب تک ہزاروں صفحے لکھ چکا ہے اور لاکھوں مداح پیدا کرچکا ہے ۔اس کا دعویٰ ہے کہ لاکھوں صفحے اور کروڑو مداح اس کی ارتھی کے ساتھ جائیں گے۔جن میں زیر نظر کتاب اور اس کے پڑھنے والے بی شامل ہوں گے۔ (یہ کچا چٹھا مصنف نے خود اپنے منھ میاں مٹھو بن کر لکھا)’دہلی”
ایک جگہ اپنی ایک کتاب کے تعارف میں فکر تونسوی جمہوری نظام کی حقیقیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ” ہاں یہ کتاب میں نے کلوا دھوبی کے لیے لکھی ہے ،جو اسے پڑھ نہیں سکتا ۔ہم دانشمند لوگ بہت سے کام ایسے کرتے ہیں جن کا مقصد شانتی لال کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے ،مگر فائدہ کانتی لال اٹھاتا ہے ۔اور اسی کو ہم ڈیموکریسی کہتے ہیں۔ڈیموکریسی کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ وہ شانتی لال اور کانتی لال دونوں کے لیے ہوتی ہے۔اس لیے شانتی لال روتا ہے اور کانتی لال ہنستا ہے ،اور اس رونے اور ہنسنے کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ایک زبردست کارنامہ ہے ،جس سے تاریخ جنم لیتی ہے اور نہ جانے اس طرح کی کتنی الم غلم عظیم چیزیں جنم لیتی ہیں۔’ آخری جملہ ہے ؛ اور یہ کتاب میری معصومیت کی لاش کا نوحہ ہے۔”
آپ نے اردو ادب میں 20 اور ہندی زبان میں 8 کتابیں لکھ کر دونوں زبانوں کے ادب کو اپنی بیش قیمت خدمات سے نوازا۔ان میں ہیولےچھٹا دریا، پیاز کے چھلکے،چوپٹ راجا،فکر نامہ، آدھا آدمی، چھلکے ہی چھلکے، بات میں گھات، گھر میں چور۔،میں، میری بیوی وارنٹ گرفتاری،ماڈرن الہ دین، ماؤزے تنگ، تیرِ نیم کش،ہم ہندوستانی ،راجا راج کرے۔ ڈارلنگ ۔گمشدہ کی تلاش۔
فکر تونسوی صاحب کو انکی ادبی خدمات کے اعتراف میں زندگی میں بہت سے انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔ ان میں سے 1969ء میں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ،
1973ء میں چوپٹ راجا پر یو۔ پی اردو اکادمی ایوارڈ،
1977ء میں فکر نامہ پر یو۔ پی اردو اکادمی ایوارڈ،
1980ء میں آخر ی کتاب پر یو۔ پی اردواکادمی ایوارڈ،
1983ء میں میر اکیڈمی ایوارڈ،1985ء میں آخری کتاب پر بنگال اردو اکیڈمی ایوارڈ,1987ء میں غالب ایوارڈ دہلی.
ادب کی دنیا کا یہ بے مثال ستارہ عمر کے آخری ایام میں فالج کا شکار ہوگیا اور بالآخر 12 ستمبر، 1987ء کو فکر تونسوی اس دنیا ئے فانی کو ہمیشہ ہمیش کے لیے الوداع کہہ گئے اور طنزیہ کالم نگاری کی دنیا میں ایک ایسی خلاء پیدا کر گئے جس کی بھرپائی ہوپانا مشکل ہے۔
Also read