ملک زادہ منظور احمد کی سخن گوئی

0
598

پروفیسراحمد محفوظ

گذشتہ پچاس ساٹھ برس کے عرصے میں جن اردو شعرا کو مشاعرے کی نسبت سے نمایاں ترین حیثیت کا حامل سمجھا گیا،ان میں ایک اہم نام پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انھیں شاعر سے زیادہ ایک کامیاب ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے پہچانا گیا۔لیکن اسی کے ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہ پہچان ان کی شخصیت کا جزو بن کر مشاعرے کی دنیا سے اس طرح وابستہ ہوگئی کہ انھیں اس سے الگ کرکے دیکھنا لوگوں کے لیے آسان نہ رہا۔ گویا مشاعرے کی دنیا میں ملک زادہ منظور احمد اور فن نظامت لازم وملزوم قرار پائے۔کم وبیش پانچ دہائیوں تک اس شناخت کو نہایت کامیابی کے ساتھ قائم رکھنا کسی کارنامے سے کم نہیں۔اس تعلق سے ملک زادہ منظور احمد کا کوئی ہمسر ہمیں نظر نہیں آتا۔
مشاعرے کے سلسلے میں یہ بات بھی دھیان میں رکھنے کی ہے کہ اردو میں اس کی مہتم بالشان روایت رہی ہے۔ اٹھارہویں صدی میں مشاعرے کی حیثیت شعری اجتماع سے بڑھ کر ایک ایسے ادارے کی صورت میں نظر آتی ہے،جو فن شعرگوئی اور شعرا کے لیے تربیت گاہ کا حکم رکھتا تھا۔اپنے مخصوص آداب و رسوم کی حامل یہ روایت انیسویں صدی میں اسی آب وتاب کے ساتھ قائم رہتی ہے۔ بیسویں صدی میں مشاعرے کی قدیم روایت کے وہ آثار تو باقی نہیں رہے ،لیکن ابتدائی چند دہائیوں تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ مشاعرے کا اعتبار پھر بھی ایک حد تک قائم رہا۔بعد ازاں اس ادارے پر زوال اس طرح سایہ فگن ہوا کہ اس سے نکلنے کی پھر کوئی صورت باقی نہ رہی۔ملک زادہ منظور احمد نے چونکہ مشاعرے کی دنیا میں خاصی طویل مدت گذاری،اس لیے انھوں نے وہ دور بھی دیکھا جب مشاعرے بڑی حد تک سنجیدہ ادبی و شعری اجتماع کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے، اور بعد میں جب مشاعرے مائل بہ زوال ہونے لگے تواس افسوس ناک صورت کا انھوں نے خود مشاہدہ بھی کیا۔
یہاں اس بات کی طرف توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مشاعرے کے قدیم دور میں یعنی بیسویں صدی سے پہلے ناظم مشاعرہ کا ذکر نہیں ملتا۔لیکن جدید عہد میں جن چیزوں کو مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھا گیا،ان میں نظامت کو خاص مقام حاصل رہا ہے۔اس کے نتیجے میں ناظم مشاعرہ کی اپنی الگ پہچان قائم ہوئی۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیاے مشاعرہ میں ایسے کئی شعرا منظر عام پر آئے جن کی حیثیت محض ناظم مشاعرہ کی رہی،اور یہی حیثیت ان کی اصل شناخت قرار پائی۔ایسا نہیں ہے کہ مشاعرے کی دنیا میں نظامت کرنے والوں کی کمی رہی ہو، لیکن نظامت کو بطور فن اختیار کرنے والوں میں جو مرتبہ اور مقام ملک زادہ منظور صاحب کو حاصل ہوا،وہ اور کسی کے حصے میں نہ آیا۔انھوں نے اس فن کوجس سنجیدگی،متانت اورعلمی وقار سے ہم آہنگ کیا،وہ انھیں کا حصہ کہا جا سکتا ہے۔
بحیثیت ناظم مشاعرہ ملک زادہ منظور احمد کی غیرمعمولی شہرت اور مقبولیت نے ان کی شاعرانہ حیثیت کو بڑی حد تک پس پشت ڈال دیا۔اس کے علاوہ اس صورت حال کا ایک سبب یہ بھی رہا کہ شاعری کی دنیا میں اتنی طویل مدت گذارنے کے باوجود انھوں نے تخلیق شعر کی طرف بہت کم توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا شعری سرمایہ مقدار کے لحاظ سے بہت کم ہے۔لیکن اتنا بھی کم نہیں کہ اسے قابل توجہ نہ کہا جا سکے۔یہاں میں یہ بھی واضح کر دوں کہ ان کے کلام کے قابل توجہ قرار پانے میں کمیت سے زیادہ اس کی کیفیت کو دخل ہے۔یعنی یہ کلام اگرچہ بہت زیادہ نہیں ہے، لیکن جتنا کچھ بھی ہے، وہ ایسے طرز کا حامل ہے جسے اپنے مخصوص پس منظر میں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک زادہ صاحب کو مشاعرے کی حد درجہ مصروف سرگرمیوں نے اتنا موقع نہ دیا کہ وہ جس طرز شعر گوئی کے شائق تھے، اس میں اپنے تخلیقی میلان طبع کا خاطر خواہ اظہار کرتے۔
ملک زادہ صاحب کے کلام میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی،لیکن غزلوں کی تعداد نظموں سے زیادہ ہے۔البتہ دونوں کا رنگ وآہنگ کم وبیش یکساں ہے۔اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی نظم پر ان کی غزلوں کی گہری چھاپ صاف دکھائی دیتی ہے۔اسی کے ساتھ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مشاعروں میں جس طرح کی شاعری عام طور سے مقبول عام بلکہ مقبول عوام ٹھہرتی ہے، اور جس کی بنا پر وہ شعرا شہرت ومقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں، اس سے ملک زادہ کی شاعری بہت مختلف نظر آتی ہے۔یہاں اس تفصیل میں جانے کا موقع نہیں کہ مشاعروں کی مقبول عام شاعری کی حقیقی قدروقیمت کیا ہے؟ اور اس شاعری کی بنا پر جو مقبولیت شاعر کے حصے میں آتی ہے،اسے صحیح معنوں میں کتنی وقعت حاصل ہوتی ہے؟لیکن اسی کے ساتھ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ مشاعروں سے اتنی گہری وابستگی کے باوجود ملک زادہ نے اپنی شاعری کو اس چمک دمک سے دور کیونکر رکھا؟اس کا ایک جواب تو یہی ہے کہ ان کا میلان طبع ابتدا ہی سے کلاسیکی شعری روایت کی طرف تھا، اور انھوں نے اس روایت سے حسب توفیق فیض بھی حاصل کیا۔ اس کا بہت واضح اثر ان کے پورے کلام پر دیکھا جا سکتا ہے۔
جہاں تک کلاسیکی شعری روایت سے فیض حاصل کرنے کا معاملہ ہے تو اس کی بہت سی صورتیں اور بہت سے درجے ہیں۔ظاہر ہے،ہر شخص اپنی بساط اور توفیق کے مطابق ہی اس بحر بیکراں سے گوہر آبدار حاصل کرتا ہے، اور کبھی کبھی دامن خالی کے ساتھ بھی لوٹنا پڑتا ہے۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص میدان سخن میں قدم رکھنا چاہتا ہے تو اسے اپنی روایت سے رجوع کرنا ناگزیر ہے۔روایت سے گہری وابستگی اور اس کا سچا شعور ہی فن شعرگوئی کی راہ ہموار کرتا ہے،اور شاعر کو اس راہ میں نئے نئے امکانات تلاش کرنے کا اہل بناتا ہے۔ان باتوں کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو روایتی قسم کی شاعری،جسے عام طور سے لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، ہمارے لیے نہ صرف قابل قبول ٹھہرتی ہے،بلکہ اس کی اہمیت و افادیت کا احساس مزید مستحکم ہو جاتا ہے۔جو لوگ گل وبلبل، شمع وپروانہ اور ساقی و میخانہ وغیرہ کا نام لے کر روایتی شاعری کی قدرو قیمت کی تخفیف کرتے ہیں، وہ درحقیقت اس کی سچی آگہی نہیں رکھتے۔ایسے لوگوں کا منھ بند کرنے کے لیے غالب کا یہی شعر کافی ہے ؂
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر
یعنی بادہ وساغر اور گل وبلبل وغیرہ کا ذکر یہاں مقصود بالذات نہیں ہوتا، بلکہ ان کے وسیلے سے شاعر اپنی باتیں کہتا ہے، یا پہلے سے کہی ہوئی باتوں میں نئے پہلو پیدا کرکے بصیرت اور آگہی کے نئے دروازے کھولتا ہے۔بیسویں صدی کے جدید شعرا میں اس کی سب سے اچھی مثال فیض احمد فیض کی ہے۔
ملک زادہ کے مجموعۂ کلام ’’شہر ستم‘‘ کے دیباچے میں علی سردار جعفری نے اسی روایتی پہلو کی اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
ان کے[یعنی ملک زادہ منظور احمد کے] سارے الفاظ اور استعارے جانے پہچانے ہیں۔لیکن ان کے استعمال میں ایک ندرت اور تازگی ہے۔خوف جو آج کی شاعری کا ایک اہم موضوع بن گیا ہے، ملک زادہ کے اشعار میں بھی جھلکتا ہے۔لیکن ان کو پڑھ کر دل پر خوف طاری نہیں ہوتابلکہ ایک لطیف احساس بن جاتا ہے۔یہ ان کے کلاسیکی ریاض کا اثر ہے اور غالب کی عطا کی ہوئی میراث ہے۔
یہاں سردار جعفری نے ملک زادہ کے طرز شعر کے ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی بات کا بھی ذکر کر دیا ہے ،جس کا تعلق ان کے موضوع شعر سے ہے۔سردار جعفری،ملک زادہ کے یہاں کلاسیکی اثرات کی بجا طور پر نشاندہی کرتے ہیں، لیکن ان کی اس بات سے اتفاق مشکل ہے کہ یہ اثرات غالب کے عطا کردہ ہیں۔میرا خیال ہے، ملک زادہ نے کلاسیکی شاعری کا تو براہ راست مطالعہ کیا لیکن اس کے اثرات انھوں نے بیسویں صدی کے روایت پسند شعرا کے توسط سے قبول کیے۔اب ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے ؂
مژدہ اے شوق شہادت کہ سنا ہے میں نے
تیغ قاتل میں فزوں تر ہے جلا اب کے برس
سرخی خون شہیدان وفا سے منظور
اور بھی شوخ ہوا رنگ حنا اب کے برس
یہ دونوں شعر کلاسیکی روایت سے استفادے کی واضح مثال کہے جا سکتے ہیں۔ظاہر ہے دونوں شعروں میں مضامین روایتی ہی بیان ہوئے ہیں،لیکن انھیں جس انداز میں بیان کیا گیا ہے،اور روایتی الفاط کو جس نہج سے برتا گیا ہے،اس سے روایتی مضمون میں ایک طرح کی تازگی پیدا ہو گئی ہے۔اب ذرا دوسرے شعر پر غور کر کے دیکھتے ہیں۔اس میں مضمون تو صرف اتنا ہے کہ شہیدان وفا کے خون کی سرخی سے معشوق کا رنگ حنا مزید شوخ ہو گیا۔لیکن شعر کے معنی پر غور کیجیے تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ایک تو یہ کہ راہ وفا میں جو لوگ قتل ہوتے ہیں، انھیں شہید کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔دوسرے یہ کہ معشوق کے رنگ حنا میں شوخی پہلے بھی تھی۔ یہاں رنگ کی شوخی خود معشوق کی شوخی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔لیکن اس رنگ حنا کی شوخی میں اضافہ اس لیے ہوا کہ اس میں شہیدان وفا کے خون کی سرخی شامل ہو گئی۔ایک امکان یہ بھی ہے کہ چونکہ معشوق نے اپنے دست حنائی سے عاشقوں کا خون کیا،اس لیے اس کے حنائی ہاتھ خون آلود ہو گئے اور خون کی سرخی حنا پر غالب آگئی،جس نے رنگ حنا کی شوخی کو مزید بڑھا دیا۔
معنی کے ان تمام پہلوؤں کے علاوہ ایک پہلو اس شعر میں ایسا ہے جو اس کے مضمون کو تصوراتی سطح سے واقعیت کی سطح پر لے آتا ہے۔یہ پہلو ’’اب کے برس‘‘ کے الفاظ سے شعر میں پیدا ہوا ہے۔ان الفاظ نے شعر میں بیان کردہ صورت حال کو بیان واقعہ میں بدل دیا ہے اور اس طرح یہ صورت حال لیے زیادہ مانوس اور اثر انگیز ہو جاتی ہے۔واقعیت کی اس صفت کی مزید وضاحت کے لیے میر کا درج ذیل شعر ملاحظہ کیجیے تو بات اور صاف ہو جائے گی ؂
جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میر زبس
ان نے رورو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے
یہاں بھی بیان کردہ صورت حال تصوراتی ہے،لیکن میر نے ’’کل‘‘ کا لفظ رکھ کر اس صورت حال کو ہمارے لیے واقعاتی اور مانوس بنا دیا ہے۔کچھ اور اشعار ملاحظہ کیجیے ؂
خرد مذاق جنوں پھر سے اختیار کرے
غم حیات کو صرف نگاہ یار کرے
جلائیں دل کہ سمٹ جائے تیرگی شب کی
نہ جانے کب ہو سحر کون انتظار کرے

خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے
ہر قدم مرحلۂ مرگ تمنا ہے مگر
زندگی پھر بھی ترا ساتھ نہ چھوڑا جائے

اڑاتا خاک کیا میں دشت ودر کی
مرے اندر مرا صحرا بہت تھا

کچھ اور تیز گام رفیقان راہ شوق
اک روشنی افق پہ نمایاں ہوئی تو ہے

زندگی کتنی ہے وابستۂ نیرنگ جمال
وہ سنورتے ہیں تو احساس سنور جاتا ہے

بن گیا اہل ہوس کا چاک دامانی شعار
اہل غم اپنے گریباں سی کے اب نکلا کرو
اس آخری شعر کے ساتھ غالب کا درج ذیل مشہور شعر رکھ کر دیکھیے تو دلچسپ صورت سامنے آتی ہے ؂
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروے شیوۂ اہل نظر گئی
بظاہر ملک زادہ کے شعر پر غالب کی چھاپ نظر آتی ہے،اور مضمون بھی کم وبیش یکساں معلوم ہوتا ہے۔سچ پوچھیے تو پہلے مصرعے کی حد تک دونوں شعروں میں ایک ہی بات کہی گئی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ غالب کے یہاں حسن پرستی شعار کرنے کی بات ہے، اور ملک زادہ نے چاک دامانی کا شعار بننا کہا ہے،لیکن ہے دونوں ایک ہی بات۔اب ظاہر ہے، غالب کے مصرع ثانی کا جواب لانا آسان نہ تھا۔چنانچہ ملک زادہ نے دوسرے مصرعے کا رخ بالکل بدل دیا۔اس طرح ان کا شعر اپنی جگہ الگ سے قائم ہو گیا۔مزید فنی ہنرمندی انھوں نے یہ دکھائی کہ گریباں سی کے نکلنے کی بات کہہ کر چاک دامانی کا جواز بھی فراہم کر دیا۔
اوپر جو اشعار نقل ہوئے ہیں،وہ اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہیں کہ ملک زادہ نے اپنی شعری روایت سے جو رشتہ قائم کیا وہ سطحی قسم کا نہیں تھا۔ان کے کلام میں گہرا روایتی شعور جا بجا نمایاں صورت میں نظرآتا ہے۔
جہاں تک ملک زادہ کے کلام کی فکری جہت کا تعلق ہے تو اتنی بات تو پوری طرح عیاں ہے کہ ان کی غزلوں کے مضامین زیادہ تر روایتی عشقیہ انداز کے ہیں۔ لیکن ان میں متکلم یا شاعر جدید عہد کے فرد کی حیثیت سے زیادہ نمایاں ہوا ہے۔چونکہ جدید دور کے انسان کے مسائل سے شاعر قدم قدم پر خود بھی نبرد آزما ہوتا ہے،اور معاشرتی سطح پر ان کا مشاہدہ بھی کرتا ہے،اس لیے ان سے جذباتی اور محسوساتی سطح پر اس کا متاثر ہونا فطری ہے۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ شاعر کا یہ تاثر بیشتر اشعار میں بالواسطہ طور پر اور بسا اوقات فنی ہنرمندی کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ایسے اشعار میں بھی ان کا لہجہ عام طور سے دھیما اور خوش آہنگ ہوتا ہے۔یہ اشعار دیکھے ؂
تمام شاخیں جلی ہوئی تھیں تمام غنچے دہک رہے تھے
مرے گلستاں میں کاروان بہار اترا تو میں نے دیکھا
مصیبتوں کا نیا سمندر مری نگاہوں کے سامنے تھا
مرا سفینہ جو اک سمندر کے پار اترا تو میں نے دیکھا

الجھن گھٹن ہراس تپش کرب انتشار
وہ بھیڑ ہے کہ سانس بھی لینا محال ہے
ضیاے صبح بھی ہے دامن صبا بھی ہے
سوال یہ ہے کہ غنچہ کوئی کھلا بھی ہے
زندگی میں پہلے اتنی تو پریشانی نہ تھی
تنگ دامانی تھی لیکن چاک دامانی نہ تھی
آج ہر لمحے کے ہاتھوں میں ہے سنگ بے حسی
اپنا غم کہنے سے پہلے دیر تک سوچا کرو
یہ اشعار ہمیں شاعر کے فکری اور محسوساتی رویوں سے آشنا کرتے ہیں۔یہاں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ شاعر نے اپنی محسوساتی کیفیات کو اپنے تخلیقی تجربے سے ہم آہنگ کرکے بیان کیا ہے،اور بیان کو حتی الامکان فنی دائرے کے اندر رکھا ہے۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ملک زادہ منظور احمد کا یہ کلام جو ہمارے سامنے ہے، وہ مقدار میں کم ضرور ہے،لیکن کیفیت کے اعتبار سے کم مایہ ہرگز نہیں۔یہ کلام جب بھی اور جہاں بھی پڑھا جائے گا ، اس سے فکری و فنی سطح پر لوگوں کا متاثر ہونا لازمی ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here