9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
حفیظ نعمانی
آج 9 فروری کے اودھ نامہ میں ایک خبر نے جھنجھوڑکر رکھ دیا کہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی اترپردیش کے جنرل سکریٹری کی طرح صدر بھی دو بنانے پر غور کررہے ہیں۔ اس میں چونکانے والی بات یہ ہے کہ مشرقی اضلاع کے صدر کوئی پنڈت جی ہوں گے اور مغربی اضلاع کے میاں صاحب۔ یعنی وہ مسلمان جن کو گجرات میں اچھوت سمجھا گیا تھا اور برسوں سے پارٹی کوشش یہ کرتی ہے کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مسلمان کم سے کم آئیں۔ خبر کے ذمہ دار سید کاظم رضا شکیل ہیں جو ادارہ کے ذمہ دار رکن ہیں انہوں نے مسلمان صدر کا نام بھی عمران مسعود بتا دیا ہے۔
عمران مسعود کا جب کانگریس میں داخلہ ہوا تھا تو اُن کی ایک تقریر گودی میڈیا میں کئی دن تک سنائی اور بجائی گئی تھی اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ جس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں وہ دیوبندی مسلک کا ممتاز گھرانہ ہے۔ اور دیوبندی اور بریلوی مسلک کے مسلمانوں میں اتنی ہی دوری ہے جتنی بی جے پی اور کانگریس میں بتائی جاتی ہے۔ مسٹر راہل گاندھی کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ آدمی آج بھی وزیراعظم ہے جس نے گجرات کے الیکشن میں ترُپ کا آخری پتہ پھینکتے ہوئے اپنی تقریروں میں کہا تھا کہ راہل گاندھی پر پاکستان کے لیڈر اور فوجی افسر دبائو ڈال رہے ہیں کہ احمد پٹیل کو گجرات کا وزیراعلیٰ بنا دو۔ اور مہاشے نریندر مودی نے پورے اُترپردیش میں 2017 ء میں گھوم گھوم کر ہندوئوں کو سمجھایا تھا کہ- جو ہندو مسلمان کے قبرستان کے لئے زمین دے اور شمشان گھاٹ کے لئے ہندوئوں کو نہ دے وہ ہندو نہیں ہے۔ اب یا تو راہل گاندھی اسے مانیں کہ سید شجاع نام کے اس انجینئر نے جو امریکہ میں رہتے ہیں سچ کہا تھا کہ اُترپردیش اور گجرات کے الیکشن میں گول مال کیا تھا۔ اور آج بھی ملک یا اُترپردیش کے ہندو وہی ہیں جنہوں نے 70 برس میں دس سال سے زیادہ بی جے پی کو حکومت نہیں کرنے دی یا اسے مانیں کہ ہندو اتنا بدل گیا کہ اس نے بھاجپا کو 325 سیٹیں دے دیں۔
راہل گاندھی اگر یہ سوچ رہے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اُترپردیش کے انتخابی ماحول کو ایسا ہی بنا دیں گے جیسا 2017 ء میں تھا کہ سیکولر ووٹ تین جگہ تقسیم ہوگا اور امت شاہ جن کو ہم سب دس سیٹوں سے بھی کم دینے والے تھے ان کے مطابق 74 سیٹیں دے دیں گے۔ بی بی پرینکا گاندھی اگر عارضی کے بجائے مستقل طور پر کانگریس کی گاڑی کو چلانے پر آمادہ ہوگئیں تو کیا ان کا سب کچھ بدل گیا؟ 19 فروری کو ان کا استقبال تہوار کی طرح کیا جائے اور دوسرے اضلاع سے بھر بھر کے ایسے ہی عوام کو لایا جائے جیسے مودی کے جلسہ کے لئے لایا جاتا ہے تو اس میں پرینکا کی مقبولیت کہاں ہوئی؟ یہ تو صوبائی کارکنوں کا جوش ہے۔ اگر پارٹی صرف اعلان کرتی اور اس اعلان کا اخباروں میں اشتہار دیتی، لائوڈ اسپیکر سے اپیل کرتی اور پھر لاکھوں کی بھیڑ ایئرپورٹ جاتی یا جلوس لاتی تب ان کی مقبولیت ہوتی۔
اُترپردیش میں کانگریس کو تجربہ نہیں کرنا چاہئے یا وہ یہ کہنا چھوڑیں کہ ہم مودی کی حکومت بدلنے جارہے ہیں۔ اگر حکومت بدلنے اور بی جے پی کو روکنے کیلئے سب کچھ ہورہا ہے تو وہ نہ سوچا جائے جو مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں سوچا تھا۔ اُترپردیش میں غیب کا حال تو اللہ کو معلوم ہے مگر اپنا ہمیشہ کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ کانگریس کی پوزیشن یہاں وہ ہے جو وہاں ان دو پارٹیوں کی تھی۔ اگر کانگریس نے ساری طاقت لگاکر دس سیٹیں جیت لیں تو محاذ کی دس کم نہیں ہوں گی بلکہ 40 سیٹیں کم ہوجائیں گی۔ اُترپردیش میں پنڈت اور مسلمان کو جو چاہے بنا دیا جائے سوال اس رشتہ کا ہے جو مسلمانوں اور کانگریس کے درمیان 30 سال سے ٹوٹا ہوا ہے۔ اور وہ شوق میں نہیں ٹوٹا تھا 1980 ء میں مراد آباد میں ایک سال تک رُک رُک کر کرفیو اور سیکڑوں مسلمانوں کا قتل اور جیل۔ راجیو گاندھی کا بابری مسجد کا تالا کھلوانا، شلانیاس کرنا اور میرٹھ میں مسلمانوں نے احتجاج کیا تو اُن کے ساتھ وہ کرنا جو عراق میں شیطان بش نے بھی نہ کیا ہو اور پھر کانگریس کی حکومت ہوتے ہوئے بابری مسجد شہید کرا دینا۔ کیا راہل گاندھی کو اگر اپنی کم عمر کی وجہ سے یاد نہیں تو کیا مسلمان بھی بھول گئے۔ راہل گاندھی اگر ان ہی مسلمانوں کے کاندھے پر کھڑے ہوکر حکومت کی کرسی پر آنا چاہتے ہیں تو ہمیں ڈر ہے کہ 2017 ء کی طرح نہ گرجائیں۔
پوری کانگریس پرینکا گاندھی کو اقتدار کی آندھی بناکر پیش کررہی ہے کیا میرٹھ کی درجنوں بیوہ عورتیں اور درجنوں بیٹیاں ان سے یہ سوال نہیں کریں گی کہ اپنے باپ کی قاتل عورتوں سے جیل میں جاکر وہ یہ تو معلوم کرسکتی ہیں کہ تم نے میرے باپ کو کیوں مارا؟ لیکن ہمارے پاس آکر انہوں نے کیوں نہیں بتایا کہ ان کے باپ نے ہمیں بیوہ اور آپ کی عمر کی لڑکیوں کو یتیم کیوں بنا دیا؟ میرٹھ کے جن 45 مسلمان جوانوں کو پی اے سی کے قاتلوں نے گولیوں سے بھون دیا انہوں نے صرف اسی بات پر احتجاج کیا تھا کہ راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالا کیوں کھلوایا اور پوجا پاٹ کی اجازت کیوں دی جبکہ وہ سیکڑوں برس سے مسجد تھی۔
راہل گاندھی دہلی میں بھی یہ بات کیوں نہیں مانتے کہ اروند کجریوال نے چیلنج دے کر شیلا دکشت کو ہرایا تھا اور یہ بات وہ بھی جانتے ہیں کہ شیلاجی کے زمانہ میں کامن ویلتھ میں کروڑوں روپئے کا غبن ہوا۔ ہم ان کو الزام نہیں دیتے لیکن حکومت اور اختیار اُن کا تھا اور پوری دہلی جانتی ہے کہ کجریوال بے ایمان نہیں ہے اور مودی کا بدترین مخالف ہے۔ اگر چار اُن کو اور تین پر خود لڑلیں تو دونوں کا بھلا ہوجائے گا۔ یہی فارمولہ راہل گاندھی کو ہر اس ریاست میں اپنانا چاہئے جہاں بی جے پی کی مخالف پارٹی حکومت کررہی ہے 2017 ء میں مایاوتی جس خوش فہمی میں منھ کے بل گریں ایسی خوش فہمی سے صرف بی جے پی کا بھلا ہوگا۔
؎ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔
9984247500