9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی کینڈا
’’خیاباں‘‘ کے مدیر نے ۱۹۳۴ء کے اپریل مئی کے شمارے میں مرثیہ ’’شہید اعظم‘‘ شائع کرتے ہوئے لکھا ۔’’حضرت اثرؔ لکھنوی نے اس سے قبل کبھی مرثیہ نہیں کہا ۔ یہ موصوف کی پہلی کوشش ہے جو ہدیہ ناظرین کی جاتی ہے۔‘‘ ہم اس مضمون میں خیاباں میں شائع شدہ ’’شہید اعظم‘‘ پیش کرنے سے پہلے مختصر طور پر اثرؔ لکھنوی کی حیات، شخصیت، فن اور اردو خدمات کو بھی چند جملوں میں بیان کریںگے۔
پدم بھوشن مرزا جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی ۱۲؍ جولائی ۱۸۸۵ء کو کٹرہ ابو تراب لکھنؤ میں ایک وضع دار فیملی میں پیدا ہوئے۔ بیاسی سال عمر کرکے ۶؍ جون ۱۹۶۷ء کو تال کٹورے لکھنؤ کی کربلا میں دفن ہوئے۔ مرزا جعفر علی خاں اثرؔ ایک عمدہ شاعر، عالی نقاد، عالم ، ادیب ،محقق ، مترجم اور فرہنگ نگار تھے جنھیں شاعری کے فن پر کامل عبور تھا اور وہ اردو زبان کے پارکھ تھے ۔ البتہ فارسی، ہندی، انگریزی اور سنسکرت سے واقفیت رکھتے تھے۔اثرستان کے دیباچے میں عزیزؔ لکھنوی لکھتے ہیں۔’’اثرؔ نے گیارہ سال کی عمر میں نوحے لکھنا شروع کیا۔ اس وقت وہ جعفرؔ تخلص کرتے تھے۔‘‘ خود اثرؔ نے دو شعروں میں لکھا ہے۔
اثرؔ ہے نام وطن لکھنؤ عزیز استاد
نکالتا ہوں نئے راستے زباں کے لیے
کس قدر ہیں ستم ظریف عزیزؔ
کہ اثرؔ نام کردیا میرا
جعفر علی خاں اثرؔ نے بی اے ۔ ایل ایل بی وغیرہ کرکے ۱۹۰۹ء میں ڈپٹی کلکٹر کا شغل سنبھالا اور کلکٹری کے اعلیٰ منصب سے ۱۹۴۰ء میں سبکدوش ہوکر ریاست جموں و کشمیر میں وزیر اور تھوڑی مدت کے لیے وزیر اعظم بھی رہے۔ اثرؔ کو ۱۹۶۲ء میں پدم بھوشن اعزاز ان کی اردو خدمات پر دیا گیا۔ اثرؔ کی زبان لکھنؤ کی ٹکسالی زبان تھی اور ان کا تعلق لکھنؤ کے اشراف سے تھا۔ اس کے لیے خلق میں ، کردار میں، رفتار میں، گفتارمیں، عجز و انکسار ی میں آپ اپنی مثال تھے اور شاید میر انیسؔ کے شعروں کے مصداق تھے:
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ ٹھیں نہ لگ جائے آبگینوں کو
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے
جعفر علی خاں اثرؔ جیسی شخصیتیں اردو شعر و ادب میں خال خال ہیں۔ وہ ایک طرف عمدہ شاعر اور دوسری طرف عمدہ شعر فہم تھے۔ مصطفی خاں شیفتہؔ تذکرہ ’’گلشن بے خار‘‘ میں لکھتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اگرچہ خوش فکر (اچھے شاعر) کم یاب ہیں لیکن خوش فہم (شعر سمجھنے والے) کمترین ہیں وہ شخص خوش قسمت ہے جسے یہ دونوں چیزیں میسر ہوں۔‘‘ یقینا جعفر علی خاں اثرؔ نہ صرف یہ بلکہ عمدہ مترجم اور زبان شناس بھی تھے۔ اگرچہ جعفر علی خاں اثرؔ کی پندرہ کے قریب شاعری اور نثری کتابیں شائع ہوچکی ہیں جس میں فرہنگ اثرؔ کی تین جلدیں بھی شامل ہیں لیکن ان کا بہت سا منظوم اور نثری کلام غیر مطبوعہ بھی ہے۔ راقم اس کی تلاش اور حصول میں ہے تاکہ اس کو سجا کر محراب شعر و ادب میں جگہ دے ۔ اگرچہ گذشتہ دس بارہ سالوں میں دو چار شخصیت اور فن پر کتابیں آچکی ہیں۔ جعفر علی خاں اثرؔ کی شاعری کی کتابوں میں غزلوں کے مجموعے اثرستان (۱۹۲۴)، بہاراں (۱۹۳۹ء)، نوبہاراں (۱۹۵۷ء) اور عروس فطرت (نظموں کا مجموعہ) ، رنگ بست مختلف زبانوں کے منظوم ترجمے اور بھگودگیتا کا ترجمہ ، نغمہ جاوید کے علاوہ مزامیر(۱۹۴۷ء)، مطالعۂ غالب (۱۹۵۷ء)، انیسؔ کی مرثیہ نگاری، چھان بین (تنقیدی مضامین)اور فرہنگ اثرؔ کی تین جلدیں بھی شامل ہیں۔ کچھ غیر مطبوعہ کلام ’’ سحرستان‘‘ میں بھی موجود ہے۔ اس مختصر تمہید کے ساتھ ہم ’’شہید اعظم‘‘ پیش کرتے ہیں جو جدید مرثیہ ہے۔ جس کا آغاز ۱۹۱۰ء سے ہوچکا تھا۔ اگرچہ اس کی ہیت مسدس ہی ہے لیکن اس میں کلاسیک مرثیے کے اجزائے مرثیے کا التزام نہیں۔ اس میں تمام دوسرے مضامین جس سے واقعۂ کربلا اور حسینیؑ پیغام سے آگاہی ہوتی ہے عمدہ طریقے سے پیش کیے گئے ہیں اور دور حاضر سے اس کو جوڑا گیا ہے۔ ہم مضمون کی طوالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بغیر کسی تشریح اور تبصرے کے پورا مرثیہ ’’شہید اعظم‘‘ پیش کرتے ہیں۔
شہید اعظم
کونین کا سردار حسینؑ ابن علی ہے
سرچشمۂ انوارِ حسینؑ ابن علی ہے
دانندہ اسرارِ حسینؑ ابن علی ہے
اُمت کا سپردار حسینؑ ابن علی ہے
مقدور کسے مدح امام دوسرا کا
حقا کہ وہ محبوب ہے محبوب خدا کا
یہ نام در روضۂ رضواں پہ لکھا ہے
پیشانیٔ ہر کوکب تاباں پہ لکھا ہے
خورشید کی اس لوح درخشاں پہ لکھا ہے
آنکھیں ہوں تو ہر صفحۂ قرآں پہ لکھا ہے
طاعت سے ریاضت سے نہ احرام سے ہوگا
بس کام شفاعت کا اسی نام سے ہوگا
اس نام میں وہ دبدبہ و اوج و حشم ہے
خورشید کھلے سر ہے، فلک مجرے کو خم ہے
اک غاشیہ بردار کیے و خسرو وجم ہے
جو بیش سے ہے بیش مقابل میں وہ کم ہے
حق کس نے نمایاں کیا عرفان سے پوچھو
کس طرح سے کامل ہوا ایمان سے پوچھو
اس نام سے وابستہ ہوئی رحمت باری
وہ نامہ سیاہی ہے نہ وہ رجس کی خواری
کامل ہوا دیں ضرب لگی کفر پہ کاری
اسلام کے گلشن میں چلی باد بہاری
کیا چیز محبت ہے، یہ عرفان ہوا ہے
انسان حقیقت میں اب انسان ہوا ہے
یہ زندقۂ کفر کا میلان بڑھا تھا
اسلام فقط نام کو اسلام رہا تھا
ظاہر میں بہم صیغہ اُخوت کا پڑھا تھا
درپردہ ہر اک دشمن ارباب وفا تھا
قائل تھے خدا کے نہ مکافات عمل کے
بندے تھے فقط نفس کے یا لات و ہبل کے
کچھ لوگ تھے ایسے جنھیں تھا خوف خدا کا
واقف تھے کہ انجام ہے کیا حرص وہوا کا
معلوم تھا رتبہ اُنھیں شاہِ شہدا کا
معمول تھا یہ قول رسولِ دوسرا کا
دنیا کے حشم اور نہ اجلال کو مانو
قرآن کے پیرو ہو مری آل کو مانو
گنتی کے یہ تھے ، زر کے پرستار بہت تھے
یہ شاذ تھے اور غاصب و غدار بہت تھے
کم اہل ورع اور بداطوار بہت تھے
اس باغ میں گل نام کو تھے ، خار بہت تھے
پھر بھی یہ دبائے ہوئے تھے اوج یزیدی
آمادہ پُرخاش ہوئی فوج یزیدی
دھوکے سے ہدایت کے سوئے کوفہ بُلایا
پھر راستے میں شیر کو گمراہوں نے گھیرا
بیعت کا یزید ایسے نجس کی تھا تقاضا
لاحول والا مانتے کیا سید والا
بے آب و غذا گو مع اطفال و حرم تھے
لغزش نہ ہوئی پھر بھی یہ ان کے ہی قدم تھے
گزری شب عاشور قیامت کا دن آیا
فرزند پیمبرؐ کی شہادت کا دن آیا
جانبازوں کے اظہار شجاعت کا دن آیا
سرور کے لیے ایسی عبادت کا دن آیا
جوسجدۂ معبود میں یوں سر کو جھکادے
رحمت بڑھے اور تاج شفاعت کا پہنادے
اے عیسیؑ اسلام ترے نام کے صدقے
اے زندۂ جاوید ترے کام کے صدقے
آغاز کے قربان ہوں، انجام کے صدقے
کس شان کا پیغام ہے پیغام کے صدقے
محروم نہ ہوگا کبھی اب جوش نمو سے
ایماں کا چمن سینچ دیا تو نے لہو سے
تو گلشنِ تقدیس کا وہ سر و چماں ہے
پاکی ترا سایہ ہے صفا تیرا نشاں ہے
اسلام کے پیکر میں تو ہی روح رواں ہے
اے مرکز تنویر ترا مثل کہاں ہے
حلقے میں لیے برق سرِ طور کی کرنیں
اک نقطے پہ کھینچ آئی ہیں سب نور کی کرنیں
اے ذبح عظیم، آیۂ تابانِ شہادت
تجھ سے ہے شفق گوں رخِ ایمانِ شہادت
اللہ رے یہ ذوقِ فراوانِ شہادت
ہر تارِ رگِ جاں ہے رگِ جانِ شہادت
اسلام میں اب تک ہے یہ دم خم ترے دم سے
ہو ہی چکا تھا ورنہ ہم آغوش عدم سے
اے جان وفا معنی و تفسیر شہادت
ہر قطرۂ خوں ہے ترا،تصویر شہادت
جاگی ہے ترے فیض سے تقدیر شہادت
واللہ تجھی سے ہے یہ توقیر شہادت
مشہور جہاں حسن گلو سوز ہے تیرا
اے شمع حرم شعلہ دل افروز ہے تیرا
اللہ رے شوق رخ گلفام شہادت
پیہم لب جاں بخش پہ تھا نام شہادت
محبوب کا پیغام تھا ، پیغام شہادت
اس شان سے پھر کیوں نہ ہو اتمام شہادت
قاتل کا اگر ہاتھ رُکا ، آنکھ بھر آئی
خنجر نے کمی کی تو رگِ جاں اُبھر آئی
٭٭٭
ڈاکٹر صاحب اس مرثیہ کو ڈاکٹر ہلال نقوی صاحب نےآئینہ
اپنی کتاب بیسویں صدی اور جدید مرثیہ میں تحریر کیا ہے شہادت کے نام سے