محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گیحفیظ نعمانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالجوں کے ہاسٹل اور جیلوں کی حوالات میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے۔ ہاسٹل سے ہر دن لڑکے باہر جاسکتے ہیں اور دن میں کئی بار جاسکتے ہیں لیکن جیل میں جب آگئے تو یا تو عدالت کے طلب کرنے پر باہر جاسکتے ہیں یا رِہا ہونے کے بعد۔ کیرالہ کے ایک گائوں کی رہنے والی (آکھلا) نام کی ایک لڑکی جو پانچ سال کے غور و فکر کے بعد مسلمان ہوئی اور اس نے اپنا نام ہادیہ رکھا اس کی کہانی بھی ایک ہاسٹل سے شروع ہوتی ہے۔ وہ تمل ناڈو کے ایک ہومیو پیتھک کالج کے ہاسٹل میں ایک سال رہنے کے بعد ایک کرایہ کے کمرہ میں رہنے لگی جس میں دو مسلمان بہنیں پہلے سے رہتی تھیں۔ آکھلا نے ان دونوں مسلمان بہنوں کے رہن سہن نشست و برخاست اور کھانے پینے کے انداز کے علاوہ عبادات کو غور سے دیکھا اسے یہ جاننے کا شوق ہوا کہ یہ سب کیا ہے، کیوں ہے اور کس لئے ہے؟
اس لڑکی کے تاثرات کو ہم نے جس طرح سمجھا دوسروں کو اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا ہم جب جیل بھیج دیئے گئے تو ایک دن تو ہم سمجھ نہ سکے کہ کیوں باہر بلایا جارہا ہے۔ اور جب پرارتھنا شروع ہوئی تو ہم خاموش کھڑے رہے۔ دو تین دن کے بعد ہم نے اپنی بیرک میں یہ معلوم کرکے کہ کتنے مسلمان ہیں ان سے کہا کہ تم صبح کو وضو کرکے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ انہوں نے کہا کہ کون پڑھنے دے گا؟ ہم نے کہا کہ کل سے تم میرے ساتھ نماز پڑھوگے۔ اسی دن ہم نے جیلر صاحب سے کہا کہ یہ جو پرارتھنا ہوتی ہے اس کے بولنے اور سننے والوں کے منھ سونگھئے تو دور سے بدبو آئے گی کیونکہ کوئی کلی بھی نہیں کرتا۔ ہم مسلمان کل سے فجر کی نماز پڑھیں گے اور جو پرارتھنا میں جانا چاہے وہ جائے۔ جیلر صاحب کو ماننا پڑا۔ مقصد صرف یہ ہے کہ صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنے پیدا کرنے والے کا نام لیا جائے آپ لوگ نماز پڑھنا چاہیں تو دوسرے کنارے پر پڑھ لیں اور دوسرے دن صبح سب سے پہلے وضو کیا اور جماعت سے نماز پڑھی گئی جس میں رفتہ رفتہ بیرک کے سب مسلمان شریک ہوگئے اور وہ بھی جو جانتے بھی نہیں تھے کہ کیا پڑھا جاتا ہے۔ اور ہمیں ایک کام یہ مل گیا کہ جسے نماز نہیں آتی تھی اسے نماز سکھانا شروع کردی۔
ابتدا میں جو تعلیم یافتہ ہندو تھے وہ ہم سے کٹے کٹے رہے پھر رات دن ہمارے ساتھ رہنے اور غور سے ہمیں دیکھنے کے بعد قریب آنے لگے اور پھر بہت اچھے دوست بن گئے۔ اس کے بعد وہ ایک ایک بات معلوم کرتے تھے کہ آپ کھانے سے پہلے کچھ کہتے ہیں اور کھانے کے بعد بھی کچھ کہتے ہیں وہ کیا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے؟ ہم نے جب صبح سوکر اٹھنے کے بعد کی دعا سے رات کو سوتے وقت کی دعا تک ہر دعا اور اس کا مطلب بتایا تو سب نے مانا کہ یہ تو ہر بندہ مانگ سکتا ہے وہ چاہے ہندو ہو یا سکھ؟
ہم نے اچھے تعلیم یافتہ ہندو دوستوں سے کرید کرید کر معلوم کیا تو اندازہ ہوا کہ یا تو انہیں کچھ بتایا نہیں گیا یا انہوں نے جاننا ہی نہیں چاہا اور ہم نے یہ محسوس کیا کہ اگر یہ جیل ہندوستان میں نہ ہوتی اور اس کا خطرہ نہ ہوتا کہ اگر جیل کے افسروں کو شبہ بھی ہوگیا کہ کوئی جیل میں اسلام کی تبلیغ کررہا ہے تو اس کا جو انجام ہوگا اس سے اللہ کی پناہ تو ان سمجھدار ہندوئوں میں سے آدھے اپنی مرضی سے مسلمان ہوچکے ہوتے۔ جیل میں ہم کوئی مہم نہیں چلا رہے تھے بس اتنا تھا کہ جیل کے افسر اور کارکن یہ سمجھتے تھے کہ یہ اخبار والے ہیں اس لئے لحاظ کرتے تھے۔ اور ہم جتنا بھی فرصت کا وقت ہوتا تھا صرف قرآن شریف پڑھتے رہتے تھے جبکہ حوالات میں آدھے تاش کھیلتے رہتے تھے اور باقی صرف سوتے رہتے تھے۔
جس آکھلا نام کی بچی نے چار سال تک دو بہنوں کی زندگی دیکھی اور اسلام کو خود سمجھا کہ وہ کیا ہے اور اسے قبول کیا وہ ایسا نہیں تھا جیسا ہندو لڑکیاں مسلمان دوست سے شادی کرنے کے لئے اسلام قبول کرلیتی ہیں اور جب ماں باپ نے دھمکی دی تو کہہ دیتی ہیں کہ انہیں مسلمان بنا لیا گیا تھا اور ایک دھمکی میں ہی وہ پھر ہندو ہوجاتی ہیں اس معاملہ میں حکومت اس کی انتظامیہ اس کی ایجنسی این آئی اے اور ہائی کورٹ سب نے جو کردار ادا کیا وہ بجرنگ دل والا تھا ایک عاقل بالغ تعلیم یافتہ اپنی زندگی کے چار سال کے غور و فکر کے بعد اپنا مذہب تبدیل کرتی ہے تو کیسے کسی کو یہ حق ہوگیا کہ وہ اس کے معاملہ میں دخل دے اور این آئی اے کی مداخلت کا یا ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کہ شادی غیرقانونی قرار دے دی سے کیا سمجھ میں آتا ہے؟
ہادیہ نام کی اس بہادر بچی کو ہر مسلمان بیٹی کا سلام کہ اس نے سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوکر اپنا موقف صاف صاف الفاظ میں بیان کردیا۔ اور حیرت ہے کہ اس شیردل لڑکی کو وہ آزادی نہیں ملی جس کے لئے وہ ساری دنیا سے لڑرہی ہے۔ اور اب اسے کالج کے ہاسٹل میں قید کردیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ ہر مسلمان کے کان کھڑے ہوگئے ہیں کہ کیا عدالت اور سب سے بڑی عدالت بھی، بات جب ہندو اور مسلمان کی آجائے تو ڈگمگا جاتی ہے؟ تو پھر بابری مسجد والوں کو فیصلہ کیلئے اپنے کو تیار کرلینا چاہئے؟ مسلمانوں کے پاس کاغذی ہتھیاروں کے علاوہ سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے کی زمین پر مسجد نہیں بنا سکتا اب اسے وسیم رضوی تسلیم کرلیں کہ میرباقی شیعہ تھے اور انہوں نے رام مندر کو گراکر مسجد بنالی ہم تو جب کہتے ہیں کہ مسلمان کسی کی زمین پر نہیں بنا سکتا تو اس میں شیعہ مسلمان بھی ہوتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ فیصلہ چاہے جو ہو یہ نہ کہا جائے کہ میرباقی نے مندر گراکر اس پر مسجد بنائی تھی۔ بجرنگ دل کے وِنے کٹیار کی مانیں تو ہندوستان میں مسلمانوں کے آنے سے پہلے شاید پورے ہندوستان کے چپہ چپہ پر صرف یا مندر تھے یا پجاری جب شاہجہاں کو بھی تاج محل بنانے کے لئے شیومندر کے علاوہ اور جامع مسجد کے لئے جمنا دیوی کے مندر کے علاوہ کوئی جگہ نہیں ملی تو قلعہ میں تو کئی مندر دب گئے ہوں گے؟ ہم مسلمانوں کو بھی تاریخ کی وہ کتاب اگر دیکھنے کو مل جاتی جو وِنے کٹیار کے پاس ہے اور جس میں ہر مندر کا ذکر ہے تو بہت سے مسئلے حل ہوجاتے۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
Also read