لوک ڈاؤن اور ادھورے انتظام سے پریشان عوام

0
92

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

عارفہ مسعود عنبر، مرادآباد

آج پوری دنیا میں افرا تفری کا ماحول ہے کورونا نے تمام عالم پر قہر برپا کر رکھا ہے ،کچھ ممالک کی بے انتہا کوششوں کے ثمرہ انکے ملک کے حالات بہتر ہو رہے ہیں اور کچھ کچھ لڑتے لڑتے تھک گئے ہیں اور خود کو بہت بے بس محسوس کر رہے ہیں ،ہمارے ملک میں بھی اس کی جدو جہد جاری ہے اور لوگوں کی زندگی کے تحفظ کی خاطر پورے ملک میں لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے ،لیکن افسوسناک پہلو یہ سامنے آ رہا ہے کہ ان حالات میں ملک عزیز کی عام عوام بے حد پریشان ہے ،لوگ بھوکے ہیں ،بدحال ہیں ،بیماروں کو دوا میسر نہیں ،بچوں کو دودھ میسر نہیں ،غریبوں کو کھانا میسر نہیں ،کورونا سے حفاظت کے لیے لوگ گھروں میں قید ہو گئے ہیں اور ہونا بھی چاہیے لیکن جو لوگ کورونا کے علاؤہ دوسری بیماریوں سے لڑ رہے ہیں اور انہیں ان سے لڑنے اور اپنی زندگی کی حفاظت کے لئے جن دواؤں کی ضرورت ہے وہ ان تک نہیں پہنچ پا رہی ہیں ،ان کے لیے حکومت نے کیا انتظامات کیے ہیں میرے شہر کی معروف شاعرہ مینا نقوی صاحبہ جنکی لمبی زندگی کے لیے ہم سب دعائیں کرتے ہیں پھیپھڑوں کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں جو صرف اور صرف دواؤں اور آکسیجن کے ذریعے زندگی گزار رہی ہیں ان کی ضروری دواؤں میں ،Hydroxychloroquine نام کی دوا بھی شامل ہے لیکن افسوس کہ پچھلے دو ماہ سے میڈیکل اسٹوروں پر یہ دوائ مہیاء نہیں ہے کیا کریں کہاں سے لایں، اور یہ دقت صرف مینا آپا کو نہیں ملک بھر میں ایسی کتنی ہی مینا ہوں گی جنہیں اس دوا کی ضرورت ہوگی اس وقت دنیا کو کورونا سے جنگ کے لیے اس ہتھیار کی ضرورت ہے جس کی 70% فراہمی ہمارا ملک کرتا ہے اور جس کی خانہ پوری نہ کرنے پر امریکا نے ہمیں دیکھ لینے کی دھمکی دی ہے اور ہمارے ملک نے ایک سچے دوست کی مانند فوراً اسے فراہمی کی ہامی بھر دی لیکن یہ کیسا المیہ ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ اس دوا کے لیے ترس رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے ،میری والدہ ہائ بلڈ پریشر کی مریضہ ہیں ،دل کے اجزاء میں بھی مبتلا ہیں ،پت میں پتھر ہیں سرجری نہایت ضروری تھی لیکن ضروری دوا بھی میسر نہیں ڈاکٹرز ہاتھ رکھنے کو تیار نہیں۔ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں میرا سوال یہ ہے کہ ایسے ہزاروں لاکھوں مریضوں کی زندگی کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ سیکڑوں غریب مزدور جن کے گھروں میں معصوم بچے ہیں بوڑھے ماں باپ ہیں ،بچوں کو دودھ کی ضرورت ہے بزرگوں کو دوا کی ضرورت ہے اور ان کے پاس پیسے بھی ختم ہو گئے ہیں فرض کرو کہ کچھ ہمدرد اشخاص ان کے گھروں تک کھانا پہنچا بھی دیں تو باقی ضروریات کے لیے کیا کریں یہ لوگ کس طرح ان حالات کا سامنا کریں؟ حکومت کی طرف سے ان کی ضروری اشیاء کی فراہمی کے کیا انتظامات کیے گے ہیں؟ یہ لوگ کورونا سے اپنی حفاظت کریں یا بھوک سے مریں،میری نظر میں تو اس لاک ڈاؤن کا فائدہ بھی صرف ان زردار لوگوں کو ہی ہے جو پوری طرح خود کو آئسولیٹ کیے ہوے ہیں روزمرہ کی ضروری اشیاء ان کے پاس سینیٹائز ہو کر پہنچ رہی ہیں عام آدمی کے لیے اس کے کیا انتظامات ہیں وہ گھر سے باہر سبزی والے سے سبزی خرید رہا ہے کیا اس کی سبزی اور اسے خود کو سینیٹایز کر کے بھیجا جا رہا ہے ؟روز مرہ کا سامان ،اخبار والا ،کوڑے والا ،کیا حکومت نے ان سب کو سینیٹایز کرنے کے کوئ انتظامات کیے اور سب سے بڑی بات ملک کی کرنسی ہمارے نوٹ اور سکوں کو سینیٹایز کرنے کے لیے کیا اقدامات لیے گے ؟کیا جگہ جگہ چوراہوں پر اس بات کا انتظام کیا گیا ہے کہ جتنے بھی ہوم ڈیلیورڈ عوام کے رابطے میں آرہے ہیں وہ سینیٹایز ہوں؟ تاکہ گھروں میں قید رہتے ہوے کورونا کے جرثومے عوام تک نہ پہنچیں، یہ لوک ڈاؤن کے نام پر مذاق ہے ملک کے 130 کروڑ عوام کی زندگی خطرے میں ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ تبلیغی جماعت کے مرکز میں ہونے کے انکشاف کے بعد حکومت پوری طرح حرکت میں آ گئ اور ملک بھر سے جماعتیوں کو اٹھانے کی مہم جاری ہےاور ملک میں کچھ فرقہ پرست اور شر پسند طاقتوں نے اس واقعہ سے ہندو مسلم کا کارڈ کھیل دیا ہے نفرت کے جو بیج بو کر انکی آبیاری 6سال سے کی جا رہی تھی وہ فصل پک کر تیار ہو گئ ہے جو کام کرنے میں انگریز برسوں کی کوششوں کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے وہ ملک کی اس دلال میڈیا نے کر دکھایا یہ گودی میڈیا انگریزوں سے بھی خطرناک چالیں چل کر اپنی فتح محسوس کر رہی ہے مسلمانوں کے خلاف ایسی زہر افشانی کی کہ جماعت کے لوگ پولس پر تھوک رہے ہیں ،جماعت کے لوگ برہنہ ہو رہے ہیں جماعت کے لوگ کھلے میں قضائے حاجت کر رہے ہیں، جب کہ یہ سارے الزامات جھوٹھے اور بے بنیاد نکلے ،پولس نے اپنی زمہ داری کا ثبوت پیش کرتے ہوے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا لیکن اس سے کہیں نہ کہیں عوامی ذہنوں میں یہ بات ثبت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ کرونا مسلمانوں کا وائرس ہے اسے یہ لوگ ہی پھیلا رہے ہیں، ملک کے کونے کونے سے خبریں آ رہی ہیں کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کا بائکاٹ شروع کر دیا ہے ،،اپنے علاقوں میں مسلمانوں کے آنے پر پابندی عائد کر دی ہے ،کھانے پینے ملنے جلنے کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے اور انتہا یہ ہو گئ کہ ہندو مہاسبھا کی خاتون لیڈر پوجا شکون نے جماعت کے خلاف ایسا نفرت آمیز بیان دیا جسے سوچ کر بھی انسانیت شرمسار ہو جائے ، انہوں نے مودی جی کو خط لکھ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کو گولی ماری دینے کی اپیل کی اور کورونا کو بھلانے کا سارا الزام طبقہ خاص پر لگا دیا ،لیکن علیگڑھ پولس کا یہ قدم قابلِ ستائش ہے کہ انہوں اس خاتون کو اشتعال انگیز بیانات دینے اور دو فرقوں میں دشمنی پیدا کرنے کا مقدمہ درج کیا ، گودی میڈیا کی افواہوں سے معاشرے میں فرقہ واریت پھیلانے کی جو کوشش کی جا رہی ہے وہ پوری طرح کامیاب ہونا ممکن نہیں چونکہ اس ملک نے بڑی بڑی سازشوں کو شکست دیکر یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کی ہے جہاں ایک طرف دلال میڈیا ملک کے بھائی چارے اور محبت کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہی رویش کمار ،ابھیشار شرما ،پرسون واجپئی،ونود دوا ،شمبھو کمار سنگھ، اجیت انجم جیسے جاںباز اور حقیقت پسند صحافی بھی موجود ہیں ،سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں حقیقت پسند اور ایماندار ہندو بھائ موجود ہیں جو اس گودی میڈیا کی سچائی بیان کر رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نازک حالات میں ہم سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیں ان چینلز کا بائیکاٹ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ہمیں انہیں بند کرکے ایماندار صحافیوں کی رپورٹنگ سننی چاہیے ۔۔خاموشی صبر اور استقلال کے ساتھ ہمیں اپنے بھائی چارے کے پیغام کو عام کرکے ان فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینی ہے میں جانتی ہوں کہ میری ان تحاریر کا شاید کوئی بہت بڑا فرق نہ پڑے لیکن اس یقین کے ساتھ کہ ہر سیاہ رات کے بعد آفتاب اپنی ضیا سے زمین کے ذرہ زرہ کو منور کر دیتا ہے دل کے احساسات کو قلم کی بے چینی کے سبب سپردِ قرطاس کرنے کو مجبور ہو جاتی ہوں ۔۔۔کہ اللہ کریم یقیناً کوئی راستہ ضرور نکالےگا ۔۔٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here