غزل

0
181

غزل

محمد ارشد طالب لکھنوی

گر وہ میری جانب سے بدگماں نہیں ہوتا
فاصلہ بھی رشتوں کے درمیاں نہیں ہوتا
یہ سبق زمانے کو یاد پھر کرانا ہے
خیر کا عمل کوئی رائگاں نہیں ہوتا
دردو غم کی بارش میں ہم نہا گئے ہوتے
ماں کی شفقتوں کا گر سائباں نہیں ہوتا
ان کے نور کی پھیلی گر ضیا نہیں ہوتی
یہ جہاں قیامت تک ضو فشاں نہیں ہوتا
پوچھئے شبیں ان کی کس طرح گذرتی ہیں
پاس جن غریبوں کے آشیاں نہیں ہوتا
زندگی ہماری بھی کتنی پر سکوں ہوتی
خواہشوں کا گر دل میں کارواں نہیں ہوتا
جس طرح درندوں نے اک کلی کو مسلا ہے
وہ زبان سے اپنی بس بیاں نہیں ہوتا
صبر وضبط کا دامن جب سے ہم نے تھاما ہے
’’اب ہمارے چہرے سے غم عیاں نہیں ہوتا‘‘
منزلوں کو پانے کی جستجوکہاں ہوتی
حوصلہ ترا طالب گر جواں نہیں ہوتا

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here