شمس الرحمٰن فاروقی کا جانا اردو ادب کے لیے خسارہ عظیم ہے. میرے لیے بھی ذاتی نقصان ہے۔ پہلی بار جولائی 1996 میں غالب اکیڈمی میں انھیں سننے کا اتفاق ہواتھا۔ موجودہ نسل کی ادبی تربیت میں فاروقی صاحب کا کلیدی رول ہے.
فاروقی صاحب سے ایک قلبی تعلق تھا. گریجویشن کے زمانے سے یہ تعلق ایسا قائم ہوا کہ اس کی تازگی کبھی کم نہ ہوئی. یہ خوش نصیبی بھی کم نہیں کہ جہاں ان کی محبتیں اور عنایتیں شامل حال رہیں وہیں ان کی ڈانٹ ڈپٹ نے بھی بہت کچھ سکھایا.
فاروقی صاحب کے ساتھ سفر کے مواقع بھی ملے اور مختلف ادبی پروگراموں میں ان کے ساتھ شریک ہونے کی سعادت بھی. لکھنو آنے کے بعد ان ان سے مزید تعلق استوار ہوا اور ایک بار اویس سنبھلی اور عزیزی اطہر حسین کے ساتھ ان سے ملاقات کے لئے آلہ آباد کا سفر بھی کیا. کیسی کیسی ان کی محبتیں اور عنایتیں شامل حال رہی ہیں.
ادھر کئ برسوں سے میں خان محبوب طرزی پر کام کررہا تھا. میری کتاب خان محبوب طرزی :لکھنو کا مقبول ناول نگار جو کہ زیر طبع ہے. دو سال قبل جب اس کتاب کے بارے میں ذکر کیا اور پہلا مسودہ دکھا یا تو بے انتہا مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ کتاب میں طرزی کا ایک سائنسی ناول سفر زہرہ بھی شامل کرلو. تمہارے کام سے طرزی کی روح خوش ہوجائے گی۔
کتاب کے بارے میں معلوم کرتے رہے. انھوں نے طرزی کے بعض ناولوں کے بارے میں بتایا بھی. خیال تھا کہ دسمبر اوائل میں کتاب چھپ جائے گی. آنھوں نے کتاب کے لیے پیش لفظ لکھنے کا وعدہ کیا تھا. 8 نومبر کو فون آیا کہ میل آئی ڈی بتاؤ دو صفحے گھسیٹ دیے ہیں.اب لکھا نہیں جاتا. طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے.
غالباً یہ ان کا کسی کتاب پر آخری پیش لفظ ہوگا.
ان کی محبت اور عنایت ہمیشہ شامل رہی. میری پہلی مرتبہ کتاب مولانا ابو اللیث ندوی کے قرآنی مقالات 2000 میں چھپ کر آئ تو ایک کاپی میں نے فاروقی صاحب کو پیش کی . آنھوں نے تعریف کی. قرآن مجید اور سجع پر مولانا کے مضمون کی تلخیص شب خون میں شائع کی.
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا