سلمیٰ صنم کے افسانوں میں تانیثی مزاحمت

0
450

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

حقانی القاسمی

ہر وجود ایک کہانی ہے اور ہر چہرہ ایک چرتر۔
یہ انسانی آنکھوں کی قوت اور ادراک پر منحصر ہے کہ وجود اور چہرے سے کس طرح کہانیاں کشید کی جائیں اور انسانی وجود کے تحیر اور تجسس کو کس طرح پیرایۂ اظہار میں ڈھالا جائے۔ کہانی صرف طلسماتی محلوں میں نہیں بلکہ پرہجوم معاشرے میں بھی تشکیل پاتی ہے۔ اور ایسی کہانیاں زیادہ زندہ ہوتی ہیں جو زندگی سے بھرپور معاشرے میں جنم لیتی ہیں۔ ہجوم سے پیدا ہونے والی کہانیاں ایک نیا شعور دے جاتی ہیں۔
سلمیٰ صنم نے سماجیاتی ڈھانچہ اور نئے شعور کی کہانیاں ترتیب دی ہیںکہ سلمیٰ صنم اپنے معاشرے کی حرکیات اور اپنے عہد کی ذہنی ترجیحات سے آگاہ ہیں۔ اپنے وقت کے مطالبات سے بھی واقف ہیں۔ بازارواد اور صارفیت کے منفی اثرات پر بھی ان کی نظر ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ آج کا انسان بازار میں بدل چکا ہے۔ وہ بازاری اور مادی تہذیب کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ ہر شئے کو بلکہ رشتوں کو بھی نفع و ضرر کے میزان میں تولتا ہے اور اپنی منفعت اور مفاد کے لئے اپنے ضمیر اور ذہن کا بھی سودا کر سکتا ہے۔
آج کی عورت بھی بازار کا ایک حصہ بنا دی گئی ہے اور وہ بھی صارفیت کے شکنجے میں جکڑی جا چکی ہے اس لئے عورت آج کے عہد کا ایک بڑا اہم موضوع ہے۔ سلمیٰ صنم نے اپنے افسانوں میں اسی موضوع کو مرکزیت دی ہے۔ یہی وہ تھیم ہے جس کے ارد گرد ان کی کہانیاں طواف کرتی ہیں۔ انہوں نے اس نسائی درد کو اپنا موضوع بنایا ہے جس درد سے پیدائش سے لے کر موت تک عورت کا گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ انہو ںنے جب عورت کی داخلی ذات پر اپنی نگاہ کو مرکوز کیا تو انہیں احساس ہوا کہ جس طبقہ یا نسل سے ان کا تعلق ہے وہ طبقہ تو صدیوں سے کشتۂ تیغ ستم ہے۔ اس کے پورے وجود پر زخموں کے گہرے نشانات ہیں۔ صدیوں کے بعد بھی عورت کی تصویر اور تقدیر نہیں بدلی ہے۔ اصطلاحات اور الفاظ ضرور بدل گئے ہیں مگر ان میں وہی پرانے مفاہیم پنہاں ہیں۔ چاہے اساطیر کا عہد ہو یا سائنسی ترقیات کا دور۔ ہر عہد میں عورت استحصال کا شکار رہی ہے۔ قدیم زمانے کا نیوگ ہو یا آج کے عہد کی سروگیسی ؍ Artificail Insemination عورت صرف جنسی معروض اور استحصالی شئے بن کر رہ گئی ہے۔
سلمیٰ صنم نے اپنے افسانوں میں عورت کے اُن بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کی ہے جو ازل سے ہیں اور شاید ابد تک رہیں گے۔ انہوں نے جہیز، طلاق، بے وفائی، ہوس پرستی، عورت کی بے بسی اور استحصال کی جملہ شکلوں کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان کے تمام نسائی کردار مضبوط اور فاعلی ہیں۔ ہزیمت خوردہ نہیں۔ یہ کسی بھی محاذ پر شکست تسلیم نہیں کرتے بلکہ مزاحمت کرتے ہیں۔ اپنے وجود، تشخص اور وقار کی جنگ لڑتے ہیں۔ یہ احساس دلاتے ہیں کہ عورت کومل ضرور ہے مگر کمزور اور کمتر نہیں۔وہ مذہبی رسومات اور اقدار کے خلاف احتجاج کی قوت بھی رکھتی ہے۔ اپنی عصمت اور آبرو اور وقار کے تحفظ کے لئے سماجی، مذہبی قدر کی بھی پرواہ نہیں کرتی کہ قدیم مذہبی رسوم کی آڑ میں بھی اسے جنسی اور جسمانی استحصال کی شکل دکھائی دیتی ہے۔ جو صرف عصمت اور وقار کی ہزیمت نہیں بلکہ نسائی وجود کی شکست کا بھی مظہرہے۔
سلمیٰ صنم کے افسانوں کا وصف خاص تانیثی اِذعان) (Female Assertiveness ہے۔ ادعائی آواز، بلند آہنگی اور اپنے خودمختار وجود کا احساس یہ وہ اوصاف ہیں جو ان کے نسائی کرداروں کو بہت مضبوط بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ وصف ہے جس کی وجہ سے سلمیٰ صنم کے افسانوں میں تانیثی مزاحمت کی ایک مضبوط صورت نظر آتی ہے۔ ان کے کئی افسانوں میں یہی اذعان ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں عورت کسی بھی صورت حال میں شکست تسلیم نہیں کرتی بلکہ احتجاج اور مزاحمت کرتی ہے۔ ’یخ لمحوں کا فیصلہ‘ ایسی ہی کہانی ہے جس میں مرد بیٹا چاہتا ہے مگر عورت کی کوکھ میں لڑکی ہے۔ سب لوگ اس کو نیست و نابود کرنے کی سازش کرتے ہیں مگر ثانیہ جو اس کا نسائی کردار ہے وہ مزاحمت کرتے ہوئے کہتی ہے:
’’جدید ترین ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر عورت ذات کی رسوائی مت کیجئے۔‘‘ وہ بھڑک کر بولی۔
’’عورت خدا کی حسین ترین مخلوق ہے۔ میں اس کو جنم دوں گی۔ بار بار جنم دوں گی۔‘‘
’’تو اس کی ذمہ دار تم خود رہوگی۔ میں لڑکے کی خاطر ایک اور شادی کروں گا‘‘ منصور نے اپنا فیصلہ سنا دیا اور ثانیہ کو سوچتا چھوڑ گیا۔
فیصلہ یخ لمحوں کا فیصلہ… نہیں… نہیں۔ پھر قبل پیدائش لڑکیوں کا قتل کس لئے؟ اس طرح سے عورت ختم ہو جائے گی۔ کیا وہ Endangered speceisبن کر رہ جائے گی۔ سوچتے سوچتے ثانیہ کو جھر جھری سی آگئی۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ اس کے اندر ایک چنوتی سی ابھر آئی۔
’’میری بچی‘‘ اس نے اپنی کوکھ سہلاتے ہوئے عزم سے بھرپور لہجے میں کہا۔
’’تم گھبرائو مت۔ شاید تمہارے ابو کو تمہاری وجہ سے جنت بدر کئے جانے کا خوف ہو لیکن میں تم سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ تم تو میری جان ہو۔ میں تمام مخالفت کے باوجود تمہیں جنم دوں گی اور اس زمیں پر پروان چڑھنے کا حق بھی۔ اس کو لگا بچی نے خوشی سے ایک کلکاری ماری ہو۔ ثانیہ کے چہرے پر ممتا کا نور پھیل گیا۔‘‘
اسی طرح’’آرگن بازار‘‘ کی ثمین بھی ایک Assertive Character ہے۔ وہ یہ کہتی ہے:
’’چلایئے مت امیر صاحب، وہ سفاکانہ لہجے میں بولی ’’جائیے اپنی راہ لیجئے‘ ہماری شادی ممکن نہیں‘ میں نہیں چاہتی کہ ہماری آنے والی نسل اس بات پر شرمندہ ہو کہ وہ آدھے ادھورے انسانوں کی اولاد ہے۔‘‘
’’پانچویں سمت‘‘ کی رجنی بھی ایسی ہی ایک ادعائی کردار ہے جو مہاراج کے منہ پر تھپڑ مار کے کہتی ہے:
’’یہ پاپ ہے‘‘
’’نہیں دیوی‘‘ مہاراج پر جیسے کوئی اثر ہی نہ ہوا، وہی محسوساتی مسکراہٹ ، وہی مقناطیسی کشش لیے بولے۔ ’’یہ پراچین کال سے چلی آرہی پر تھا ہے جسے نیوگ کہتے ہیں، دھرم گرنتھوں میں اس کے کئی اداہرن ہیں۔‘‘
’’اپنی ہوس کو پرتھا کا نام دیتے ہو، شرم آنی چاہئے تمہیں۔‘‘ وہ اور غضبناک ہوگئی۔
’’کٹھ پتلی‘‘ کا نسائی کردار آسیہ بھی ایک مضبوط نسائی کردار ہے جو اپنے مجازی خدا شوہرکی حرکتوں کو دیکھنے کے بعد کہتی ہے:
’’اف!! کس بے وفا سے میں نے عمر بھر وفا کی تھی۔ میرا من بہک اٹھا۔ پندار کو زبردست ٹھیس لگی۔ انا کا ناگ پھن پھیلائے کھڑا ہوگیا۔ میرے کون و مکان میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ نہیں آسیہ۔ نہیں۔ تم اس Puppet Show کی کٹھ پتلی نہیں‘‘ اور میں نے اپنے اندر ایک عورت کو جاگتے محسوس کیا جس کا اپنا ایک ذہن تھا۔ آواز بھی تھی۔‘‘
سلمیٰ صنم نے استحصال نسواں کے تعلق سے جوافسانے تحریر کئے ہیں ان میں ’پانچویں سمت‘ اور ’میری‘ اس لحاظ سے قابل ذکر ہیں کہ ان دونوں افسانوں کے ذریعہ انہوں نے استحصال کا رشتہ قدیم اسطوری عہد اور سائنسی ترقیات کے نئے عہد سے جوڑا ہے ۔ ’پانچویں سمت‘ نیوگ کے تصور پر مبنی ہے۔ جو کہ ایک قدیم مذہبی رسم ہے جس کا ذکر ہندوئوں کے کئی مقدس صحیفوں منو اسمرتی اور مہابھارت میں ملتا ہے۔ نیوگ کی صورت یہ ہے کہ اس میں مرحوم کی بیوی کے ساتھ جماع کرکے اولاد پیدا کی جا سکتی ہے۔ یا جس عورت کو اولاد نہ ہوتی ہو تووہ کسی دوسرے مرد سے بچے پیدا کر سکتی ہے۔ یہ نیوگ بھی مشروط ہے مگر ان شرطوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس میں بائیلوجیکل فادر کا نام نہیں ہوتا۔ یہ بچہ کسی اور کے نام منسوب ہوتا ہے۔ نیوگ کی یہ رسم بھی عورت کے وجود اور وقار کے خلاف ہے۔مگر مذہب کی آڑ میں یہ رسم جاری ہے اور پرتھا کے نام پر عورت کا جنسی اور جسمانی استحصال کیا جاتا ہے۔ نیوگ کے تعلق سے بہت سی کہانیاں بھی لکھی گئی ہیں اورکئی ناولوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ حال ہی میں Perumal Murrugan نے Mathurobhagan کے عنوان سے اس رسم کے حوالے سے ایک ناول لکھا تھا اور اس میں اس جنسی بے راہ روی کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی جس پر کافی ہنگامہ بھی ہوا۔ اس کے علاوہ ثروت خان نے اپنے ناول ’’اندھیرا پگ‘‘ میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ سلمیٰ صنم کی اس کہانی میں بھی عورت کے استحصال کی اس شکل کے خلاف احتجاج ملتا ہے کیو ںکہ رجنی جو اس کہانی کا کردار ہے۔مذہبی پرتھا کے باوجود مہاراج کے منہ پر تھپڑ مار دیتی ہے اور اس رسم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ اسی طرح ’’میری‘‘ جیسی کہانی میں بھی آج کی استحصالی شکل کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔ عورت کا یہ استحصال ’سروگیسی‘ یعنی تاجیرالرحم یا الحمل البدیل کے طور پر ہوتا ہے۔ یہ بھی عورت کے وقار اور وجود پر ایک بدنما داغ ہے۔ سروگیسی پر بھی کئی کہانیاں لکھی گئی ہیں جس میں اس شرمناک حرکت کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔ میرا سیال کا ایک ناول The Hous of hidden Mother ایک اچھا ناول ہے جس میں سروگیسی اور عورتوں کے کمرشیلائزیشن کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے۔ سلمیٰ صنم کی کہانی ’’میری‘‘ بھی اسی موضوع پر ایک اہم کہانی ہے۔ جس میں ’میری‘ کا شوہر جارج اس کی کوکھ کا بیوپار کرتا ہے۔ مگر ’میری‘ کو اس کا دکھ ہوتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ مصنوعی طریقے سے اس کے وجود میں جو ایک ننھی سی کرن داخل کی گئی ہے وہ اس کا انش ہے لیکن وہ کسی اور کے حصے میں چلی جائے گی۔ وہ اندر اندر پریشان ہوتی رہتی ہے۔ اضطراب کے عمل سے گزرتی ہے مگر پیسے کی وجہ سے وہ سروگیسی کے لئے مجبور ہو جاتی ہے۔ اسے اپنی گود کے خالی ہونے کا غم ستاتا رہتا ہے۔ مگر مرد کے جبر کے سامنے وہ مجبور ہو جاتی ہے۔ سلمیٰ صنم کی ان دونوں کہانیوں میں استحصال کی پرانی اور نئی دونوں شکلوں کے خلاف پرزور احتجاج ملتا ہے اور یہی احتجاجی رویہ ان کے بیشتر افسانوں میں ہے اور یہی ان کا انفراد ہے۔
سلمیٰ صنم کہانی کہنے کے آرٹ سے واقف ہیں۔ وہ مختصر مگر متاثر کن کہانیاں لکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت مختصر عرصے میں خواتین افسانہ نگار وں میں انہو ںنے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی ہے۔ کہانی کے موضوع اور اسلوب دونو ںکے اعتبار سے ان کی کہانیاں تنقیدی حوالوں میںشامل ہیں۔ وہ بنیادی طور پر سائنس کی اسکالر ہیں اس لئے ان کے افسانوں میں سائنسی شعور بھی ملتا ہے۔ یہ ان کی کہانیوں کا ایک نیا زاویہ ہے جس پر الگ سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ’’طور پر گیا ہوا شخص‘‘ اور ’’پت جھڑ کے لوگ ‘‘ کافی مقبول ہیں۔ مجھے امید ہے کہ سلمیٰ صنم کا یہ افسانوی سفر نئی منزلوں کو طے کرنے میں ضرور کامیاب ہوگا۔
[email protected]
Cell:9891726444

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here