عالم نقوی
اپنے وقت کا نیوٹن اور ہمارے زمانےکا آئن اسٹائن،نوبیل انعام یافتہ سائنسداں اور ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم ‘ جیسی کروڑوں کی تعداد میں شایع اور فروخت ہونی والی کتاب کا مصنف ۔۔اسٹیفن ہاکنگ۔۔ جو انسان کے لیے کائنات کو مسخر کیے جانے کا زندہ ثبوت تھا ۔۔نہیں رہا ۔۷۶ سال کی عمر میں،عین ، آئن اسٹائن کی سالگرہ کے روز، اِس دار ِفانی سے کوچ کر گیا ۔لیکن اِس ستم ظریفی کو ضبط تحریر میں لانے کے لیےہمارے پاس الفاظ نہیں کہ آخر ،سِرِّ کائنات کو پا لینے کے باوجود، وہ خالق کائنات کے وجود کے اقرار میں کیوں ناکام رہا؟
اسٹیفن ہاکنگ کے دنیا سے گزر جانے کی اطلاع ہمیں سوشل میڈیا پر صفی سرحدی کی پوسٹ سے ملی ۔وقت کے اس زندہ معجزے نے اپنی زندگی کے پچاس سے قیمتی ماہ و سال اس طرح گزارے کہ دماغ اور پلکوں کے سوا اس کے تمام اعضائے جسمانی مفلوج اور ناقابل حرکت تھے ۔طبی ماہرین تو ۱۹۷۴ ہی میں ہاکنگ کو الوداع کہہ چکے تھے لیکن اس نے وہ کر دکھایا جس کی توقع بھی فی زمانہ مفقود ہے۔اس نے’ تاریخ زمان و مکان ‘(اے بریف ہسٹری آف ٹائم کا اردو ترجمہ )جیسی مقبول ترین سائنسی کتاسب لکھی جو پوری دنیا میں ناولوں اور افسانوں سے زیادہ فروخت ہوئی ۔شاید ہی دنیا میں کوئی بڑی ، قابل ذکر اور زندہ زبان ایسی ہو جس میں اس کا ترجمہ نہ ہوا ہو !
ایک بار ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ علم کا سب سے بڑا دشمن جہل نہیں ،علم ہونے کا وہم ہونا ہے ‘‘!لیکن جب ایک صحافیہ نے اس سے سوال کیا کہ وہ اللہ کے وجود میں یقین رکھتا ہے ؟تو اس نے دو ٹوک جواب دیا تھا : ’نہیں ‘ً ہماری یہ دلی خواہش تھی کہ اس نابغہ روزگار کا خاتمہ ’’با لخیر ‘‘ہو لیکن ۔۔ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ۔۔!
کیمبرج یونیورسٹی کے سائبر ماہرین نے پہلے تو ایک ایسا غیر معمولی کمپیوٹر ایجاد کیا جو نہ صرف ہاکنگ کے دماغ کو پڑھ سکتا تھا بلکہ اس کی پلکوں کی حرکت کو الفاظ میں ڈھال کر سامعین کو اس کے خیالات سے واقف بھی کرا سکتا تھا ۔ یہ ٹاکنگ کمپیوٹر اس کی وہیل چئیر سے منسلک کر دیا گیا ۔وہ اپنے خیالات پلکوں سے کمپیوٹر پر منتقل کرتے اور اسکرین پر نہ صرف یہ الفاظ ٹائپ ہوتے بلکہ آواز میں نشر بھی ہوتے جاتے۔اس طرح وہ اپنی پلکوں سے بولتے اور پوری دنیا انہیں سنتی۔
۱۹۹۰ کی دہائی میں دنیا کی بعض بڑی کمپنیوں کی مدد سے انہوں نے دنیائے انسانیت کی ایک اور خدمت شروع کی ۔ان کا کمپیوٹر وہیل چئیر کو اسٹیج پررکھ دیا جاتا اور وہ لوگوں کو خطاب کرتے کہ ۔۔۔’’اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں ،اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں ،اگر میں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ ،جن کے سارے اعضا سلامت ہیں ،جو چل سکتے ہیں ،جو دونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے ہیں ،جو کھا پی سکتے ہیں ،جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اور جو اپنے تمام خیالات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں ؟ ‘‘